کوئٹہ کا جلسہ، وفاق پاکستان اور اندھیری رات کے جگنو


20 ستمبر کی اے پی سی میں ملک بھر کی سیاسی جماعتوں نے اپوزیشن کا وسیع البنیاد سیاسی اتحاد تشکیل پایا جسے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا نام ملا۔ (پی ڈی ایم) نے 26 نکات پر مشتمل سیاسی ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کیا اور طے شدہ اہداف کے حصول کے لئے مشترکہ سیاسی جدوجہد شروع کرنے کا اعلان کیا۔ پی ڈی ایم ملک میں از سر نو شفاف، صاف، قابل اعتماد غیر جانبدارانہ مداخلت سے پاک عام انتخابات کے جلد انعقاد اور حکومت سے مستعفی ہونے کے مطالبات کررہی ہے۔

احتجاجی سیاسی جدوجہد کے مختلف ذرائع بروئے کار لانے کے لئے پی ڈی ایم نے عوامی رابطہ مہم کے طور پر ملک کے تمام اہم سیاسی مراکز و شہروں میں مشترکہ جلسے کرنے کا آغاز کر دیا ہے پہلا جلسہ 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جبکہ دوسرا جلسہ 18 اکتوبر کو کراچی میں ہوا اور بھر پور ہوا جبکہ تیسرا مگر بہت اہم جلسہ 25 اکتوبر کو کوئٹہ ایوب اسٹیڈیم میں ہوا جو بلوچستان کی تاریخ میں سب سے بڑا سیاسی جلسہ قرار پاتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق جلسہ گاہ اور اس کے بیرونی حلقے میں کم وبیش ایک لاکھ تیس ہزار افراد شریک ہوئے ایوب اسٹیڈیم کے مرکزی دروازے سے چمن پھاٹک تک سڑک پر عوام کی کثیر تعداد موجود تھی۔ جلسے کا نظم ضبط انتہائی قابل قدر تھا۔ دہشت گردی کے خدشات سے نبردآزمائی کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے رضا کاروں نے محنت و جانفشانی سے کام کرتے ہوئے شرکائے جلسہ کی جسمانی چیکنگ کے مختلف اٹھارہ مراحل مقرر کیے ہوئے تھے۔

پی ڈی ایم کے کوئٹہ جلسہ نے مخدوش اور کشیدہ سیاسی صورتحال، بے پناہ مہنگائی، سیاسی تقسیم، خلفشار اورمعاشی و سیاسی عدم استحکام کے مختلف پہلوؤں سے عوام کو آگاہ کیا۔ ”ریاست“ پر ”سلطنت“ کی بالادستی کے مخصوص پیوستہ کرداروں کی کھل کر وضاحت کی۔ بلوچستان کے مسائل بدامنی، لاپتہ افراد کی بازیابی اور صوبائی خود مختاری سے انحراف سمیت سی پیک منصوبے میں صوبے کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ببانگ دہل اظہار کیا۔ اس جلسہ میں شرکت اور خطاب کے لئے پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی جناب محسن داوڑ کو کوئٹہ ائر پورٹ پر روک کر واپس اسلام آباد بھجوانے پر صوبائی حکومت کے لئے سخت زبان میں مذمتی لب ولہجہ اپنایا گیا حیرت انگیز بات  ہے کہ جو شخص (محسن داوڑ) قومی اسمبلی میں خطاب کا حق رکھتا ہے، اسے کوئٹہ کے عوامی اجتماع سے اظہار خیال سے محروم رکھا گیا۔

اس منفی اور غیر قانونی اقدام سے ”سلطنت“ نے کیا فوائد حاصل کیے اور ملک کو کس طرح کے نقصانات سے محفوظ رکھا ہے؟ اس کا جواب یقیناً کسی کے پاس نہیں۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ پی ڈی ایم قیادت نے محسن داوڑ کی بازیابی کے موثر اقدام یا احتجاج کیوں نہیں کیا؟ جناب میاں نواز شریف نے ویڈیو لنک پر خطاب کے آغاز میں نیشنل پارٹی کے مرحوم رہنما، قائد جمہوریت میر حاصل خان بزنجو کی بے وقت رحلت پر بڑے دکھ اور صدمے کا اظہار کیا ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرتے ہوئے بتایا کہ میر حاصل بزنجو نے جمہوریت کے استحکام اور پارلیمان کی بالادستی کے لئے تمام اپوزیشن جماعتوں کو یکجا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ بہادر اور نڈر جہاں دیدہ سیاسی رہنما تھے۔ ان کی عدم موجودگی ایک گہرے خلا کا احساس دلائی ہے۔

کوئٹہ کے جلسے میں ملک بھر کے سیاسی رہنماؤں نے یک زبان ہو کر جس عزم اور ارادے کے ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی، ریاست سے بیگانگی اور عوام کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر تشویش ظاہر کیا اس سے بلوچستان میں پھیلی گہری سیاسی تاریکی میں امید کا ایک ننھا سا دیا روشن ہوا ہے۔ اس دیے کو پر نور روشنی اہل پنجاب ہی دے سکتے ہیں تاریخ نے اس منظر کے لمحے کو ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے جس کا انتظار جمہوری قائدین دہائیوں سے کر رہے تھے بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو اور دیگر ملک میں حقیقی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے قیام اور عوام واقوام کی آسودگی کے خواب کی تعبیر کے لئے ہمیشہ پنجاب کے عوام کے جاگنے کی بات کیا کرتے تھے پی ڈی ایم کے اب تک کے جلسوں میں ہونے والے سیاسی مطالبات، تجزیات اور مسائل کی نشاندہی نے یقیناً پنجاب کے عوام کی ذہنی بیداری کے احساس کو نمایاں کیا ہے۔

پنجاب کی معتبر سیاسی قیادت نے بلوچستان کے عوام کے دکھوں، مصائب اور پیچیدہ مسائل پر ہم آواز ہو کر بلوچستان اور وفاق کے رشتے اور بلوچستان و مملکت کے بیچ غلط کار پالیسیوں سے در آنے والی دوری کو کم کرنے کے سفر کا آغاز کیا ہے۔ جس پر با اختیار حلقے کے نام نہاد دانشور اور میڈیا پرسنز لال پیلے ہو رہے ہیں کیونکہ وہ بلوچستان میں موجود بحران اور مسائل کی گہرائیوں سے ہی ناآشنا ہیں۔ راوی چین ہی چین لکھنے والے ایسے درباری افراد کو ملکی تاریخ 1971 میں رد کرچکی مگر یہ طبقہ اپنے کردار کے ۔ ۔ساتھ اب بھی موجود اور بے وقت کی راگنی چھیڑے ہوئے ہے۔

ان جلسوں پر حکومتی رد عمل بھی اس بوکھلاہٹ کا آئینہ دار ہے جو 25 جولائی 2018 کو ووٹ چوری کی واردات کا راز کھل جانے سے نمایاں ہوا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے عوام کو مملکت سے بد ظن کرنے والی ریاستی پالیسیوں نے بلوچستان کی سرزمین کو خون آلود کیا ہے۔ سیاست اور جمہوریت، احترام باہمی اور سماج میں بسنے والے تمام افراد، گروہوں کے متنوع حلقوں کو ایک گلدستے میں پرو کر اتفاق واتحاد کے ساتھ ایک ریاستی سماجی بوقلمونی کا نسخہ ہائے وفا قلمبند کرنے کا عمل ہے۔ طاقت اور جبر اس نسخے کو دریابرد کرتے ہیں تو سماج کے تانے بانے تاروپود باہم الجھ جاتے ہیں۔ اپنی رائے کو دوسروں کے خیالات نظریات ومفادات کے تناظر میں از سر نو مرتب کر کے اسے بہتر سے بہترین بنانے سے معاشرے میں وہ گنجائش پید اہوتی ہے جو آپ کے رائے کو قابل قبول بناتی اور احترام بخشتی ہے۔

سیاست تاریخ کے تاربود میں الجھے واقعات سے سبق حاصل کر کے نئی حکمت عملی تشکیل دیتی ہے، تاریخ میں نہی اٹکتی بلکہ آگے بڑھتی ہے اور برضا و رغبت افہام پیدا کرتی ہے قوم ماضی پرست ہو جائے تو مستقبل سے محروم ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ اہل پاکستان کے ارباب حل وعقد و دانشور ملک کے موجودہ سیاسی ما فیا اور ان گمبھیر الجھنوں کو تاریخی شعور کے ساتھ، حال میں سلجھانے کی راہ اپنائیں تو ایک تابناک، روشن فکر ترقی کرتا معاشی سیاسی استحکام ہمارا مقدر ہو سکتا ہے اس کے لئے بس سیاست کو غیر سیاسی آلودگیوں سے بچانے کا اہتمام کرنا ہے پی ڈی ایم کے 26 نکات کا یہی خلاصہ ہے۔ تحریک کا منطقی انجام کامیابی کی صبح اجالتا ہے یا شب تاریک کو آماؤس بناتا ہے۔ اس کا انحصار فریق ثانی کے رد عمل اور عوام کے وسیع تر حلقوں کی توانا جدوجہد پر ہوگا۔ مگر اس ارفع منزل تک پی ڈی ایم کی لبرل جمہوری تحریک کی کامیابی کے ذریعے ہی پہنچنا ممکن ہے۔

وقت کے بہاو اور کامیابی کی صورت میں ملکی سیاسی تاریخ کا اگلا پڑاو عوامی جمہوریہ کے خواب کی تعبیر و تشکیل بھی ہو سکتا ہے جمہوریت اور صنعتی پیداواریت سے سماجی تبدیلی ناگزیر طور سیاسی معاشی ارتقاء و تبدل کا سامان مہیا کرے گی۔

پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ 22 نومبر کو پشاور میں ہوگا یہ وقفہ بہت طویل ہے جو تحریک کے تشکیل پاتے ٹیمپو کے لیے مضر ہوگا ان ایام میں دہشت گردی اور کرونا وبا کے پھیلاو کے سہارے تحریک کو سبوتاژ کیا جانا بعید از قیاس نہیں۔

تحریک کا فیصلہ کن مرحلہ سینٹ انتخابات سے قبل تبدیلی لانا ہے شاید اس کے لیے اسمبلیوں سے مستعفی ہونا ناگزیر ہو جائے یا پھر “اختیار والے” بالواسطہ معاملات حل کرنے کی سعی کریں۔ اس صورت میں ازادانہ غیر جانبدارانہ مداخلت سے پاک صاف شفاف قابل بھروسا عام انتخابات کے عمل کو عملاً ممکن بنانے کے لیے موثر اقدامات جیسی شرائط تسلیم کرانا اشد ضروری اور گزشتہ انتخابات پر اثر انداز ہونے والوں سے نجات و قانونی کارروائی کا آغاز کا ہونا۔ نئی صبح کا تارہ ہوگا جو اندھیری شب میں روشن جگنو کہلایے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).