شادی کے بعد فوٹو شوٹ کروانے پر اس انڈین جوڑے پر تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟


ایک نوجوان انڈین جوڑے، جس کی شادی کے بعد کا فوٹو شوٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا اور ان پر سخت الفاظ میں تنقید کی گئی، نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ ان تصاویر کو نہیں ہٹائیں گے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ غنڈہ گردی کرنے والوں کی بات مان رہے ہیں۔

تصویروں میں لکشمی اور ہروشی کارتک کو سفید لحاف لپیٹے، چائے کے سرسبز باغات میں ہنستے، گلے ملتے اور ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ستمبر میں ایک چھوٹی سی تقریب میں ان کی شادی ہوئی تھی، جوڑے کہنا ہے کہ انھوں نے شادی کے بعد ایک فوٹو شوٹ رکھنے کا فیصلہ کیا جو شادی کی ادھوری تقریب کی کمی پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ’یادگار‘ بھی ہوگا۔

لکشمی نے جنوبی ریاست کیرالہ کے ایرناکولم شہر میں اپنے گھر سے فون پر بتایا ’ہماری شادی میں محبت اور گھر والوں کی رضامندی دونوں شامل تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ہمارے اہل خانہ نے پچھلے سال ہمیں ایک دوسرے سے ملوایا، پھر ہم ملنے لگے اور ہمیں پیار ہو گیا۔‘

ہروشی ایک ٹیلی کام کمپنی میں کام کرتے ہیں اور لکشمی نے ابھی الیکٹریکل اور الیکٹرانک انجینئرنگ میں اپنی ڈگری مکمل کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پٹنہ کی زیرِ آب سڑکوں پر فوٹو شوٹ پر تنقید

منگیتر کی آخری خواہش، دلہن کا اکیلے ہی فوٹو شوٹ

شادی کی فوٹوگرافی کے لیے تاریخی عمارتیں ہی کیوں؟

اس جوڑے نے اپریل میں ایک شاندار شادی کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن پھر کورونا وائرس نے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔

مارچ کے آخر میں انڈیا نے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیا اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تمام اجتماعات پر پابندی عائد کردی۔ لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد چھوٹے پیمانے پر شادیوں کی بھی اجازت دی گئی۔

دونوں زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتے تھے، لہذا ہروشی اور لکشمی نے 16 ستمبر کو اپنے آبائی شہر کوللام کے ایک مندر میں شادی کرلی۔

’یہ ایک زبردست شادی کی تقریب تھی لیکن اس میں صرف ہمارے اہل خانہ اور کچھ قریبی دوستوں نے شرکت کی۔ پولیس نے ہمیں صرف 50 مہمانوں کو بلانے کی اجازت دی، بہت سی پابندیاں تھیں۔‘

اپنے ارمان پورے کرنے کے لیے اس جوڑے نے ایک ’یادگار‘ فوٹو شاٹ کروانے کا فیصلہ کیا۔ کیرالہ اور انڈیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں، بہت سے جوڑے دنیا کے لیے اپنی شادی کا اعلان روایتی فوٹو شوٹ کی جگہ تفصیلی فوٹو شوٹ سے کر رہے ہیں۔

ہروشی شادی کے بعد والے اس فوٹو شوٹ کو ’رومانوی اور انتہائی قریبی طرح‘ کا بنوانا چاہتے تھے، انھوں نے انٹرنیٹ پر مختلف شوٹس دیکھے اور بلاخر انھوں نے ’اس تصور‘ کو عملی جامع پہنانے کا سوچا۔

ان کے فوٹوگرافر دوست اخیل کارتکیان، جنھوں نے یہ تصاویر لیں، نے مجھے بتایا کہ ہروشی کے تصوراتی فوٹو شوٹ کو ممکن بنانے میں صرف چند گھنٹے لگے ہیں۔ انھوں نے سرسبز چائے کے باغات میں جوڑے کے ہوٹل کے کمرے سے لحاف ادھار لیے اور چائے کیے باغات نے پس منظرکا کام کیا۔

لکشمی کا کہنا ہے کہ ’ہم بہت لطف اندوز ہوئے۔ پورا وقت ہم ہنس رہے تھے۔ ہم بہت پرجوش تھے۔ یہ ہمارے ہنی مون کا ایک حصہ تھا ، ہماری تازہ تازہ شادی ہوئی تھی اور ہم آزاد محسوس کر رہے تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کے لیے اتنے مسائل پیدا کردے گا۔



پریشانی صرف دو دن بعد شروع ہوئی جب اخیل نے فیس بک پر تصاویر اپ لوڈ کیں۔

ٹرولز نے ان تصاویر کو بدصورت، فحش اور شرمناک قرار دیا۔ کچھ نے کہا کہ وہ فحش اور کنڈوم کمرشل کے لیے فٹ تھے۔ کچھ نے انھیں کمرہ لینے کا مشورہ دیا۔

لکشمی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں دو دن تک صرف سخت نفرت کا سامنا رہا۔ ’لوگوں نے کہا کہ ہم عریانی دکھا رہے ہیں، انھوں نے پوچھا کہ کیا ہم نے نیچے کپڑے پہن رکھے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ کام توجہ حاصل کرنے اور تشہیر کے لیے کر رہے ہیں۔‘

لکشمی کا کہنا ہے کہ ان پر زیادہ تنقید کی گئی۔

وہ کہتی ہیں ’میرے لیے یہ بہت خوفناک تجربہ تھا۔ وہ مجھے ہروشی سے کہیں زیادہ ہراساں کررہے تھے۔ وہ مجھے پورن فلموں میں اداکاری کرنے کے لیے کہہ رہے تھے، میرے جسم پر تنقید کی گئی۔‘

’ان ٹرولز میں بہت ساری خواتین بھی شامل تھیں۔ انھوں نے میری وہ سابقہ ​​تصاویر ڈھونڈ نکالیں جن میں، میں نے میک اپ نہیں کیا تھا اور یہ کہتے ہوئے موازنہ کرنا شروع کر دیا، کہ میں ان تصاویر میں کتنی بدصورت نظر آتی ہوں۔‘



لیکن کچھ دن بعد کئی لوگوں نے ان ٹرولز کو آڑے ہاتھوں لینے کے ساتھ ساتھ جوڑے کے لیے حمایت کا اظہار کرنا بھی شروع کردیا۔ بہت سے لوگوں نے ان تصاویر کو حیرت انگیز اور خوبصورت قرار دیا اور جوڑے کو تنقیدی تبصروں کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیا۔

ایک عورت نے کہا کہ انھیں وہ وقت یاد ہے جب ایک شادی شدہ جوڑے کو ہاتھ تھامتے ہوئے شرم آتی تھی اور جوڑے کو مشورہ دیا تھا کہ وہ تنقید کرنے والوں کو نظر انداز کریں اور خوش رہیں۔

لکشمی کہتی ہیں ’ہمیں معلوم نہیں ہم پر تنقید کرنے والے کون لوگ تھے۔ ہم ان لوگوں کو بھی نہیں جانتے تھے جو ہماری حمایت میں تقریر کررہے تھے، لیکن اس سے ہمیں بہت خوشی ہوئی۔‘

یہ صرف انجان سوشل میڈیا ٹرولز ہی نہیں تھے، جوڑے کو ایسے قدامت پسند رشتہ داروں کے ساتھ بھی نمٹنا پڑا جنھیں فوٹو شوٹ پسند نہیں تھا۔

لکشمی کا کہنا ہے کہ ’ابتدا میں ہمارے والدین بھی حیران رہ گئے تھے، لیکن ہم نے انھیں سمجھایا کہ ہم یہ کرنا کیوں چاہتے ہیں اور وہ سمجھ گئے اور بہت مددگار رہے ہیں۔ لیکن ہمارے بہت سے رشتہ داروں نے ہم پر مغربی تہذیب اپنانے کا الزام لگایا ہے۔‘



’انھوں نے یہ پوچھنے کے لیے ہمیں فون کیا کہ یہ کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ انھوں نے کہا کیا آپ ہماری تہذیب و ثقافت کو بھول گئے ہیں؟‘

بہت سے لوگوں نے انھیں تصاویر ہٹانے کو کہا اور لکشمی اور ہروشی کو فیملی واٹس ایپ گروپس سے نکال دیا گیا۔

لیکن جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ پرعزم ہیں کہ وہ تصاویر نہیں ہٹائیں گے۔

لکشمی کہتی ہیں ، ’اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو وہ اسے ہمارا اقرار جرم مانیں گے۔۔ اس کا مطلب ہو گا ہم نے کچھ غلط کیا ہے۔ لیکن ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم نے نیچے کپڑے بھی پہنے ہوئے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ شروع میں ہر طرح کی تنقید سے نمٹنا مشکل تھا، لیکن اب ہم اس کی عادت ڈال چکے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ معاشرہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے ساتھ رہنا سیکھا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp