میکرون، تھیوڈور ہرتزل کی طرح مسلم امہ کی بیداری کا باعث بنے گا؟


ایمانوئل میکرون اور فرانسیسی لوگوں کی حکومت نے جو کیا اس پر بات ذرا بعد میں۔ پہلے ذرا ایک اہم تاریخی واقعے کی جھلکیاں آپ لوگوں کو دکھا دوں۔ یہ انیسویں صدی کے آخری ماہ و سال ہیں۔ اڑتیس، انتالیس سالہ نوجوان تھیوڈور ہرتزل صحافت کی دنیا کا ایک بڑا نام ویانا سے ہی نکلنے والے اخبار Nelle Freie Presse کا نمائندہ۔ پیدائش یہودی گھرانے کی مگر رجحان یہودیت کی بجائے انسانی اقدار سے محبت پر تھا۔ یہی وہ دن تھے جب فرانسیسی فوج کے ایک یہودی کیپٹن الفریڈ ڈریفس پر جرمنوں کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگا۔

وہ چونکا تھا۔ انہی دنوں وہ پیرس اپنے کسی کیس کے سلسلے میں گیا ہوا تھا سوچا کہ چلو دیکھوں تو سہی یہ چکر کیا ہے؟ فرانسیسی یہودی تو اس سوسائٹی میں پوری طرح رچے بسے اور اپنے فرانسیسی ہونے پر نازاں لوگ ہیں۔ کورٹ کے احاطے میں جو منظر تھیوڈور ہرزل نے دیکھا وہ اسے سر تا پیر دہلا دینے کے لیے کافی تھا۔ وہاں نفرت انگیز نعرے تھے۔ ”مار دو ان یہودیوں کو۔ دشمن ہیں یہ ہمارے۔ ان کا نام و نشان مٹا دو۔“ کیس کی سٹڈی نے اسے بتایا کہ الفریڈ ایک کلچرڈ آدمی، فوج کا افسر فرانسیسی معاشرے کو آئیڈیلائز کرنے والا جو ماضی کے حوالے سے بھی داغ دھبوں سے پاک تھا۔ کیس کی پیروی کے لیے وہ میدان میں کود پڑا۔ اس کی صحافیانہ پیروی اور دائیں بائیں طبقوں کی نفرتوں، ہمدردیوں اور مشہور فرنچ ناول نگار ایملی زولا کے اس ایک جملے I accuse نے کیس کو بین الاقوامی شہرت دے دی۔

اور بس یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے تھیوڈور ہرتزل کو بابائے صیہونیت بنا دیا۔ اس کی کاوشیں اور اس کی The Jews State اسرائیل اسٹیٹ بنانے کا باعث بن گئی تھی۔

ذرا آگے بڑھیے۔ صلیبی جنگوں کے دامن میں جھانکیے۔ ان میں یورپ کے تمام ملکوں سے زیادہ فرانسیسیوں کا کردار نظر آتا ہے۔ بنیادی طور پر فرانس مذہبی ریاست رہی ہے۔ کہیں بیسویں صدی کے اوائل میں چرچ اور ریاست کو الگ کیا گیا۔

مسلمان فرانس کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ افریقہ اور عرب ممالک کے غریب اور محنت کش لوگ جنہیں لایا گیا کہ وہ فرانس کا صنعتی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھمانے میں مددگار ہوں۔ پچاس فی صد سے اوپر کی آبادی جنہیں وہ سہولتیں میسر ہیں اور نہ ہی وہ تحفظ حاصل ہے۔ جو نسلی گوروں کو ہیں۔ کبھی ان کے حجاب پر پابندی، کبھی ان کے عبایہ پر اور یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ شدید ردعمل مقامی مسلمانوں کا سامنے آیا ہے۔ مورد الزام اس بار نہ القاعدہ ٹھہری ہے اور نہ داعش۔ یہاں تنگ آمد بجنگ آمد والا منظر نظر آتا ہے۔

یہ بحث کس قدر فضول اور لاحاصل ہے کہ آپ انہیں اس بات پر لتاڑیں کہ وہ عقائد اور مسلک کے اعتبار سے مسلمان ہیں۔

اب میکرون کا مسئلہ کیا ہے۔ کیوں اس نے اتنی اچھل کود مچا رکھی ہے؟

ایک وجہ تو یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ کرونا کی دوسری لہر فرانس میں خاصی پریشان کن اور تباہی مچانے والی ثابت ہو رہی ہے۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی طرح میکرون بھی اپنے لوگوں کی توجہ اس نئے شوشے کی طرف منعطف کر رہا ہے۔

ردعمل میں بیشتر اسلامی ممالک نے غم و غصے کا کھل کر اظہار کیا۔ ترکی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آواز اٹھانے اور کھری کھری سنانے میں آگے تھا۔ میکرون کو دماغی مریض کہہ دینا بھی طیب اردگان جیسے جی دار کا ہی کام ہے۔

اب ان رنڈی رونوں کا کچھ فائدہ ہے کہ کسی مسلک اور مذہبی عقیدے پر حملہ کرنا گویا انسانی اقدار کی دھجیاں اڑانی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے اقدام اسلامو فوبیا فروغ کا باعث بن رہے ہیں۔ سموئیل پیٹی کو تو قتل ہونا ہی تھا کہ استاد ہو کر وہ ایک ایسی کلاس میں جہاں مسلمان بچوں کی ایک واضح تعداد تھی۔ وہ ان کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو رہا تھا۔ مسلمان بچوں کو باہر نکال کر باقی بچوں کو وہ خاکے دکھا رہا ہے جس میں ان کی جان سے پیاری ہستی ایک کریہہ صورت میں نظر آتی ہے۔

میکرون اور اس کی حکومت ان قابل نفرت خاکوں کو عمارات کی پیشانیوں پر سجا رہی ہے۔ اس ناہنجار کو تھوڑا سا ہی شعور ہونا چاہیے۔ بھارت سے پینگیں اور کشمیریوں پر ظلم و ستم انڈیا کی حمایت۔ کوئی اسے بتائے کہ اندرا گاندھی نہرو کی بیٹی سیکولرازم کی داعی آپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میں ہلاک ہوئی تھی۔

ہاں البتہ ایک المیہ مسلمانوں کے ساتھ تدبر اور فراست کی کمی کا ہے۔ زوال کے پاتال میں گھری اس قوم کا کردار نہیں رہا۔ نبی ﷺ سے خالی خولی عشق کے دعوے بہت ہیں مگر کردار کہاں ہے؟ عقیدتوں سے بھرا سلام ہے اس فرانسیسی انسان دوست خاتون صوفی پیٹرونن (Petronin) جو چیرٹی ورکر (Charity worker) تھی۔ یتیم اور غذائی کمی میں مبتلا بچوں کے لیے کام کرتی تھی۔ جن کی ایک واضح اکثریت مالی کے شمالی علاقوں میں تھی۔ 2016 میں JNIM فوجی گروپ کے ہاتھوں اغوا ہو کر چار سال ان کی قید میں رہی۔

اس قید کے دوران وہ جس حسن سلوک سے گزری وہ متاثر کن تھا۔ جب وہ Villacoublay ائرپورٹ پر اتری۔ مسٹر میکرون وہاں اس کے استقبال کے لیے خود موجود تھا۔ خدا کی عنایت ہے۔ میں اب مسلمان ہوں۔ آپ مجھے صوفی کہہ سکتے ہیں۔ مگرآپ کے سامنے مریم کھڑی ہے۔ انہوں نے واشگاف لفظوں میں کہا ہمارے تجارتی منصوبے ان غریب لوگوں کو لوٹنے کے ہتھکنڈے ہیں۔ دہشت گرد مسلمان نہیں ہم ہیں۔

نبی ﷺ سے عشق تقاضا کرتا ہے۔ ہم علم اور ٹیکنالوجی کے سمندر میں کودیں اور بہترین تیراک بنیں۔ کردار کے غازی ہوں۔ اتحاد اور اتفاق اپنی صفوں میں پیدا کریں۔ تب کس کی مجال ہوگی کہ کوئی ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).