بلوچستان میں کرپشن کی حوصلہ افزائی


محکمہ صحت کا قلمدان پڑھے لکھے وزیراعلی بلوچستان کے پاس ہے لیکن بدانتظامی اور کرپشن کی خبریں نہ صرف چار سو پھیلی ہیں بلکہ محکمے میں کام کرنے والے اہلکاروں کی گرفتاریاں اور انکوائریوں کے لئے طلبی کے نوٹسز سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ابھی کل نیب بلوچستان نے محکمہ صحت میں کرپشن کی تحقیقات کے لئے سابق اسپیشل سیکرٹری صحت کپتان ریٹائرڈ طاہر ظفر عباسی کو طلب کر لیا ہے۔

نیب بلوچستان نے کورونا کے دوران اربوں کی غیر معیاری ادویات کی خریداری اور کاغذوں میں کی گئی محکمہ صحت بلوچستان کے لئے ہونے والے خریداری کے کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں اہم شخصیات کی گرفتاریاں متوقع ہیں۔ اس سلسلے میں ہونے والی کرپشن میں اہم اور اعلی عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے نام تحقیقات کے دوران سامنے آئے ہیں جن کی ملی بھگت سے بھاری بھر رقوم محکمہ صحت و دیگر محکموں کے من پسند اہلکاروں کو جاری کی گئی ہیں جب کہ خریداری کے حوالے سے دیے جانے والے احکامات کے سرکاری کاغذات مبہم اور غیر واضح ہیں جب کہ زبانی طور پر من پسند افراد اور کمپنیوں سے خریداری کرنے کا ان کو کہہ دیا تھا۔

ویژن سے زیادہ کرسیوں پر بیٹھ کر وزن رکھنے والی بلوچستان حکومت سرکاری ریکارڈ میں سالانہ ہر عمر کے فی فرد پانچ ہزار روپے کی ادویات فراہم کر رہی ہے جب کہ مختلف بی ایچ اوز اور پی پی ایچ آئی کو اس مد میں جاری ہونے والی رقم اس میں شامل نہیں ہے۔ محکمہ خزانہ بلوچستان نے اس سے قبل موجودہ مالی سال میں تین ارب روپے ڈی ایچ کیوز اور مختلف ہسپتالوں کو ریلیز کیے تھے جب کہ سپریم کورٹ کے بینچ کی کوئٹہ آمد کو بہانہ بنا کر مزید دو ارب روپے ریلیز کیے اس رقم کے حساب سے سرکاری کاغذات میں سالانہ فی فرد چاہیے وہ بچہ یا بڑا پانچ ہزار روپے سالانہ دوائی کھائے گا۔

آپ المیہ تو دیکھیں کہ اعلی ترین دفتر کا ایک حکومتی ملازم سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ اپنے مفادات کے حصول کے لیے محکمہ صحت کے سرکاری ہسپتالوں کو اپنے مفادات کی خاطر من پسند لوگوں کو کنسلٹنٹ ظاہر کر کے محکمہ صحت حوالے کے کر رہا ہے۔ اس کی تصدیق کے لئے کہ محکمہ صحت میں سکریٹری صحت بلوچستان کے علاوہ کون عمل داخل کر رہا ہے۔ سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ حادثات میں زیر تعمیر ایک حصہ تحقیقات کرنے والوں کو مدد دے سکتا ہے۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا حکومت کی اس حوالے سے ہمارے پاس ایک بہترین آئیڈیل مثال موجود ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے صوبے کی تمام آبادی کو فی کس دو ہزار آٹھ سو روپے میں انشورنس کمپنی کے پاس انشور کر رکھا ہے۔ وہ اگر دیہی علاقے شہری علاقے کے ہسپتال میں آتا ہے تو ان کو ایک ہزار روپے کرایہ بھی ملتا ہے جب کہ چھوٹے ضلع کے ہسپتال میں وہ شخص تین سے پانچ لاکھ روپے اپنی بیماری کی مد میں اس انشورنس اسکیم کے تحت خرچ کر سکتا ہے۔ اگر ضلع کی سطح پر ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔ وہ صوبے کی سطح پر کسی ہسپتال میں آتے ہیں تو پانچ لاکھ روپے ان کے علاج و معالجے کے اخراجات 2800 روپے لینے والی انشورنس کمپنی کے ذمہ ہیں۔

اگر اس سے مریض کے علاج پر اخراجات بڑھتے ہیں تو ایک اور ہیڈ میں خیبر پختونخوا حکومت نے کچھ رقم رکھی ہے جس سے انشورنس کمپنی کو ادائیگی کی جاتی ہے اور مریض کا علاج کرایا جاتا ہے۔ اس حساب سے اگر ہم اپنے لوگوں کا مردم شماری کے حساب سب سے انشورنس کراتے ہیں تو ایک ارب پچاس کروڑ روپے بلوچستان حکومت کو سالانہ انشورنس کمپنی کو ادا کرنے ہوں گے اور اس سال حکومت بلوچستان کی ادویات کی خریداری کے لئے جاری کیے گئے پانچ ارب روپے کی رقم سے ساڑھے تین ارب روپے کی ہمیں بچت ہو سکتی تھی اور ہر شخص کو پانچ لاکھ روپے تک کی سالانہ دوائی بھی مفت ملنا یقینی تھا لیکن ویژن والے وزیراعلیٰ بلوچستان ایسا کرنے میں تاحال ناکام ہیں۔

انسانی زندگی کا سب سے اہم شعبہ محکمہ صحت تاریخ کی بد ترین بد انتظامی کا شکار ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں تین سیکرٹری، تین سپیشل سیکرٹری، 4 ایڈیشنل سیکرٹری اور دیگر افسران کا تبادلہ، ڈائریکٹر ایم ایس ڈی اور ڈی جی صحت بلوچستان کی ٹوپی کبھی اس کے سر اور کبھی اس کے سر، ورٹیکیل پروگرامز میں رسہ کشی اور ہسپتالوں میں بنیادی ادویات اور دیگر آلات کی شدید قلت، کورونا وبا کے دوران لوگ زندگی سے مایوس تاہم سنگدلوں کی کورونا فنڈ میں اربوں روپے کی کرپشن جس کی پردہ پوشی اہم ترین حکومتی ملازم کا دفتر کر رہا ہے اور صوبے کے تمام کرپٹ لوگوں کو جن کا وہ حصہ دار ہے۔ سائبان فراہم کیا ہے۔ 5 ارب سے زائد ادویات، مشینری، اور آلات کا بجٹ کیا اس سال استعمال ہو جائے گا؟ ایسے سرکاری ملازم کو منافع بخش کاروبار ٹف ٹائل سڑک اور ٹرک سے فرصت نہیں۔ محکمہ صحت جام سوم کے پاس ہے اور 18 محکموں کے قلمدانوں سے جب فرصت ملے تو وہ کچھ وقت اس محکمے کو عنایت فرماتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).