چل…غوزے


موسم سرما کے آتے ہی ڈرائی فروٹس ہاتھ میں آئیں یا نہ آئیں، دائرۂ گفتگو میں ضرور آ جاتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے چلنے والی گرانی کی ہواؤں نے جہاں بہت سی اشیاء کو اڑا کر عام آدمی کی پہنچ سے کچھ دور کیا ہے وہیں ڈرائی فروٹ فیملی کے بہت سے ممبرز تک عوام کا پہنچنا تقریباً ناممکن ہی بنا دیا ہے، ان ناممکنات میں سرفہرست ”چلغوزہ“ ہے۔

ہم خود کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہوش و حواس میں سستے داموں چلغوزے خرید کر کھائے ہیں، گو کہ اس بات کو بھی اب زمانہ ہوا۔ اب تو مونگ پھلی جیسی عام شے بھی اپنے نرخ کے سبب خاص بنتی جا رہی ہے۔

چند برس پہلے چلغوزہ نامی شے ایسی عنقا ہوئی تھی کہ نئی نسل کے سامنے اس کا نام لینا ڈائنوسارز کا ذکر کرنے کے مترادف تھا کہ ڈائنوسارز کی طرح چلغوزے بھی صرف نام کی حد تک موجود تھے۔

مارکیٹ میں اکثر دکاندار لانے کو تیار ہی نہ تھے کہ اول تو ملتے ہی مشکل سے تھے اور پھر دام ایسے کہ گاہک کو بتا دیں تو اگلی بار وہ دکان کے قریب سے بھی نہیں گزرے گا۔ لوگ اچھے وقت کو یاد کرتے ہوئے چلغوزوں کا ذکر کرتے تو ان کے بچے پوچھتے کہ یہ چلغوزے کیسے ہوتے ہیں تو بڑوں کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہ ہوتا۔

ڈائنوسارز کی نسل تو وقت کے ساتھ ختم ہو گئی لیکن چلغوزے کو مارکیٹ سے غائب کرنے میں دیگر کئی عوامل تھے جو یہاں ذکر قابل ذکر نہیں۔

ایک کولیگ نے بتایا کہ ایک بار کسی ٹھیلے پہ دیگر ڈرائی فروٹس کے ساتھ ایک جار میں چلغوزے بھی رکھے نظر آئے تو میں نے اپنے بیٹے کو خاص طور پہ چلغوزوں کی زیارت کروائی تاکہ چلغوزوں کے بارے میں کی گئی بات سچ ثابت ہو سکے۔

گزشتہ دو چار برسوں سے چلغوزے تو مارکیٹ میں دستیاب ہیں لیکن وہ دست ہی یاب نہیں کہ جو چلغوزوں جیسی قیمتی جنس پہ ڈالا جاسکے۔

بقول شاعر ”حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں“

ان کی قیمت سن کے ایسا ہی لگتا ہے کہ چلغوزے نہ ہوئے، مغلوں کے لگائے گئے شغلوں سے متعلقہ اشیاء ہو گئیں۔ گمان غالب ہے کہ مستقبل قریب میں اب سونے کے ساتھ ساتھ چلغوزے بھی تولے اور ماشے کے حساب سے ملیں گے۔ قریب قریب گن کے تو اب بھی مل رہے ہیں۔

کچھ بعید نہیں کہ کسی کرپٹو کرنسی (crypto currency) کی طرح کل کو چلغوزہ بھی کسی کرنسی ایکسچینج میں listed نظر آئے اور بٹ کوائن (bitcoin) کی طرح راج کر رہا ہو۔ اگر ایسا ہوا تو چند گرام چلغوزے رکھنے والا بھی کسی سرمایہ دار سے کم نہیں ہوگا۔

کسی نے فیس بک پہ ایک پوسٹ کی تھی جس میں ایک کلو میں ملنے چلغوزوں کی تعداد اور قیمت کا کچھ حساب بتایا گیا تھا۔ سرسری حساب سے ایک چلغوزہ شاید دس یا بارہ روپے کا بن رہا تھا۔ گویا آپ ایک روٹی کھائیں یا پورا ایک عدد چلغوزہ۔ بات ایک ہی ہے۔

عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں چلغوزے خریدنے والوں کے اثاثوں اور ذرائع آمدن کی جانچ پڑتال کے احکامات بھی جاری ہوجائیں کہ آخر وہ یہ جنس گراں مایہ خریدنے میں کیونکر کامیاب ہوئے۔ ٹیکس حکام پوری کوشش کریں گے کہ کسی طرح چلغوزے کے خریداروں کو اپنے جال یعنی tax net میں لایا بلکہ پھنسایا جائے۔

ایک دوست کا کہنا ہے کہ ایک بار بیگم نے چلغوزوں کی فرمائش کی۔ ہوم منسٹر کے احکامات کی بجا آوری کے لیے مارکیٹ جا کے چلغوزے کے دام معلوم کیے تو چلغوزے کے ساتھ ساتھ آٹے دال کا بھاؤ بھی سمجھ آ گیا۔ واپس آ کے بیگم سے کہا کہ بھلی مانس! چلغوزوں کو چھوڑ اور یہ پیسے سنبھال کے رکھ، اس میں تھوڑے سے اور پیسے ملا کے ہم ایک موٹرسائیکل خرید لیں گے۔

مجھے تو لگتا ہے کہ عابی مکھنوی نے یہ شعر چلغوزے کی ترجمانی کرتے ہوئے ہی کہا تھا:
تمہارے بس میں نہیں وہ قیمت
میں اتنا مہنگا بکا ہوا ہوں

راحیل احمد
Latest posts by راحیل احمد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).