منبر و محراب کے رکھوالوں سے ایک درخواست


پروفیسر فیروز شاہ صاحب کو خدا بخشے، ہمارے استاد تھے۔ اچھے سرجن تھے اور بزلہ سنج تھے۔ حافظ قرآن تھے اور سمجھتے بھی تھے۔ ہمیشہ کتاب کا ساتھ رہتا تھا۔ ہمیں بھی ہسپتال یا کالج میں کتاب کے بغیر دیکھتے تو کہتے ’کافر مت بنو، اہل کتاب بنو‘ ۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ آدم علیہ السلام کو بھی تو اللہ نے نقل دی تھی۔ تبھی تو فرشتوں کے مقابلے میں پاس ہو گیا تھا۔ فیرزشاہ مرحوم کا اپنا انداز تھا جس میں وہ غیر محسوس طریقے سے ہمیں قرآنی آیات پر سوچ پر مجبور کرتے تھے۔ خیر اس وقت تو ہم ناسمجھ تھے اور ان باتوں کو مذاق ہی سمجھتے تھے۔ قرآن کی بات ہوتی تو بس وہی جو ترجمے میں لکھا ہوتا تھا اسی پر ایمان لاتے۔ زیادہ سے زیادہ حواشی پر تھوڑا بہت غور کرتے۔ کسی بات کی سمجھ نہ آتی تو نظر انداز کردیتے۔ اب کہیں سوچنے کی عادت پڑی ہے تو فیروز شاہ مرحوم یاد آتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم کی تخلیق کے بارے بتایا تو فرشتوں کو سمجھ نہ آئی کہ بھلا ان کے بعد کسی اور مخلوق کی ضرورت کیا ہے۔ عبادت اور اللہ کے احکام تو وہ بجا لا ہی رہے ہیں۔ تب اللہ نے بتایا کہ وہ زمین میں اپنا خلیفہ لانا چاہ رہے ہیں جو دنیا کو اپنی مرضی لیکن اللہ کے بنائے ہوئے کائنات کے قوانین کے مطابق چلائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ فرق کیسے سمجھایا؟ اللہ نے آدم علیہ السلام کو علم دیا (علم الاسماء) ۔

چیزوں کا علم، ناموں کا علم۔ پھر فرشتوں کے سامنے اس علم کا مظاہرہ کیا۔ فرشتوں کا سافٹ وئر محدود قسم کا تھا جو اللہ کی عبادت اور اپنے مخصوص کاموں کے لئے مناسب تھا۔ انسان کا سافٹ وئر گویا اوپن سورس تھا جو ایک با اختیار خلیفہ کی ضرورت تھی۔ حتیٰ کہ اللہ نے اسے یہ اختیار بھی دیا کہ اللہ کی بندگی کرے یا شیطان کی مرضی پر جائے۔ انسان کو جاننے کا شعور دیا۔ کائنات اور اللہ کی قدرتوں کو جاننے کی لگن دی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ بار بار قرآن میں یاد دہانی کرواتا ہے کہ آپ غور کیوں نہیں کرتے۔

آسمانوں اور زمین، چاند ستاروں، جانوروں، سبزہ اور پہاڑوں، بہتے پانی اور انسان کی پیدائش پر کیوں نہیں سوچتے۔ یہی علم تھا جو ہمیں غاروں سے نکال کر ائرکنڈیشنڈ کمروں میں لے آیا۔ اسی علم کی بدولت آج ہم تیس سال اوسط عمر سے ستر اسی سال کی اوسط عمر تک پہنچے ہیں۔ بھلا ہم اس علم کے بغیر ستاروں پر کمند ڈال سکتے تھے؟

’کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا پھر اس سے مختلف رنگ کے پھل پیدا کیے اور پہاڑوں میں مختلف رنگ، سفید، لال اور دوسرے رنگ اور طویل کالے پہاڑ۔ اور اسی طرح انسانوں، چوپایوں اور جانوروں میں مختلف رنگ۔ بے شک اللہ کے بندوں میں سے علماء اللہ کی خشیت رکھتے ہیں کہ اللہ عزت والا اور بخشنے والا ہے (قرآن)‘ ۔ اس آئت میں جن علما ء کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ دنیا پر غور کرنے والے عالم ہیں۔ یہ سائنسدان ہیں جو شب و روز اسی تگ و دو میں ہوتے ہیں کہ اللہ کی قدرتوں کے راز افشا کرسکیں۔ یہ یقیناً صرف مساجد میں قیل و قال کی بحث میں پڑنے والوں کے بارے میں ہرگز نہیں

فرشتوں سے زیادہ بھلا کسی کو اللہ کی رضا معلوم تھی؟ کیا اللہ کی عبادت میں فرشتوں سے کوئی کمی رہ گئی تھی؟ کیا دین، یعنی طرز زندگی پر فرشتوں سے زیادہ کوئی سمجھ سکتا تھا؟ اس لئے علم کا اطلاق دین سے کہیں بڑے میدان پر ہوتا ہے۔ یہ علم اسی دنیا کی زندگی کو گلزار بنانے بارے ہے، جو کہ انسان کی اولین ڈیوٹی ہے، خلیفہ جو بنا ہوا ہے۔ دین کے تو لگے بندھے اصول ہیں جو اللہ نے نہایت وضاحت سے قرآن میں نازل فرمادیے۔

نماز ہے یا روزہ، حج ہے یا زکوٰۃ۔ نہ صرف ہدایت نامہ بھجوادیا بلکہ ایک عملی مثال کے لئے پیغمبر بھی مبعوث کروادیا۔ اس کے بعد ہم سے کیوں مطالبہ ہے کہ کائنات اور اسمیں موجود نعمتوں پر غور و تدبر کریں۔ یہ اس لئے کہ فزکس کا علم نہ رکھنے والے کو کائنات کی کیا خبر۔ علم الابدان سے ناخبر کو کیا علم کہ اللہ نے اس ننھی سی جان کو کیسے کائنات اصغربنایا۔ کیمسٹری، باٹنی، زوالوجی اور سائنس کو نظر انداز کر کے بھلا نباتات، معدنیات، پہاڑوں، جانوروں سے کیا تعلق۔

مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے جب بڑے بڑے ’علماء‘ سے سنتاہوں کہ علم صرف دین کا علم ہے۔ یہ دنیا صرف ڈھکوسلا ہے۔ اسے تج کر کے صرف دین کا علم حاصل کرنا چاہیے۔ میرے پاس مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کم سن لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔ جب پڑھائی کے بارے پوچھتا ہوں تو جواب ملتا ہے ’علم حاصل کررہی ہیں‘ ۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ قرآن کی تجوید اور چند احادیث کو یاد کرنے کو اب ’علم‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ نہ ان کو کسی آیت کا مطلب معلوم ہوتا ہے۔ نہ کسی عربی لفظ کے لغوی معنی۔ ترجمہ بھی ڈبل رٹہ لگایا ہوتا ہے۔ اب خود ہی بتائیے کہ ان کو کسی آیت کا مطلب رٹے کی جگالی کے بغیر نہ آتا ہوتو کیا اسے علم کہنا درست ہے؟

ایک اور طعنہ جو بار بار مجھے دیا جاتا ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص میڈیکل کی تعلیم کے بغیر طب کی ہدایات دینا شروع کردے تو آپ اسے نیم حکیم کہتے ہیں۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ نہ تو قرآن کی کسی آیت پر مولوی کے بغیر کسی کو سمجھنے کا ہے اور نہ ہی دین کے معاملے میں ان کے علاوہ کسی کو بولنا چاہیے۔ بھلا دین کوئی پیشہ ہے۔ کل کلاں کو آپ کھانے پینے کا بھی کسی کو تب تک حق نہیں دیں گے جب تک کسی سے تلمذ نہ حاصل کیا ہو۔ دین تو زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔

اللہ نے خود فرمایا ہے کہ اس کا ہدایت نامہ نہایت آسان زبان میں رہتی دنیا تک دستیاب ہے۔ اب اگر کوئی مصر ہوتا ہے کہ نہیں یہ ہدایت نامہ میرے بغیر نہیں پڑھ سکتے تو یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔ اگر ہم ان کی بات مان کر کوئی عمل کریں تو کیا اس کا ثواب یا عذاب وہ قیامت کے روز قبول کر لیں گے۔ یا ہمارا عذر ہی قبول ہوگا کہ فلاں نے اس طرح بتایا تھا؟ ہر گز نہیں ہر شخص اپنے ہر ذرہ برابر عمل کا خود ہی ذمہ دار ہے۔

اس دنیاوی علم کے بغیر اللہ کی خلافت کیسے قائم کریں گے؟ یہی علم ہے جس کی بدولت قرآن کی لافانی افادیت روز بروز آشکارا ہوتی جاتی ہے خواہ وہ فرعون کی لاش کی دریافت ہو، اس کی موت کی وجہ ہو، آسمانوں کی نت نئی حقیقتوں کا کھلنا ہو یا سدرۃ المنتہیٰ کے نت نئے معنی معلوم ہونے ہوں۔ اس لیے منبر و محراب کے رکھوالوں سے درخواست ہے کہ علم کی تعریف وسیع کریں اور سائنس کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).