لکھنؤ ٹیسٹ 1952: جب فضل محمود اور نذر محمد غزل سننے بیگم اختر فیض آبادی کے گھر گئے


ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا استحقاق ملنے کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اپنی پہلی ٹیسٹ سیریز انڈیا کے خلاف سنہ 1952 میں کھیلی۔

23 اکتوبر سے 26 اکتوبر کے درمیان لکھنؤ میں کھیلے گئے اس سیریز کے دوسرے ہی ٹیسٹ میں پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز، 43 رنز سے شکست دے کر اُن سب کرکٹ ماہرین کو حیران کر دیا جو پاکستان کو نووارد اور ناتجربہ کار سمجھتے ہوئے اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔

پاکستانی ٹیم کی لکھنؤ ٹیسٹ میں جیت کے دو مرکزی کردار تھے، اوپنر نذر محمد اور میڈیم فاسٹ بولر فضل محمود ۔ یہ دونوں یک جاں دو قالب تھے۔

نذرمحمد نے لکھنؤ میں پاکستان کی اولین ٹیسٹ سنچری بنانے کا منفرد اعزاز حاصل کیا اور وہ 124 رنز بنا کر اننگز کے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 30 سال بعد اُن کے بیٹے مدثر نذر نے بھی انڈیا ہی کے خلاف لاہور ٹیسٹ میں 152 رنز بنائے تھے اور وہ بھی اننگز کے آغاز سے اختتام تک ناٹ آؤٹ رہے تھے۔

لکھنؤ ٹیسٹ میں اگر جیت کا سکرپٹ نذر محمد کی سنچری سے شروع ہوا تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والے فضل محمود تھے، جنھوں نے پہلی اننگز میں 52 رنز دے کر پانچ اور دوسری اننگز میں 42 رنز کے عوض سات وکٹیں حاصل کیں۔

یہ بھی پڑھیے

جب عمران خان نے تماشائی لڑکے کا گلا دبوچ لیا

اسرائیلی شہری کی پاکستانی کرکٹرز سے والہانہ محبت کی داستان

سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے 10 سال: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘

لکھنؤ ٹیسٹ کے دوران میدان میں جو کچھ ہوا وہ اپنی جگہ اہم، لیکن میدان سے باہر بھی جو کچھ ہوا وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔

اندرا گاندھی

’آپ کے لیے نیک تمنائیں لیکن آپ میچ نہیں جیت سکتے‘

اندرا گاندھی کا طنزیہ فقرہ

دہلی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ کے موقع پر انڈین وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو بھی میچ دیکھنے کے لیے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ آئے تھے۔ نہرو کا میچ کے آغاز پر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں سے تعارف بھی کرایا گیا۔ انڈین وزیر اعظم کے ساتھ ان کی بیٹی اندرا گاندھی بھی تھیں، جو خود بعد میں انڈیا کی وزیراعظم بنیں تھیں۔

میچ کے دوران اندرا گاندھی کا فضل محمود پر کسا گیا طنزیہ فقرہ بہت مشہور ہوا۔ فضل محمود جب اندرا گاندھی کے قریب سے گزرے تو انھوں نے کہا ’آپ کے لیے نیک تمنائیں لیکن آپ میچ نہیں جیت سکتے۔‘ اندرا گاندھی نے غالباً یہ بات ایک سے زائد بار کہی تھی۔

پاکستانی ٹیم دہلی ٹیسٹ ہارگئی تو فضل محمود نے اندرا گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’اگر آپ پاکستانی ٹیم کی جیت دیکھنا چاہتی ہیں تو لکھنؤ ضرور تشریف لائیے گا۔‘

فضل محمود بتاتے ہیں کہ ’جب پاکستانی ٹیم دہلی ٹیسٹ ہارنے کے بعد لکھنؤ پہنچی تھی تو میری بیگم کا ٹیلیگرام بھی آیا ہوا تھا جس میں انھوں نے مجھ سے سات وکٹیں لینے کی فرمائش کر دی تھی۔‘

پاکستانی کرکٹرز کی نگرانی

پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس دورے میں انڈین خفیہ ادارے کے اہلکار اُن کا تعاقب کیا کرتے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’یہ لکھنؤ ٹیسٹ شروع ہونے سے ایک رات پہلے کا واقعہ ہے۔ میں ابھی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہی ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کمرے میں آنے والے شخص کو میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ خفیہ ادارے سے ہیں اور میری آمد ورفت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے آئے ہیں۔‘

پاکستانی ٹیم جب امرتسر پہنچی تو وہاں بھی کھلاڑی سخت پہرے میں ہوٹل میں رہے تھے۔

ٹیم کے تین کھلاڑی مقصود احمد، خورشید احمد اور وقار حسن شہر میں گھومنا چاہتے تھے کیونکہ اُن کی پرورش امرتسر میں ہوئی تھی لیکن انھیں کھلے عام باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔

وقارحسن کے لیے یہ صورتحال خاصی جذباتی تھی کیونکہ ان کے نانا اور نانی تقسیمِ ہند کے دوران ہونے والے فسادات میں قتل کر دیے گئے تھے۔ وہ ان کا گھر دیکھنے جانا چاہتے تھے لیکن دیکھ نہ پائے۔

ٹیم کی بس میں چاندنی راتیں۔۔۔

کرکٹ مؤرخ نجم لطیف بتاتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم لکھنؤ ٹیسٹ جیت کر جب واپس ہوٹل پہنچی تو فضل محمود نے دیکھا کہ نذر محمد سج دھج کے تیار ہو کر کہیں باہر جانے کے موڈ میں ہیں۔ فضل محمود نے پوچھا اتنا تیار ہو کر کہاں جا رہے ہیں؟ جواب ملا ملکۂ غزل بیگم اختر فیض آبادی سے ملنے جا رہا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ فضل محمود بھی ان کے ساتھ ہو لیے۔

جب یہ دونوں بیگم اختر کے گھر پہنچے تو ملازم نے انھیں مہمانوں کے کمرے میں بٹھا دیا۔ کافی دیر انتظار کے بعد دونوں اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے کہ اچانک اُن کی نظر برابر والے کمرے پر پڑی تو انھوں نے دیکھا کہ بیگم اختر نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگ رہی ہیں۔

فضل محمود اور نذر محمد کو دیکھ کر وہ چونک گئیں اور کہنے لگیں آپ کو تو میچ میں ہونا چاہیے تھا۔ انھیں بتایا کہ پاکستانی ٹیم میچ جیت چکی ہے جس پر وہ بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں میں پاکستانی ٹیم کے لیے خصوصی دعائیں کرتی رہی ہوں۔

بیگم اختر فیض آبادی نے اس موقع پر نذر محمد اور فضل محمود کی فرمائش کو اپنی مشہور غزل ’دیوانہ بنانا ہے‘ سنائی۔

فضل محمود نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے ’نذر محمد جتنے زبردست کرکٹر تھے اتنے ہی اچھے گلوکار بھی تھے۔ اسی دورے میں جب ٹیم بس میں سفر کر رہی ہوتی تھی تو کھلاڑیوں کا گانا گانا معمول کی بات تھی۔‘

’نذر محمد اس کی ابتدا کرتے تھے جس میں مقصود احمد، وقارحسن اور میری آوازیں شامل ہو جایا کرتی تھیں۔ کبھی بس میں نورجہاں کا مشہورگانا ’چاندنی راتیں‘ گونج رہا ہوتا تھا تو کبھی ’دل میں سلگتے ہیں ارمان‘ یا پھر ’لگ گیا کسی دے نیناں دا نشانہ۔‘

فضل محمود اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں ’پاکستانی ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں مشہور گلوکار طلعت محمود بھی مدعو تھے جنھوں نے دو گھنٹے تک غزلیں اور گیت سنائے۔ جب وقفہ ہوا تو نذر محمد سے کچھ گانے کے لیے کہا گیا۔ جب نذر محمد نے ‘پیا بن نہ آئے چین’گایا تو طلعت محمود حیران رہ گئے۔‘

فضل محمود کے مطابق نذر محمد کے بڑے بھائی فیروز نظامی مشہور میوزک ڈائریکٹر تھے اور خود نذر محمد نے ایک مشہور گانے ‘آجا بلم آئی بہاریں’ کی موسیقی ترتیب دی تھی۔

اخبار میں صرف تمہاری تصویر شائع نہیں ہوگی

لکھنؤ ٹیسٹ میں جب نذر محمد نے سنچری مکمل کی تو وہ بڑے فخر سے فضل محمود کو کہنے لگے ’کل اخبار میں میری تصویر شائع ہو گی۔‘ فضل محمود نے فوراً جواب دیا ’صرف تمہاری ہی نہیں بلکہ ایک اور بھی تصویر ہو گی۔‘

اگلے دن اخبار میں نذر محمد کے ساتھ فضل محمود کی بھی تصویر شائع ہوئی تھی جنھوں نے انڈین بیٹنگ لائن کو تتر بتر کر کے رکھ دیا تھا۔

لکھنؤ کے گراؤنڈ کا آخری نظارہ

لکھنؤ ٹیسٹ کے اگلے روز کپتان عبدالحفیظ کاردار یونیورسٹی گراؤنڈ کو ایک بار پھر دیکھنے گئے تھے جس کا ذکر انھوں نے یوں کیا ہے۔

’میں مونکی ُپل پر کھڑے ہو کر دریائے گومتی کو دیکھ رہا تھا جس میں پانی کا بہاؤ بہت آہستہ تھا۔ قریب ہی مسز سروجنی نائیڈو کی آخری آرام گاہ تھی لیکن میری نظریں کرکٹ گراؤنڈ پر تھیں جو اب خالی تھا لیکن ایک روز پہلے ہی ہم نے یہاں تاریخی کامیابی حاصل کی تھی۔ میں لکھنؤ اور دریائے گومتی کے کنارے اس گراؤنڈ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp