امریکی انتخابات: عوامی جائزوں کے مطابق ٹرمپ جیتیں گے یا بائیڈن؟


منگل کو ہونے والے صدارتی الیکشن سے قبل اس وقت امریکہ کے طول و عرض میں کیے جانے والے عوامی جائزوں کی بنا پر امیدواروں صدرڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے جیتنے کے امکانات کو پرکھا جا رہا ہے۔

ہر چند کہ امریکی انتخابات کا نتیجہ پول کی بنا پر مرتب نہیں ہوتا لیکن ان پر بات چیت انتخابی گفتگو کا اہم موضوع ہے۔ امریکہ میں صدر کا انتخاب عوامی ووٹ کے ذریعے چنے گئے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد پر ہوتا ہے۔

امریکی عوام جب ووٹ ڈالتے ہیں تو وہ ایسے افراد کے لیے ووٹ ڈال رہے ہوتے ہیں جو مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں جو صدر اور نائب صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہر ریاست میں الیکٹورل کالج کے اراکین کی تعداد اس کی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔

جیتنے والے امیدوار کو 538 میں سے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

حالیہ مختلف پول یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈیمو کریٹک امیدوار بائیڈن کو قومی سطح پر صدر ٹرمپ پر سات پوائنٹس کی برتری ہے۔

امریکی صدارتی مہم اور رائے عامہ کے جائزے

زیادہ تر امریکی ریاستیں اپنا وزن ایک سیاسی جماعت کے پلڑے میں ڈالتی ہیں۔ لیکن تقریباً ایک درجن کے قریب سوئنگ اسٹیٹس الیکشن کے نتیجے پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتی ہیں کیوں کہ یہ ریاستیں دونوں پارٹیوں میں سے کسی کے نام بھی ہو سکتی ہیں۔

سوئنگ ریاستوں میں بائیڈن کو چار پوائنٹس کے ساتھ معمولی برتری حاصل ہے۔

صدر ٹرمپ پر امید ہیں کہ وہ 2016 کی طرح اس بار بھی سوئنگ ریاستوں میں کامیابی حاصل کر کے الیکٹورل ووٹوں کے ذریعے پھر جیت جائیں گے۔ وہ ان فیصلہ کن سوئنگ ریاستوں کے حوالے سے پر امید ہیں جن میں پینسلوینیا، مشی گن اور وسکانسن شامل ہیں۔ انہوں نے 2016 کے انتخابات میں ان ریاستوں میں تھوڑے سے فرق سے جیت اپنے نام کی تھی۔

‘ڈیمو کریسی فنڈ ووٹر اسٹڈی گروپ’ کے تحقیق کے ڈائریکٹر رابرٹ گرفن کے مطابق قومی سطح کے مقابلے میں وسط مغربی ریاستوں میں صدر ٹرمپ انتے بھی پیچھے نہیں ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ٹرمپ کے لیے لازمی ہے کہ وہ پینسلوینیا اور فلوریڈا جن کے بالترتیب 20 اور 29 الیکٹورل ووٹ ہیں وہ وہاں کامیابی حاصل کریں۔

تجزیہ کار اماندہ آئووینو جن کا تعلق ‘ڈبلیو پی اے انٹیلی جنس’ نامی ادارے سے ہے کہتی ہیں کہ مذکورہ ریاستوں میں جیتے بغیر صدر ٹرمپ کے لیے فتح کا راستہ واضح نہیں ہے۔

پول میں بائیڈن سے پیچھے رہنے کے باوجود ٹرمپ اپنی مہم کے دوران جیت کے امکانات کے متعلق پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔

فلوریڈا میں انتخابی ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے بائیڈن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھل کر کہا کہ “کیا آپ اس شخص سے ہارنے کا تصور کر سکتے ہیں۔ کیا آ پ ایسا تصور کر سکتے ہیں؟”

ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ کے اس الیکشن میں جیتنے یا ہارنے کا تعلق اس بات پر ہے کہ ووٹر اہم ترین مسائل پر کیا سوچتے ہیں۔ ان معاملات میں کرونا وبا شامل ہے۔

بائیڈن نے صدر ٹرمپ پر اس مسئلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الیکشن صدر ٹرمپ کے اس بحران سے نمٹنے کے معاملے پر ایک ریفرنڈم ہے۔

ان مسائل میں دوسرا اہم معاملہ امریکی معیشت کی بحالی ہے۔ صدر ٹرمپ اس سلسلے میں محکمہ تجارت کے تازہ تریں اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے زیرِ صدارت جولائی اور ستمبر کے دوران امریکہ کی شرح نمو میں 33.1 فی صد کا اضافہ ہوا۔

ریاست فلوریڈا میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے لوگوں سے کہا کہ یہ اضافہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

بایئڈن کے مطابق یہ کارکردگی ناکافی ہے اور اس سے امریکہ کرونا وبا کے پیدا کردہ معاشی مسائل سے باہر نہیں آ سکتا۔

ان دو مسائل کے علاوہ نسلی تعصب کے حوالے سے انصاف کا حصول اور ووٹرز کو تین نومبر کے انتخابات سے پہلے آخری دنوں میں قائل کرنے کی کوششیں بھی اہم عوامل میں ہوں گی۔

اس الیکشن میں ووٹروں کی بڑی تعداد کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کے پیشِ نظر ‘ارلی ووٹنگ’ کی سہولت استعمال کر کے یا ڈاک کے ذریعہ بیلٹ بھیج کر ووٹ دینے کا حق استعمال کر چکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اب تک نو کروڑ ووٹرز انتخابات کے دن سےپہلےہی ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa