کیا پاکستان میں سیاست ہے؟
سیاست کی تعریف کئی طرح سے کی جا سکتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی فرد، افراد، گروہ یا جماعت یعنی پارٹی کا اقتدار میں آنے کی خاطر لائحہ عمل اور برسر اقتدار آنے کے بعد حکومتی معاملات کو آگے بڑھانے اور انہیں اس انداز سے حل کرنے، جس سے حزب اختلاف کو جو خود بھی اقتدار میں آنے کا لائحہ عمل اختیار کیے ہوتی ہے، انگلی اٹھانے کا کم سے کم موقع میسر آئے، کی کوشش کرنے کو سیاست کہا جائے گا۔ ظاہر ہے سیاست کے دوران حزب اختلاف حزب اقتدار کو نیچا دکھانے کی سعی کرتے ہوئے، اس کے اعمال کو ہدف تنقید بنائے ہوتی ہے مگر چونکہ اقتدار میں آ چکا فرد یا اقتدار میں آ چکی پارٹی دراصل تمام ملک میں موجود آبادی کی بھلائی کی ذمہ دار بن چکی ہوتی ہے، اس لیے وہ حزب اختلاف کے اعتراضات کا مدبرانہ طریقے سے جواب دینے کی روادار ہونی چاہیے۔ اگر اس سے بڑھ کر وہ کچھ اور کرے تو وہ سیاست کے منفی انداز جیسے کہ فسطائیت یا آمریت اختیار کر لینے کی سزاوار ہوگی۔
لیکن دنیا میں کچھ عرصے سے سیاست میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا چلن رواج پانے لگا ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بھی شائستہ زبان میں بازاری پن لے آیا جائے۔ بازاری پن پر مبنی الفاظ کو انگریزی زبان میں Slang کہا جاتا ہے تو یوں یہ بازاری الفاظ زبان زد عام ہو جاتے ہیں جسے لوگوں کی اکثریت جو اپنی عسرت اور تعلیم و تربیت کے فقدان کے سبب شائستگی سے ویسے ہی کنارہ کش ہوتی ہے، اختیار کر لیتی ہے لیکن صاحبان سیاست کو ایسی طرز گفتار اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور وہ کرتے بھی ہیں۔ جیسے آپ امریکہ کے ”نادر روزگار“ صدر ٹرمپ سے تو ایسی زبان سن سکتے ہیں مگر ان کے قریب رہنے والے دوسرے ارباب اختیار ایسی زبان برتنے سے حتی الوسع ریز برتتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں ”نادر روزگار“ کہنے کو منتخب وزیراعظم عمران خان، جنہیں ان کے مخالف سیاست دان ان کے حقیقی نام عمران احمد نیازی کے نام سے پکارنا پسند کرتے ہیں، نے ایسی غیر پارلیمانی زبان استعمال کیے جانے کی غرض سے نام نہاد ترجمان افراد کی ایک پوری ٹیم بنائی ہوئی ہے جو اپنی کوتاہیوں کی کم از کم زبانی تلافی کرنے کی بجائے الٹا دو سال پہلے برسر اقتدار، یا سات سال پہلے برسراقتدار پارٹی کے زعما کو برے الفاظ استعمال کرتے ہوئے، مورد الزام ٹھہرائے جاتی ہے۔ اگرچہ حزب اختلاف بالعموم کبھی کبھار حزب اقتدار کے لیے ہلکا سا سب و شتم اختیار کرنے کی روادار ہوا کرتی ہے مگر حزب اقتدار کی جانب سے اقتدار میں دو سال رہنے کے باوجود یہ رویہ روا رکھنا پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔
ایسا نہیں کہ ایسا دنیا میں پہلی بار ہوا ہو۔ گزشتہ صدی کے چوتھے عشرے کے دوران جرمنی میں ہٹلر اور اطالیہ میں مسولینی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہی انداز اختیار کیا گیا تھا۔ فوجی آمر چاہے یورپ کے ہسپانیہ میں ہوں، جنوبی امریکہ کے چلی میں ہوں، یا پاکستان میں، انہوں نے ہمیشہ یہی انداز اختیار کیا تھا۔ دوم الذکر کھلے عام آمر ہوتے ہیں جن سے کوئی اچھی امید رکھی ہی نہیں جا سکتی مگر کہنے کو عوام کی جانب سے منتخب ہو کر آنے والے جب ہیئت مقتدرہ کی اعانت یا عمل باہمی سے برسر اقتدار آتے ہیں اور اگر انہیں حالات سازگار مل جائیں تو وہ فسطائی حکمران بن جایا کرتے ہیں جو پہلے اپنے مخالفین کو تمام کرتے ہیں اور پھر اپنے اندر سے ایسے افراد کو جن سے انہیں خطرہ محسوس ہوتا ہو۔
پاکستان میں اگرچہ حزب اختلاف اور خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ہیئت مقتدرہ کی قلعی کھولنے کا رویہ اپنانا خوش آئند ہے مگر اسی کا الٹ جانا یعنی Back Fire ہونا اس جماعت کو یا پوری حزب اختلاف کو یا پورے ملک کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے جلد ہی مفاہمت اور مکالمے پر زور دینا شروع کر دیا تھا اور یہ دہرائے بھی جا رہی ہے لیکن ملک کی بیشتر آبادی چونکہ ہند دشمنی پر کاربند ہے اس لیے حزب اختلاف پر غداری یا بغاوت کے لگے الزام جلد قبولیت عامہ پا سکتے ہیں جس سے سیاست کے منفی رجحانات مزید زور پکڑ سکتے ہیں۔
حزب اختلاف کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مہنگائی کو اپنا نعرہ بنائے رکھے اور نامناسب طریقے سے منتخب کردہ حزب اقتدار کو ذمہ دار ٹھہرائے جو درست بھی ہوگا کیونکہ پاکستان جہاں ایک طرف آئی ایم ایف کا دریوزہ گر بن کے رہ گیا ہے وہاں دوسری طرف ایف اے ٹی ایف بھی اس کی مشکیں ابھی تک کسے ہوئے ہے۔ اوپر سے پلوامہ میں ہوئی دہشت گردی سے متعلق عزیزی فواد چوہدری ایسا بیان دے چکے ہیں جسے چاہے لاکھ مبہم بنائے جانے کی سعی کی جائے مگر بیان کو بین الاقوامی میڈیا نے جس طرح پیش کرنا تھا وہ کر دیا، اب لگی آگ بجھانے سے سیاست ناآشنا حکومت کو کوئی فائدہ پہنچنے سے رہا۔
- محبت اور نفسیات - 13/02/2024
- پھر کیا کرنا چاہیے؟ - 14/01/2024
- احمد سلیم مرتے تھوڑا نہ ہیں - 12/12/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).