ایک ناکام پہاڑوں کی مہم کی داستان


\"mustansar

’’ڈاکٹر صاحب۔ کیا میں پہاڑوں پر جا سکتا ہوں‘‘پچھلے چیک اپ کے دوران میں نے اپنے محسن اور مسیحا ڈاکٹر محمود ایاز سے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’ آپ کو یاد ہوگا کہ دوسرے آپریشن کے بعد جب میرے پورے بدن میں پلاسٹک کی متعدد ٹیوبیں پیوست تھیں اور میں نیم بیہوشی میں تھا تو میں نے آپ سے یہی سوال کیا تھا کہ اگر میں صحت مند ہو گیا تو کیا میں پہاڑوں میں جا سکوں گا تو آپ نے کہا تھا، آپ صحت مند ہو جائیں گے اور پہاڑوں پر انشاء اللہ جائیں گے تو چلا جاؤں؟ ‘‘

ڈاکٹر صاحب اپنی ترشی ہوئی ڈاڑھی کی خوشنمائی میں اپنی مسیحائی میں مسکراتے ہوئے کہنے لگے ’’آپ پہاڑوں پر کیوں جانا چاہتے ہیں؟ ‘‘
’’ اس لئے کہ مجھے پہاڑوں میں جا کریقین آئے گا کہ میں واقعی صحت مند ہو گیا ہوں۔ یوں بھی میں اُن کے لئے اور پہاڑ میرے لئے اداس ہو چکے ہیں‘‘۔
’’اپنے ٹانکوں کا خیال رکھئے گا۔ زیادہ مشقت نہ کیجئے گا۔ چلے جائیے‘‘۔
میں نے گھر واپس آ کر گھڑیال سے منادی کردی، نقارہ بجا دیا کہ ڈاکٹر صاحب نے اجازت مرحمت فرما دی، آؤ پہاڑوں پر چلتے ہیں۔

کنڈیارو سے جمیل عباسی اڑتا ہوا پہنچا۔ ہوائی جہاز پر سوار اسلام آباد اتر آیا۔ کامران سلیم سیالکوٹ سے امڈتا ہوا آگیا۔ لاہور سے عاتف اور شاہد زیدی کشاں کشاں میرے ہاں اسلام آباد پہنچ گئے۔ عاتف، شکل سے طالبان کا نمائندہ خصوصی لگتا، اپنی گھنی ڈاڑھی سنوارتا ایک باصلاحیت اور کمال کا فوٹو گرافر ہے جس نے جلوپارک میں ایک غصیلے اور طیش میں آتے ہوئے شیر ببر کی جو تصویر اتاری وہ دنیا بھر میں تہلکہ خیز ثابت ہوئی، شیروں کی دس بہترین تصویروں میں شمار ہوئی یہاں تک کہ مشہور زمانہ پستول برٹیا تخلیق کرنے والے صاحب نے اسے اپنے دفتر میں آویزاں کرنے کے لئے ایک خطیر رقم اُس کی خدمت میں پیش کی۔ اُدھر یہ جو شاہد زیدی صاحب تھے، پرانے کولو نسل لاہور کی ایک بہتّر برس کی عمر کی یادگار تھے۔ لاہور کی مال روڈ پر ہائیکورٹ کے سامنے ’’زیدی فوٹوگرافر‘‘ کا شوروم لاہور کی ایک پہچان تھا۔ میرے ابا جی نے جب میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا اسی شوروم میں میری زندگی کا پہلا کیمرہ۔ ایک کوڈک بے بی براؤنی مبلغ بائیس روپے میں خرید کر دیا تھا۔

تقریباً چونسٹھ برس بعد اسی شوروم کے موجودہ مالک شاہد زیدی نے میری ایک کلاسیک پورٹریٹ بنائی جو وہ کسی ’’لیجنڈ آف پاکستان‘‘ کی تصویری کتاب میں شامل کرنا چاہتے تھے، میں نے فوری طور پر اس بوڑھے اور سمارٹ نوجوان زیدی کو پسند کرلیا۔ زیدی صاحب ایک تنہا زندگی گزارتے ہیں، گھر میں ایک وسیع سٹوڈیو بنا رکھا ہے جہاں جنرل پرویز مشرف بھی اپنی پورٹریٹ بنوانے کے لئے آئے۔ مچھلی کے شکار کے شیدائی ہیں لیکن مچھلی کھاتے نہیں، دوستوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، امریکہ میں چٹانوں پر چڑھتے رہے ہیں، ہوائی جہاز اڑاتے رہے ہیں، پانچ بار مجھ سے پیشتر کے ٹو کے بیس کیمپ تک جا چکے ہیں۔ ہنی مون کے لئے 1964ء میں گلگت اور ہنزہ گئے تھے۔ غرض کہ شدید طورپر آوارہ مزاج اور کھلنڈرے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں ان سے پہلے کیوں متعارف نہ ہوا۔ اُدھر فیصل آباد سے ڈاکٹر احسن چلے آئے جنہوں نے شاید پاکستان بھر میں شمالی علاقہ جات میں سب سے زیادہ کوہ نوردی کی ہے۔ ہمارے اس مہم کے آفیشل انچارج وہ تھے۔ سکردو تک ٹکٹوں کا حصول، بلتستان کے دور افتادہ دیہات تک رسائی اور پھر ہراموش وادی کی بلندوں پر واقع کوتوال جھیل تک ہمیں لے جانا سب اُن کی ذمہ داری تھی۔ لیکن۔ منگل کی سویر جب اسلام آباد میں موسم صاف تھا، سکردو میں دھوپ اتری ہوئی تھی اور ہم تیار بیٹھے تھے جب چھ بجے اطلاع ملی کہ خراب موسم کی وجہ سے سکردو فلائٹ کینسل ہو گئی ہے۔

جو فلائٹ ساڑھے نو بجے روانہ ہونی تھی وہ صبح چھ بجے کیسے کینسل ہو سکتی تھی، بعدازاں کھلا کہ پی آئی اے نے وہ جہاز کہیں اور بھیج دیا تھا اور بہانہ یہی کہ موسم خراب ہے اور وہ نہ تھا۔ پی آئی اے نے اہل شمال کو ہمیشہ دو نمبر شہریوں کے طور پر سلوک کیا ہے کہ وہ احتجاج نہیں کرسکتے۔ چلئے ہم اگلے روز چلے جائیں گے۔ میں وہ دن گزارنے کے لئے اپنے ساتھیوں کو ٹیکسلا لے گیا اور وہ ایک شاندار اور پرانی یادوں کی اداسی کا دن تھا۔ ہم موہر ہ مرادو کی خانقاہ کے کھنڈروں میں چلے گئے، وہاں بلندی پر وہ سحر انگیز غار تھی جہاں میں کبھی احمد داؤد اور کبھی وحید احمد کے ساتھ آیا کرتا تھا۔ میرے ناول ’’قربت مرگ میں محبت‘‘ کے مرکزی کردار خاور، سلطانہ شاہ کے ہمراہ اسی غار کے دہانے پر بیٹھ کر نیچے بچھی ہوئی ہری پور کی وادی کے گھروں میں سے اٹھتے دھویں کو دیکھا کرتاتھا، میری خواہش تھی کہ ہم وہاں پہنچ کر غار کے باہر براجمان ہو کر دوپہر کا کھانا کھائیں لیکن وہ غار میری عمر کی وجہ سے میری پہنچ میں نہ تھی۔ ہم جولیان بھی گئے۔ بدھ مذہب کی وہ ہزاروں برس قدیم درس گاہ جہاں چین، سنٹرل ایشیا اور تبت سے علم کے حصول کے لئے لوگ آیا کرتے تھے۔ جولیان تک اٹھنے والی تقریباً ساٹھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ میرے زخموں کے ٹانکے ابھی کچے ہیں۔ کچھ درد سا ہوتا تھا۔ اگر یہاں یہ حالت ہے تو میں ہراموش وادی تک کیسے پہنچ پاؤں گا۔ لیکن، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ جولیان میں وہ کوٹھڑی تھی جس میں میرے ناول کے کردار خاور نے سلطانہ شاہ کے ساتھ اپنی محبت کا ایک گیلا اظہار کیا تھا۔

ڈاکٹر احسن نے بہت کوشش کی لیکن ہمیں اگلے روز کی فلائٹ پر نشستیں نہ مل سکیں، البتہ بدھ کے روز چانس پر ٹکٹ میسر تھے، کیا پتہ وہ ٹکٹ نہ کنفرم ہوں، اگر ہوں تو کون جانے اُس روز بھی فلائٹ جائے نہ جائے۔ ہم سب کے دل بجھ گئے۔ ہم نے اپنے اپنے بجھے دل میں چراغ جلانے کی کوشش کی پر ناامیدی کی پھونکوں نے سب چراغوں کو بجھا دیا۔ جمیل واپس کنڈ یارو چلا گیا۔ ڈاکٹر احسن نے فیصل آباد کا سفر اختیار کیا اور ہم تینوں، میں، کامران اور زیدی صاحب ہارے ہوئے جنگجوؤں کی مانند پژمردہ اور تھکے ہوئے واپس لاہور آگئے۔ دراصل بلند پہاڑوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ابھی میرے ٹانکے کچے ہیں، زخم بھرے نہیں۔ یہ میری آشفتہ سری ہے جو مجھے ان کی جانب لئے جاتی ہے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں رسول خمرہ توف کی مانند اُن کی بلندیوں پر مر جاؤں تو انہوں نے میری محبت میں مجھے وصول کرنے سے انکار کردیا۔

اگر تم تنہا اور اداس ہو۔
اور کوئی بھی تمہاری محبت میں مبتلا نہیں ہے۔
تو جان لینا کہ۔
کہیں بلند پہاڑوں میں۔
رسول خمرہ توف مر گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments