الزام تراشی کی سیاست کب تک چلے گی؟


حزب اختلاف کے گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس عدم برداشت سے عبارت مروجہ سیاست سے جمہوریت اور ملکی نظام کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچنے کا زیادہ اندیشہ ہے، سیاسی قیادت سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے دست گریباں ہے، وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو کوئی رعایت نہیں ملے گی اوراداروں کے خلاف بیانئے کا بھر پور جواب دیاجائے گا، جبکہ اپوزیشن کادعویٰ ہے کہ ناجائز حکومت بہت جلد جانے والی ہے۔

حکومت اور اپوزیشن مفاہمت کی بجائے انتشار کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جا رہی ہے، اس طرح کے رویوں کا ماضی میں کیا نتیجہ نکلا، اس پر بحث اٹھانے کی بجائے ارباب اختیار اور حزب اختلاف سے یہی درخواست کی جا سکتی ہے کہ جوش میں ہوش قائم ودائم رکھیں، ایک دوسرے کو گرانے میں اتنے دور نہ نکل جائیں کہ واپسی مشکل ہو جائے، خیال رہے کہ اس سیاسی لڑئی سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیسری قوت تیار بیٹھے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بخوبی ادراک ہے کہ دونوں کی لڑائی کا فائدہ کوئی تیسرا ہی اٹھائے گا، اس کے باوجود ذاتی مفاد کے پیش نظرجمہوریت کو داؤ پر لگایا جا رہا ہے، سیاسی قیادت کو کوئی سروکار نہیں کہ ان کی لگائی آگ اداروں کے دامن تک جا پہنچی ہے، اگر اداروں کو لڑانے کی سازشیں اور آگ سے کھیلنے کا عمل یک طرفہ ہوتا تو اتنی تشویشناک بات نہ ہوتی، لیکن یہاں تو سیاسی مقاصد کے حصول میں دوطرفہ عمل جاری ہے۔

اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام تراشی کے ذریعے سیاسی درجہ حرات بڑھا رہے ہیں، اس سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا حکومت کے مفاد میں بہتر ہے، مگر مفاہمتی پیش رفت کی بجائے شیخ رشید فروری میں اپوزیشن پر جھاڑو پھرنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کو سیاسی معاملات سڑکوں کی بجائے، ایوان میں مل بیٹھ کر حل کرنے چاہیے، تاکہ مشکلات کا شکار عوام کے مسائل میں مزید اضافہ نہ ہو، لیکن شایدحکومت اور اپوزیشن کی ترجیح کبھی عوا م نہیں رہے ہیں۔

عوام نے توآزمائے ہوں کو ٹھکرا کر تحریک انصاف حکومت سے امید لگائی تھی، مگردو سال گزرنے کے بعد بھی عوام کو الزام تراشی کی سیاست کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی سے عام شہری مایوسی کا شکار ہے۔ عوام الناس نے ووٹ کے ذریعے نئی قیادت کا چناؤ اس لئے کیا تھا کہ انہیں درپیش مسائل کا تدارک ہو، تعمیر وترقی کے نئے دروازے کھلیں، مگر یہاں توسیاسی قائدین کے درمیان نہ ختم ہونے والی الزام تراشی کی سیاست جاری ہے۔

عوام کے مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، غربت اور بیروزگاری میں دو سالہ دوراقتدار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، جبکہ حکمران عوام کو زبانی کلامی دلاسے دے رہے ہیں کہ اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔ ارباب اختیار کو بطورخاص سمجھنا ہوگا کہ محض صحت کارڈ، لنگر خانے اور سستے بازار جیسے وقتی اقدامات عوامی مسائل کا حل نہیں، حکومت ٹھوس حکمت عملی اور قابل عمل پالیسیوں کے ذریعے ہی عوام کی مشکلات کا حقیقی حل تلاش کرنے میں کا میاب ہو سکتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام کے مسائل کے تدارک کے ساتھ کرپٹ سیاسی قیادت کا احتسابی عمل بھی جاری رہنا چاہیے، تاہم یک طرفہ احتسابی عمل کے تاثرنے عدم اعتماد کی خلیج وسیع کی ہے۔ عمران خان 22 سال تک بلا امتیاز احتساب کے نعرہ پر جدوجہد کرتے رہے ہیں، اقتدار میں آنے کے بعدعوام ان سے یہی توقع کر رہے تھے کہ بلا تاخیر اور

بلا امتیاز احتسابی عمل کو یقینی بنایا جائے گا، لیکن گزرتے وقت کے ساتھاحتسابی عمل پر سوال اٹھنے لگے ہیں، اس کا تدارک کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اپوزیشن جلسے اور تحریکوں سے نہ کوئی حکومت گئی نہ موجودہ حکومت جائے گی، وزیراعظم کواپوزیشن رہنماؤں کے بیانات اور جلوسوں پر غصہ کرنے کی ضرورت نہیں، حزب اختلاف تو یہی چاہے گی کہ حکومت اصل فرائض سے توجہ ہٹاکر دیگر مسائل میں الجھی رہے اور اس کا بیانیہ مضبوط ہو جائے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست آخرکب تک چلے گی؟

یہ حکمران قیادت کے سیاسی شعور اور اہلیت کا امتحان ہے کہ اپوزیشن کے داؤ میں آنے کی بجائے، اپنے حقیقی فرائض پر توجہ دے، ایک دوسرے پر اوزیراعظم اپنے وزراء اور مشیروں سے اپوزیشن الزام تراشی کامقابلہ کروانے کی بجائے اپنے فرائض کی انجام دہی پر توجہ مرکوز کروائیں، تاکہ حکومتی کارکردگی بہتر ہو اور عوام ماضی کے ادوار اور موجودہ دور کے حالات بارے آزادانہ رائے قائم کرسکیں، عوام میں مثبت رائے تبھی قائم اور برقرار رہ سکتی ہے کہ جب انہیں احساس ہوگا کہ حکومت کو نہ صرف ان کے مسائل ومشکلات کا احساس ہے، بلکہ اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے مسائل سے نجات دلانے کے لئے بھی سنجیدہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).