عرفان صدیقی کی غزل ۔۔۔ وہ حساب آج چکا دیا


زبان انسان کا اظہار ہی نہیں، پیچیدہ ترین انسانی تخلیق بھی ہے۔ انسان نے محض دانتوں کے بیچ رکھے پارہ لحم کو وائلن کے تاروں کی نفیس لرزش جیسی مرتب حرکت کی مدد سے سپاٹ حیوانی آواز کو معنی ہی نہیں دیا، آوازوں کی اس جلترنگ کو بغیر غلطی کئے گرامر کے اصولوں سے ہم آہنگ کرنا بھی سیکھا اور پھر اس سے بڑا کارنامہ یہ کہ کاسہ سر میں جنم لینے والے خیالات کو کسی رکاوٹ کے بغیر زبان کے ساز پر اتارنا سیکھا۔ پھر ایک اگلی جہت یہ پیدا کی کہ زبان کو محض علم اسما تک محدود نہیں رکھا، اسے خیال کی تجرید بخشی۔ پھر خیال کو سنوارا اور طلب انصاف کے خدوخال تراشے۔ گویا زبان کے میکانکی عمل اور تفکر کے غیر مرئی مظہر میں تعامل کی صورت نکالی۔ یہ وہ مقام تھا جہاں نوائے سروش سنائی دی، ہم نے تمہیں زبان دی کہ تم درد دل بیان کر سکو۔

کرہ ارض کے تمام خطوں میں بسنے والے انسانوں میں تخلیقی صلاحیت کی مساوات کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ نقل و حمل کے محدود امکانات کے باوجود ہر منطقے میں ابلاغ کے لئے ہزاروں زبانیں تشکیل پائیں۔ کہیں جغرافیائی قربت کے طفیل زبانیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوئیں تو کہیں گہرے سمندروں اور پہاڑی سلسلوں کے پار الگ تھلگ بستیوں میں آباد چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں زبانوں کا ظہور ہوا اور معجزہ یہ کہ ان میں ہر زبان انسانی ورثے کی ثروت مند امین ٹھہری۔ بولی ٹھولی سے کر معرفت کی باریکیوں تک اور نثر میں حکایت زمانہ سے شعر میں واردات دروں تک، کون سا موضوع ہے جس میں کوئی زبان ہیٹی رہی ہو۔

غزل ہی کو لیجئے۔ عربی قصیدے کا ایک جزو غزل کہلاتا تھا، ایران میں  پہنچا تو حافظ شیراز نے آب رکنا باد کے کنارے گل گشت مصلیٰ میں غزل کا اجنبی پودا جذب دروں کے اس بادہ دو شینہ سے سینچا کہ چھ صدی بعد بھی مشرق کی ہر نسل “بعشقم آشنا کن” کی منزل کو پہنچتی ہے تو کلام حافظ موسم گل کی نوید لئے ابر نیساں میں رقص کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یہی غزل گنگا جمنی دوآبے میں پہنچی تو میر کو چاند میں ایک صورت نظر آنے لگی۔ مصحفی نے کلائی کی جھلک میں سارے بدن کی بے حجابی سمو دی۔ غالب کے اوج خیال نے دشت امکاں کو ایک نقش پا میں سمیٹ لیا۔ مرزا داغ کے مصفا خیال سے لطف اٹھانے والوں نے کب سوچا تھا کہ قلعہ معلیٰ سے دور خطہ پنجاب کے مفصلات سے اقبال نام کا ایک شاعر اٹھے گا جو اردو غزل میں رومی کے سوز و ساز، نطشے کے جنوں اور برگساں کی ژرف نگاہی کی حدیں مٹا ڈالے گا۔ اقبال اپنے لحن کے موجد ہی نہیں، خاتم بھی تھے۔ اردو غزل مگر ایسی سخت جان نکلی کہ اقبال کے نقش قدم ابھی مدہم نہیں ہوئے کہ فیض ایک اور دنیا کا خواب لئے وارد ہو گئے۔ میر کی وارفتگی، سودا کی فصاحت اور غالب کی رفعت بیان میں بیسویں صدی کے سنگلاخ سوال شامل کر دیے مگر اس خوبی سے کہ ہر نشان زخم پر ہم دلی کی تتلی باندھ دی۔ قومی آزادی کی صبح اپنے ساتھ واسوخت اور آشوب کے رنگ لئے اتری تھی، فیض نے اس درد جانکاہ کو غزل کے دریچے میں رکھ دیا، ناصر کاظمی، منیر نیازی اور سلیم احمد تک پہنچتے پہنچتے غزل کے دو مصرعوں میں ایسی سیاسی تہ داری اتر آئی کہ غزل الغزلات کی منزل کہیں پیچھے رہ گئی، جدید اردو غزل کا غالب رنگ سیاسی اظہار ہے اور اظہار بھی ایسا کڑیل کہ جس پر سات دہائیوں سے زبان بندی کی کوئی تدبیر ایسی نہیں جو آزمائی نہ گئی ہو۔ 2008ء کے بعد سے کارگہ قفس کے کارندوں نے ایک نیا پینترا اختیار کیا۔ قفس کا دروازہ کھلا چھوڑ کر نادیدہ مقراض کی پاڑ باندھ دی۔ دس برس بعد جولائی 2018ء میں قلّہ کوہ پہ منڈلانے والا ابر سیاہ بالآخر بستی پر اترا تو بہت سے پرانے بادہ کش اٹھ چکے تھے اور باقی واماندگان مسافت مزاحمت سے تائب ہو چکے تھے۔ راشد نے اکتوبر 58ء میں لکھا تھا

اے تمام لوگو کہ میں جنہیں کبھی جانتا تھا

کہاں ہو تم؟

تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا

یا ہو دور قید غنیم میں

جو نہیں ہیں قید غنیم میں

وہ پکار دیں!

ٹھیک باسٹھ برس گزر گئے۔ رواں برس کا اکتوبر بھی اب غبار شفق میں آ پہنچا۔ غزل کی گلی اندھیری اور اکیلی ہے۔ ایک بلبل کہن سالہ مگر سنت رفتگاں نبھائے جاتا ہے۔ اسم گرامی تو عرفان ہے لیکن ذاتی سعی سے وجدان کا قافیہ باندھتے ہیں۔ پار سال سلاسل کی روایت بھی پوری کی مگر عروس غزل کے عارض گلرنگ پہ وقفے وقفے سے نشان رفاقت ثبت کرنے سے باز نہیں آتے۔ جناب عرفان صدیقی کی غزل پڑھیے اور دیکھیے کہ ضمیر لالہ میں چراغ آرزو سے روشنی ہو تو وقت کا حساب کیسے چکایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).