انڈین فوج کی آمد اور ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم کے عوامل


27 اکتوبر کو ہر سال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے داخلے کے خلاف یوم سیاہ منایاجاتا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر کی غیر فطری اور عارضی کہلائی جانے والی موجودہ تقسیم کے حوالے سے تاریخ پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں 27 اکتوبر 1947 سے پہلے ہی بھارتی فوجی دستے کشمیر بھیجنے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ 24 اکتوبر کو ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان ہو ا۔ جنگ کشمیر میں انڈین فوج کے مقابلے میں پاکستانی فوج کی آمد کافی بعد میں ہوئی۔

ابتدائی طور پرپونچھ سے ڈوگرہ، انڈین فوج کے خلاف مسلح تحریک شروع ہوئی۔ برطانوی فوج میں شامل پونچھ وغیرہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے فوجی دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے مقامی علاقوں میں واپس آئے تو وہ ریاستی مسلمانوں کی تحریک آزادی کا حصہ بن گئے اور انہوں نے ڈوگرہ راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ڈوگرہ فوج کے علاوہ انڈین فوج سے بھی لڑتے ہوئے اپنے علاقے آزاد کرائے۔ دوسری طرف قبائلی لشکر مظفر آباد، اوڑی کے راستے بارہمولہ سے آگے سرینگر کی دہلیز شالہ ٹینگ تک پہنچا۔

گلگت بلتستان میں کرنل حسن خان، میجر بابر، کیپٹن حیدر اور ان کی ساتھیوں نے ڈوگرہ رراج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور گلگت بلتستان کے وسیع علاقے آزاد کراتے ہوئے بانڈی پورہ کے درہ تراگبل تک پہنچ گئے۔ وادی نیلم کے بالائی علاقوں کو آزاد کرانے میں بھی ان کا اہم کردار ہے۔ آزاد حکومت کا صدر مقام پلندری سے تراڑکھل منتقل کیا گیا اور آزاد فوج کا قیام عمل میں لاتے ہوئے 8۔ نومبر 47 ء کو جنرل طارق آزاد افواج کے سپہ سالار اعظم مقرر کیے گئے۔ ریاست جموں و کشمیر کی آزاد حکومت کی پہلی کابینہ میں ( 1 ) ۔ سردار محمد ابراہیم خان صدر، ( 2 ) ۔ کرنل سید علی احمد شاہ نائب صدر، ( 3 ) ۔ چوہدری عبداللہ خان بھلی وزیر، ( 4 ) ۔ خواجہ غلام الدین وانی وزیر، ( 5 ) ۔ سید نذیر حسین شاہ وزیر، ( 6 ) ۔ خواجہ ثناء اللہ شمیم وزیر شامل تھے۔

آزاد فوج اور قبائلیوں کی یلغار۔ 22 اکتوبر 47 ء کو ہی آزاد فوج نے قبائلی مجاہدین کی امداد سے مظفرآباد شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ 26 اکتوبر کے دن آزاد افواج نے بارہ مولہ پر قبضہ کیا اور 27 اکتوبر کو سری نگر سے تین میل دور شالہ ٹیگ کے نزدیک پہنچ گئے۔ صرف ایک ہفتے کے اندر ڈوگرہ آرمی کا تقریباً خاتمہ کیا گیا حتیٰ کہ ڈوگرہ آرمی کے چیف آف سٹاف بریگیڈیئر راجندر سنگھ بھی میدان جنگ میں کام آئے۔ 28 اکتوبر کو بھارتی افواج سری نگر پہنچیں یہ فوج جدید اسلحہ سے لیس تھی۔ ان کا کمانڈر کرنل ڈی آر ر ائے بارہمولہ کی لڑائی میں کام آیا۔

7 نومبر 1947 ء کی شام کو شالہ ٹینگ کے مقام پر ایک ”فیصلہ کن“ لڑائی ہوئی۔ اس میں ایک انداز ے کے مطابق 500 قبائلی مجاہدین اور دوسرے رضا کار کام آئے۔ قبائلی مجاہدین نے 8 نومبر 1947 ء کی شام تک بارہ مولہ تک کا علاقہ خالی کر دیا اور اسی دن شام کو بھارتی فوج بارہ مولہ میں داخل ہوئی۔ 14 نومبر 1947 ء کو بھارتی فوج نے اوڑی پر قبضہ کیا۔ شالہ ٹیگ کی لڑائی کے بھارتی کمانڈر بریگیڈیئر ایل پی سپین (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) نے اپنی کتاب ”Slender was the thread“ کے صفحہ 83,82 اور 84 پر لکھتے ہیں کہ

”میں نے شالہ ٹیگ کی لڑائی سے قبل شیخ عبداللہ بخشی غلام محمد اور ڈی پی دھر سے صلاح مشور ہ کیا جو نیڈوز ہوٹل کے قریب ایک چھوٹے مکان میں موجود تھے۔ ہم نے شالہ ٹیگ کی لڑائی کے لئے 10 نومبر 1947 ء کی تاریخ طے کی لیکن 5 نومبر سے ہی قبائلی واپس جانے لگے تو ہم نے 7 نومبر 1947 ء کی شام کو ہی تین اطراف سے ان پر حملہ کر دیا۔ ہمیں ائرفورس کی مدد بھی حاصل تھی۔ اس طرح بارہ گھنٹے کی لڑائی کے بعد ہم نے شالہ ٹیگ کی لڑائی جیت لی اور قبائلی 500 لاشیں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ 8 نومبر کو ہم نے بارہ مولہ پر قبضہ کر دیا اور 14 نومبر 1947 ء کو بھارتی فوج اوڑی میں داخل ہو گئی۔ 17 نومبر کو بھارتی فوج نے دومیل (مظفرآباد) پر قبضہ کرنے کے لئے پیش قدمی شروع کی“ ۔

سرینگر شہر کے دروازے شالہ ٹیگ کی لڑائی کے بارے میں جنگ آزادی کشمیر ( 1947۔ 48ئ) کے جنرل طارق بریگیڈیئر اکبر خان اپنی کتاب ”Readers in Kashmir“ کے صفحہ 54۔ 53 اور 56 پر لکھتے ہیں کہ

” 27۔ اکتوبر کو ہی ہماری طرف سے جموں کو نظرانداز کیا گیا جس کے نتیجے میں ہندوستان تمام تر طاقت سرینگر پر مرکوز کر رہا تھا۔ دو روز بعد 29 اکتوبر کے روز قبائلیوں کو سرینگر سے باہر چوتھے سنگ میل پر روک دیا گیا۔ یہ آخری موقعہ تھا کہ انہیں بکتر بند گاڑیوں کی یا ایسی ہی کوئی موثر مدد دی جاتی۔ انہیں کوئی مدد نہ دی گئی بلکہ انہیں ایسی زمین پر اور ایسے حالات میں تنہا چھوڑ دیا گیا جہاں لڑنا ان کے بس سے باہر تھا۔

ہرگھڑی سرینگر میں اترنے والی ہندوستانی فوجوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے باوجود قبائلی چار پانچ دن جائزہ لیتے رہے کہ شاید کامیابی کی کوئی صورت نکل آئے مگر انہیں ا احساس ہو گیا کہ صوتحال ان کے خلاف ہے اور اگر ہندوستانی فوج نے حملہ کر دیا تو پیچھے کوئی موزوں علاقہ نہیں ہے جہاں قبائلی پیچھے ہٹ کر دفاعی پوزیشن اختیار کریں۔ علاقہ میدانی تھا جو قبائلی طریقہ جنگ کے لئے موزوں نہیں تھا۔ اگر قبائلی وادی سے پہاڑی علاقے میں چلے جاتے تو لڑ سکتے تھے لیکن وہاں لڑائی بے مقصد تھی۔

وہاں ہندوستانی فوج انہیں گھیرے میں لے سکتی تھی۔ اصل مقصد سرینگر میں داخلہ تھا جو ممکن نہیں ہو رہا تھا۔ قبائلیوں نے وادی میں لڑنے کو بے معنی سمجھا۔ قبائلی جب غائب ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو حیران کن تیزی سے غائب ہوتا ہے جیسے ابھی یہاں تھا اور ابھی غائب ہو گیا۔ کشمیر میں انہیں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ وہ ایک اجنبی ملک میں تھے جہاں کے عوم ابھی پوری طرح مسلح ہو کر نہیں اٹھے تھے نہ ہی ان کے پاس ایسے ذرائع تھے کہ قبائلیوں کی کوئی مدد کرتے اور نہ ہی وہ ایسے جنگی حالات اورقبائلیوں کی طرح لڑنے اور مشکلات برداشت کرنے کے عادی تھے۔

پسپائی کے دوران قبائلیوں کو کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئی جہاں وہ اپنی لاریاں روک کر چھپا دیتے اور ہندوستانی فوج کی پیش قدمی روکتے۔ اس کے لئے پہاڑی علاقہ ضروری تھا جو وہاں نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ لڑنے کے لئے مووزوں جگہ نہیں ہے تو لاریوں میں بیٹھے انتظار کرتے رہنے سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہ ہوگا لہذا پیچھے چلے جانا بہتر ہے۔ وہ کشمیر سے نہیں بھاگنا چاہتے تھے لیکن وہ انتظار کسی اور جگہ کرنا چاہتے تھے۔ لہذا 5 نومبر 1947 ء کی رات تک قبائلی لشکر کا بیشتر حصہ اوڑی تک پیچھے ہٹ آیا۔ اوڑی سرینگر سے 65 میل دور اور بارہ مولہ سے 30 میل پیچھے ہے۔ اگلی صبح 6 نومبر 1947 ء کو قبائلی ٹولیوں میں کشمیر سے ہی نکلنے لگے“ ۔

نومبر 1947 ء کے پہلے ہفتے میں بھارتی فوج اور آزادمجاہدین میں ہر محاذ پر باقاعدہ جنگ شرو ع ہوئی۔ بھارتی افواج دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے مسلح تھی اور آزاد مجاہدین ان کے مقابلہ میں تقریباً نہتے تھے۔ مگر انہوں نے بھارتی آرمی کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ چنانچہ ڈیلی نیوز ”لنڈن نے 16 نومبر 47 ء کو اپنے خصوص نامہ نگار کی مندرجہ ذیل رپورٹ شائع کی،

” میں نے ڈوگرہ ہندوستانی اور آزاد فوجوں کے کارنامے خود دیکھے۔ کشمیر کے مختلف محاذوں کو بھی دیکھا جہاں تک مشاہدات کا تعلق ہے، اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آزاد فوجیں بڑی نڈر تجربہ کار اور فنون جنگ سے واقف، حرب سے آشنا اورسخت وجفا کش ہیں۔ وہ نماز کے سخت پابند ہیں۔ کسی کو بھی ناجائز تکلیف نہیں دیتے۔ وہ جانبازی دکھاتے اور سرفروشانہ لڑتے ہیں۔ اس کے برعکس ڈوگرہ ہندوستانی فوج کا عمل افسوسناک اور بزدلانہ ہے۔ اس کا مقصد تباہ کاری اور نصب العین ستم رانی ہے“ ۔

اس طرح ایک غیر ملکی مبصر بریگیڈیئر رسل ڈی مٹ نے 14 دسمبر 47 ء کو لاہور ریڈیو سے تقریر کرتے ہوئے کہا،

”اس جنگ نے اکثر میرے دل میں امریکی جنگ آزادی کی یاد تازہ کر دی کیونکہ یہ جنگ بھی عوامی اور جمہوری حکومت قائم کرنے اور ظالم کے خلاف ظلم سے نجات حاصل کرنے کی غرض سے لڑی جا رہی ہے“ ۔

نمائندہ خصوصی ڈیلی ایکسپریس لنڈن اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں،

’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مجاہدین کی لاریاں دومیل سے کشمیر کی طرف جا رہی ہیں۔ پٹھان والہانہ انداز میں نعرے بلند کر رہے ہیں۔ جس پہاڑی سے وہ گزریں اللہ اکبر کے نعروں سے وہ علاقہ گونجنے لگتا تھا۔ پچاس ہزار قبائلی اس جہاد میں شریک ہیں۔ میں کرنل شاہ پسند خاں (امان اللہ خان کے سابق فوجی ایڈی کانگ) کے پاس بیٹھا بات چیت کر رہا تھا کہ پٹھانوں کی مزید 45 لاریاں دیکھیں۔ ان کے چہروں سے

غصہ ٹپک رہا تھا لیکن ان کی غضبناک نگاہیں یہ صاف ظاہر کررہی تھیں کہ وہ سکھ اور ڈوگرہ فوج کا قلع قمع کر لیں گے۔ ان تنومند اور جفاکش مجاہدین کو کشمیر پہنچنے سے قبل 200 میل پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ لیکن شوق جہاد میں انہوں نے دنوں کی منزلیں گھنٹوں میں طے کیں ان کے سپہ سالار میجر جنرل خورشیدانور ہندوستانی فوج میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھا چکے ہیں۔ میجر اسلم خان ان کے ڈپٹی ہیں جن کی عمر 30 سال کے قریب ہے۔ ان پٹھانوں نے ہندوستانی افواج سے بے شمار اسلحہ چھین لیا ہے۔ اس کی تعداد کا اندازہ صرف اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کارتوس کی گولی کا کوئی گاہک نہیں ملتا ”۔

امرتسر کا اخبار ”اجیت“ 5 دسمبر 47 ء کو اپنے نمائندہ خصوصی کے حوالہ سے لکھتا ہے،

”اوڑی کی نواحی پہاڑیاں دشمن کی باقاعدہ فائرنگ سے گونج رہی تھیں۔ میں نے بریگیڈیئر سے پوچھا کہ حملہ آور کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا اور کوئی سوال پوچھئے، یہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ لگا تار کئی راتوں سے حملہ آور ہماری فوجوں پرشب خون مار رہے ہیں اور ہم ہر دفعہ عظیم نقصانات اٹھانے کے بعد خاموش نہیں رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم حملہ آوروں کو ان ٹھکانوں سے نہ ہٹا سکے۔ ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ دشمن کہاں ہے! اس علاقے کی مقامی آبادی کا رویہ بھی ہندوستانی فوج کے سخت خلاف ہے۔ وہ حملہ آوروں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ وہ حملہ آوروں کو خوراک اور اہم خبریں پہنچاتے ہیں۔ جب ہم حملہ آوروں کے ٹھکانوں کے متعلق کچھ دریافت کرتے ہیں تو ان کے لبوں پر مہرخاموشی لگ جاتی ہے“ ۔

الحاق کا ڈرامہ۔ دوسری طرف ان ہی دنوں کشمیری عوام نے ہری سنگھ کی معزولی اور آزادکشمیر حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا تھا اور آزاد مجاہدین ریاست کو آزاد کراتے ہوئے تیزی کے ساتھ کشمیر کے صدر مقام سرینگر کی طرف بڑھ رہے تھے۔ 26 اکتوبر 47 ء کو مہاراجہ ہری سنگھ نے بھاگ کر جموں میں پناہ لی اور وہاں سے اس وقت کے گورنر جنرل ہندوستان لارڈمونٹ بیٹن کے نام مندرجہ ذیل خط روانہ کیا۔

” مائی ڈیئر مونٹ بیٹن!

میں یوئر ایکسیلنسی کو اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ میری ریاست میں ایک تشویش ناک صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ جس میں میں آپ کی حکومت کی طرف سے فوری امداد کی استدعا کرتا ہوں۔ آپ اس امر سے آگاہ ہیں کہ ریاست جموں وکشمیر نے اب تک ہندوستان یا پاکستان دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق تسلیم نہیں کیا۔ جغرافیائی اعتبار سے ریاست دونوں ملکوں سے متصل ہے اور دونوں کے ساتھ نہایت اہم اقتصادی اور کلچرل تعلقات رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ میری ریاست کی سرحدیں جمہوریہ سوویت روس اور چین کے ساتھ ملتی ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان اپنے خارجہ تعلقات میں اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ میں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کچھ مہلت چاہتا تھا کہ مجھے ان دونوں میں سے کسی ڈومینین کے ساتھ شامل ہونا چاہیے اور آیا میری ریاست اور دونوں ملکوں کا بہترین مفاد اس میں نہ ہوگا کہ میری ریاست آزادرہے او ردونوں سے دوستانہ اور خوشگوار تعلقات قائم رکھے۔ اسی مہلت کے لئے میں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں سے درخواست کی کہ وہ ریاست کے ساتھ ساکن معاہدے کر لیں۔

حکومت پاکستان نے اس چیز کو قبول کر لیا اور ہندوستان نے میری حکومت کے نمائندے کے ساتھ مزید بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن محولا بالا حالات کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے میں اس گفت وشنید کا انتظام نہ کر سکا۔ واقعہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان ساکن معاہدے کے ماتحت ریاست میں ڈاک وتار کے محکموں کا انصرام کر رہی ہے۔

اگرچہ حکومت پاکستان کے ساتھ ہمارا ساکن معاہدہ ہو چکا ہے لیکن یہ حکومت میری ریاست کو اشیاء خوراک نمک اور پٹرول کی بہم و رسانی کے معاملے میں روزافزوں مشکلات پیدا کررہی ہے۔ افریدیوں بے وردی سپاہیوں اور غنڈوں کو جو جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں ریاست میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جو پہلے پونچھ کے علاقے میں پھر سیالکوٹ میں اور آخر میں اس رقبے درانہ میں گھس آئے جو رام کوٹ کی طرف ضلع ہزارہ کے متصل واقع ہے۔

اس یورش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کے پاس جو محدود سی فوج تھی، وہ منتشر کرنی پڑی۔ اسے بیک وقت کئی مقامات پر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا۔ چنانچہ جان و مال کی تباہی اور لوٹ مار کو روکنا بے حد دشوار ہو رہا ہے۔ مہورہ کا بجلی گھر جس سے سارے سری نگر کو بجلی کی طاقت بہم پہنچائی جاتی تھی، جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ جب میں ان عورتوں کی تعداد پر غور کرتا ہوں جو اغواء اور عصمت دری کا شکار بنائی گئیں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ یہ وحشی لشکر جو ریاست پر چھوڑ دیے گئے ہیں اب میری حکومت کے گرمائی صدر مقام سری نگر پر قبضہ کرنے کی نیت سے بڑھے چلے آ رہے ہیں تاکہ اس کو فتح کر کے ساری ریاست پر چھا جائیں۔

شمال مغربی سرحدی صوبہ کے دور دست علاقوں سے قبائل کے لوگ ہجوم کی صور ت میں مانسہر ہ مظفرآباد کی سڑک پر موٹر ٹرکوں میں باقاعدہ چلے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ کافی تعداد میں موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے صوبہ سرحد کی حکومت اور پاکستان کی حکومت کے علم کے بغیر نہیں ہو سکتا ۔ میری حکومت نے بار بار اپیلیں کی ہیں کہ ان حملہ آوروں کو روکنے یا میری ریاست میں آنے سے منع کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بلکہ پاکستان ریڈیو اور پاکستانی اخبارات تو ان واقعات کی اطلاعات شائع کر رہے ہیں اور پاکستانی ریڈیو نے یہ کہانی بھی نشر کی ہے کہ کشمیر میں ایک عارضی حکومت بھی قائم کر دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ میری ریاست کے مسلم و غیر مسلم لوگوں نے بالعموم اس ہنگامے میں کوئی حصہ نہیں لیا۔

ان حالات میں جو آج میری ریاست میں پیدا ہو رہے ہیں اور صورت حال کی اس شدت میں میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ میں انڈین ڈومینین سے امداد کی استدعا کروں یہ فطرتی بات ہے کہ جب تک میری ریاست ہندوستان کے ساتھ الحاق قبول نہ کرے حکومت ہند مجھے امداد نہیں دے سکتی۔ لہذا میں نے الحاق کا فیصلہ کر لیا ہے او ر الحاق نامہ اس عریضے کے ساتھ منسلک کر رہا ہوں۔ تاکہ آپ کی حکومت اسے منظور کرے۔ اس طرز عمل کے سوا دوسرا راستہ صرف یہی ہو سکتا ہے کہ میں اپنی ریاست اور اپنی رعایا کو لٹیروں اور ڈاکوؤں کے حوالے کر دوں۔

لیکن اس بنیاد پر نہ کوئی مہذب حکومت زندہ رہ سکتی ہے، نہ قائم رکھی جا سکتی ہے۔ اس لئے جب تک میں ریاست کا حکمران ہوں اور اپنے جسم میں جان رکھتا ہوں ملک کے دفاع کے لئے ایسی صورت کبھی پیدا نہ ہونے دوں گا۔ میں آپ کی حکومت کو اس ارادے کی اطلاع بھی دینا چاہتا ہوں کہ میں فوراً ایک عبوری حکومت قائم کر دوں گا او رشیخ عبداللہ سے کہوں گا کہ اس نازک صورتحال میں میرے وزیراعظم کی حیثیت میں حکومت کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائیں۔ اگر میری ریاست کو بچانا مقصود ہے تو اس کے لئے فوری امداد سرینگر پہنچ جانی چاہیے۔ مسٹر مینن (سیکرٹری اور ریاست ہائے ہند) کو صورتحال کی سنگینی کا پورا علم ہے اور اگر کسی مزید تصریح کی ضرورت باقی رہ گئی ہے تو وہ آپ کی خدمت میں تفصیلاً عرض کر دیں گے۔ میں بہت عجلت میں ہوں آپ میرا آداب قبول فرمائیے۔

آپ کا مخلص ہری سنگھ 26 اکتوبر 1947 ء
گورنر جنرل ہند لارڈ مونٹ بیٹن نے 28 اکتوبر 47 ء کو الحاق منظور کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ کو لکھا،

” آپ کی ریاست کا الحاق عارضی طور پر ہندوستان کے ساتھ منظور کیا گیا اور ہماری حکومت کی خواہش ہے کہ جونہی کشمیر میں امن وانتظام بحال ہو اس کی سرزمین حملہ آوروں سے پاک ہو جائے تو ریاست کے الحاق کا فیصلہ استصواب رائے عامہ سے کیا جائے۔ اس دوران فوری طور پر ہندوستانی فوج کشمیر بھیجی جا رہی ہے تاکہ آپ کی مملکت کے دفاع اور آپ کی رعایا کے جان و مال اورآبرو کی حفاظت میں آپ کی فوجوں کا ہاتھ بٹائے۔ میں اور میری حکومت نے اس امر کو اطمینان بخش طور پر دیکھا ہے کہ یوئر ہائینس نے شیخ محمد عبداللہ کو عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے وزیراعظم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے“ ۔

”ہم اعلان کر چکے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے۔ ہم یہ عہد دے چکے ہیں اور مہاراجہ کشمیر بھی اس کی تائید کر چکے ہیں۔ ہم اس عہد سے انحراف نہیں کریں گے۔ ہم اس امر کے لئے تیار ہیں کہ امن بحال ہونے کے بعد کشمیر میں اقوام متحدہ جیسے ادارہ کے ماتحت استصواب رائے کیا جائے، ہم چاہتے ہیں کہ وہ آزادانہ مبنی پر انصاف ہو۔ ہم عوام کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ اس دوران ہم کشمیریوں سے ان کی حفاظت کا جو وعدہ کر چکے ہیں اسے بھی پورا کریں گے“ ۔

نومبر 47 ء کے پہلے ہفتے میں مسٹر نہرو نے لال چوک سری نگر کے ایک جلسہ عام میں کہا،

”جونہی کشمیر حملہ آوروں سے آزاد ہو جائے گا، ہماری فوجوں کو مزید یہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہ ہوگی اورآپ اپنی خواہشات کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے حقدار ہوں گے“ ۔

2 نومبرکو شیخ محمد عبداللہ کو ریاست کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ 4 نومبرکو وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے ریڈیو پاکستان سے کہا،

”ہری سنگھ اور بھارت کا الحاق ایک دھوکا ہے اور ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے۔ گا۔ ہندوستان نے محبان کشمیر کو دبانے کے لئے اپنی فوج بھیجی ہے۔ حکومت ہند اور اس کے پٹھو دراصل کشمیر نہیں بلکہ ایک دم توڑتے ہوئے مطلق العنان حکمران کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

یہ امر قابل ذکرہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ عوامی بغاوت اور آزاد مجاہدین کی یلغار سے سری نگر چھوڑ کر بھاگ چکا تھا اور جموں میں پناہ لے چکا تھا۔ مسٹر مینن (سیکرٹری اور ریاست ہائے ) 26 اکتوبر کو کاغذات الحاق لے کر جموں آئے تھے۔ ان حقائق کے پیش نظر مہاراجہ کا خط صرف ایک دکھلاوا تھا۔ ورنہ وہ سازش جو جولائی 47 ء سے ہی کانگریسی لیڈروں اور ہری سنگھ کے درمیان پک رہی تھی یہ خط تو دراصل اسی سازش کی تکمیل تھی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ لارڈ مونٹ بیٹن کا جواب آنے سے قبل ہی یعنی 28 اکتوبر کی صبح کو بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پر اتر رہی تھی۔

2 نومبر 47 ء کو وزیراعظم ہند پنڈت نہرو نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے تقریر کرتے ہوئے کہا،

”میں یہ بات واضح کیے دیتا ہوں کہ اس ہنگامی ضرورت میں کشمیر کی امداد کرنے سے یہ مقصود ہرگز نہیں کہ ریاست کو ہندوستان سے ملحق کرنے کے حق میں کسی عنوان متاثر کیا جائے۔ ہمارا نقطہ نظر جو ہم علی الاعلان متعددبار دہرا چکے ہیں یہ ہے کہ کسی متنازعہ علاقہ یا ریاست کے الحاق کا سوال وہاں کے باشندوں کی رضا مندی کے مطابق طے ہونا چاہیے اورہم اس نقطہ نظر پر بدستور قائم ہیں۔“

2 نومبر 47 ء کو ناظم اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد شیخ محمد عبداللہ نے یونائیٹڈ پریس آف انڈیا کو بیان دیتے ہوئے کہا،

”حملہ آوروں کا موجودہ طریقہ ہمیں مرعوب کرنے کا غلط ہے۔ میں مسٹر جناح سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے اثرواقتدار سے کام لے کر حملہ آوروں کو واپس بلائیں۔ اگر مسٹر جناح کی خواہش ہوگی تو میں ان سے کراچی بھی جا کر مل سکتا ہوں“ ۔

خان عبدالقیوم خان وزیراعظم سرحد نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ
”پٹھان کشمیر کی آزادی کے لئے آخری دم تک لڑیں گے۔“

27 اکتوبر کو وزیراعظم بھارت مسٹر نہرو نے تار برطانوی وزیراعظم مسٹر اٹیلی کو روانہ کیا اور اس کی ایک نقل وزیراعظم پاکستان کو بھی روانہ کی گئی۔

وزیراعظم پاکستان خان لیاقت علی خان نے 16 نومبر 1947 ء کو ایک پریس کانفرنس میں بیان دیتے ہوئے کہا۔

”ہم انجمن اقوام سے یہ درخواست کرنے کے لئے تیار ہیں کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میں فی الفور اپنے نمائندے مقرر کر دے تاکہ جنگ بند ہو مسلمانوں کا قتل عام رک جائے۔ غیر ملکی فوجوں کی واپسی اور استصواب رائے کے لئے ایک غیر جانب دارالحکومت قائم کی جائے تاکہ عوام آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں“ ۔

کشمیر پر بھارت کے فوجی حملے کے فوراً بعد حکومت پاکستان نے بھارتی حکومت کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ 29 اکتوبر کو ایک اعلیٰ کانفرنس ہو۔ جس میں دونوں ممالک کے گورنر جنرل اور وزیراعظم شریک ہوں۔ مگر یہ کانفرنس مسٹر نہرو کی ”بیماری“ کی وجہ سے نہ ہو سکی اور لارڈ مونٹ بیٹن کوئی ذمہ داری لینے پر آمادہ نہ تھے۔

قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان نے 31 اکتوبر 47 ء کو لاہور یونیورسٹی گراؤنڈ میں ایک جلسہ عام میں کہا۔

”ہم ایک زبردست سازش کا شکار ہوئے ہیں لیکن ہمارے دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہمارا عمل شاہد ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم راستی اور انصاف کی راہ پر گامزن ہیں“ ۔

4 نومبر 47 ء کو بھارتی وزیراعظم مسٹر نہرو نے مندرجہ ذیل تار پاکستان کے وزیراعظم کو روانہ کیا،

”میں اپنی حکومت کی پالیسی بیان کرچکا ہوں اور یہ بات صاف کہہ چکا ہوں کہ ہم اپنی مرضی کشمیر پر زبردستی تھوپنا نہیں چاہتے بلکہ آخری فیصلہ اہل کشمیر پر چھوڑتے ہیں کہ کوئی غیر جانبدار جماعت جیسے اقوام متحدہ استصواب رائے کی نگرانی کرے یہی اصول ہم ہر اس ریاست میں برتنے کے لئے تیار ہیں جہاں الحاق کے بارے میں کوئی تنازعہ ہو“

قائداعظم نے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کیں۔

( 1 ) ۔ 48 گھنٹوں کے اندر کشمیر میں جنگ بند کرائی جائے اگر قبائلی اورآزاد کشمیر حکومت جنگ بند کرنے پر آمادہ نہ ہوئی تو دونوں ملک مل کر ان کے خلاف فوجی کارروائیاں کریں گے۔

2۔ ہندوستانی فوج قبائلی دستے ریاست سے بیک وقت اور فوری طور پر چلے جائیں گے۔

3۔ دونوں ممالک کے گورنر جنرل ریاست کا نظم و نسق اپنی نگرانی میں لے کر مشترکہ نگرانی میں وہاں الحاق کے لئے آزادانہ رائے شماری کرائیں گے۔

بھارت ان تجاویز کو قبول کرنے سے انکار کیا۔ اس کے ساتھ بھارتی فوج نے آزاد مجاہدین کے خلاف زبردست جنگی کارروائی شروع کی۔ آزاد فوج نے اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور بھارت کی عظیم فوجی طاقت کو کشمیر کی پہاڑیوں میں بے بس کر کے رکھ دیا۔ بھار ت نے اس دوران جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو ختم کرنے کی ناپاک کارروائی بھی کی چنانچہ صوبہ جموں کے مسلمانوں کو فرقہ پرست ہندوؤں اور ڈوگرہ فوج نے قتل کرنا شروع کیا۔ نام نہاد الحاق سے قبل ہی جموں کے مسلمان سرکاری ملازمین سے اسلحہ وغیرہ جمع کرا لئے گئے تھے اور پولیس اور فوجی میں مسلمان افسروں اور سپاہیوں کو اس علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).