انسان اور گندم


انسان اور گندم کا تعلق بہت پراناہے اور ا بتدائے آفرینش ہی سے ان کے باہمی تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف انسان کو جنت بدر ہونے پہ گندم سے شکایت ہے تو دوسری جانب گندم کے بغیر ایک دن گزارے نہ گزرے ہے۔ گویا بیماری کی موجب بننے والی بلا ہی انسانی زندگی کی خاطردوا ٹھہری۔ اب توگندم اپنے کیے کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور جتنی گندم پیدا ہو، انسان کھا جاتا ہے۔ انسان کی خاطر گندم کو چکی کے پاٹوں سے گزر کرآٹا بننے کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی لئے بھگت کبیر چلتی چکی دیکھ کر رو پڑتے تھے۔ گندم انسان کے لئے کیا کیا نہیں کرتی، بقول شاعر

اسے کاٹا گیا، پیسا گیا، گوندھا گیا لیکن۔ سبق گندم سے لینا نسل آدم بھول جاتی ہے
کسی بھوکے کے کام آنے سے پہلے غورسے دیکھو۔ دہکتی آگ پہ روٹی خوشی سے پھول جاتی ہے

مگرآج آبادی کے بہاؤ اورگمبھیرطرزحیات نے گندم، آٹا اور روٹی کے حصول کو دشوار بنا دیا ہے۔ ضمیر جعفری نے قوم کو بچے پیدا کرنے کے ساتھ گندم پیدا کرنے کی دہائی دی البتہ اقبال انسان کے کام نہ آنے والے کھیتوں کو ہی جلا دینے کے حامی تھے۔ دیکھا جائے توروٹی ہی عقل و دانش اور تہذیب کی علامت ہوتی ہے۔ بھوک حس لطافت کو مٹاتی ہے اور آداب کے سانچوں میں ڈھلنے سے قاصر ہوتی ہے۔ خالی ہاتھوں کی دانائی مشکوک و معیوب ہے۔

بھوکے غر یب کو چاند بھی روٹی جیسا دکھتا ہے۔ نظیر اکبرآبادی کے نزدیک روٹیاں بندے کو دیوانہ بنا کر نچاتی ہیں۔ صوفی تو روٹی کو دین کا چھٹا رکن کہتے گئے۔ گویا آدمیت کی جامعیت، گندمیت کے بنا ممکن نہیں۔ شاکر شجاع آبادی اللہ سے جنت میں حوروں کے بدلے دنیا میں روٹی کی استدعاکرتا ہے۔ انسان اشرف لمخلوقات ہے تو گندم اشرف الماکولات ہے۔ وطن عزیز میں آٹے کے حالیہ بحران نے غریب کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ اب گندم نہ ہونے کی وجہ سے چکی کے پاٹوں میں دانوں کی جگہ لوگ پس رہے ہیں۔ لیکن سرکار بے سروکار اسے سنجیدہ لینے کی بجائے گندم کی درآمد برآمد اور محض نوٹس لینے میں مصروف ہے۔ کسی نے خوب کہا تھا کہ عموماً بندہ روٹی کو کھاتا ہے مگر بعض حالات میں روٹی بھی بند ے کو کھا جاتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ ضرور یاد رکھنا ہوگا کہ کبھی کبھی روٹی، بندوں کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی کھا جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).