غداری کے الزام اور دہشت گردی کی دھمکی: چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر؟


غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتی اور ملک دشمنی کے الزامات عائد کرتی حکومت، اب اپنے ہی وزیروں کے متضاد اور بے مقصد بیانات کے چنگل میں پھنسی دکھائی دیتی ہے۔ ابھی سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری کی قومی اسمبلی میں تقریر کا معاملہ تھما نہیں تھا کہ گزشتہ روز وزیر داخلہ نے ننکانہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر ممکنہ دہشت گرد حملوں کا ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان  ’چوروں کو نہیں چھوڑوں گا‘  کا نعرہ لگاتے ہوئے گلگت پہنچے تو وہ آرمی چیف کی آڑ میں پناہ لیتے دکھائی دیے۔

اپوزیشن لیڈر ہوں یا حکومت کے نمائندے، بدنصیبی سے ان کے بیانات کو بھارت میں بہت دلچسپی اور غور سے سنا جاتا ہے۔ میڈیا کے علاوہ سیاست دان بھی ان کا مکمل فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ مزاج دونوں ملکوں میں یکساں ہے کیوں کہ پاکستان اور بھارت کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ اپنے لوگوں کی سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کا ماحول پیدا کیا اور اس نفرت کو اپنی سیاسی طاقت بنانے کی کوشش کی ہے۔ شاید اسی منفی سیاسی طرز عمل کا نتیجہ ہے کہ اس وقت دونوں ملکوں میں ایسی انتہا پسند حکومتیں موجود ہیں جو سیاسی ہمدردی کے لئے ہمسایہ ملک کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔ برصغیر کے دونوں بڑے ملکوں میں اس وقت اس نفرت انگیزی کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔

حال ہی میں یہ معاملہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ (ن) کے لیڈر ایاز صادق کے قومی اسمبلی میں ایک بیان سے شروع ہوا۔ چند روز پہلے ایک بیان میں انہوں نے فروری 2019 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فضائی جھڑپ کے نتیجہ میں گرفتار ہونے والے پائیلٹ ابھی نندن کی رہائی کے معاملہ پر تبصرہ کیا تھا۔ اس بیان کا مقصد تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان پر بھارت کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کا الزام لگا کر انہیں شرمندہ کرنا تھا۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ پارلیمانی لیڈروں کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم تو شریک نہیں ہوئے لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید موجود تھے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی کے پسینے چھوٹ رہے تھے اور انہوں نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ وہ ابھی نندن کی رہائی کا فیصلہ کرنے سے اتفاق کر لیں ورنہ بھارت آج رات 9 بجے حملہ کردے گا۔

بھارتی میڈیا نے اس بیان کو نریندر مودی حکومت کی کامیابی کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ دعوے کرنا شروع کیے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کو دھمکی دے کر ابھی نندن کو رہا کروایا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت حتیٰ کہ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے اس بھارتی پروپیگنڈا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور اسے بھارتی میڈیا کی سنسنی خیزی تک محدود رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ شبلی فراز کی سربراہی میں حکومتی ترجمانوں نے اس بیان کو ایاز صادق اور اپوزیشن جماعتوں کی ملک دشمنی سے محمول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن دراصل فوج کو آپس میں لڑانا چاہتی ہے۔ اور ایسے جھوٹے بیان ملک سے غداری کے مترادف ہیں۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر کو اپنے  ’دائرہ کار‘  سے باہر سمجھنے یا اس کے بارے میں محکمانہ ذرائع سے وضاحت کرنے کی بجائے ایک پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھا جسے ایک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل پریس کانفرنس کا نام دیا گیا۔ وہ ایک نکتہ قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر تھی، جس میں جنرل افتخار کے بقول حالات کی غلط تصویر سامنے آئی تھی۔ میجر جنرل بابر افتخار نے 26 فروری 2019 کو بھارت کے ساتھ ہونے والی فضائی جھڑپ کا تفصیل سے ذکر کر کے اس میں پاکستان کی شاندار کامیابی کو تاریخی واقعہ قرار دینے کے بعد بتایا کہ تقریر میں حالات کو درست انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔ اس وضاحت میں البتہ یہ بتانے کی زحمت نہیں کی گئی کہ پارلیمانی اجلاس میں بھارتی حملے کے اندیشے کے بارے میں وزیر خارجہ سے منسوب کیے گئے بیان کی کیا حقیقت تھی۔ کیا اس معاملہ میں بھی ایاز صادق کا تاثر سراسر غلط تھا؟

آئی ایس پی آر نے پارلیمنٹ میں ایک منتخب رکن کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں صورت حال کو پیچیدہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ پارلیمنٹ ملک کا سب سے با اختیار ادارہ ہے اور وہاں کی جانے والی باتوں یا فیصلوں کا فوج سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہو سکتا ۔ اور نہ ہی اس حوالے سے فوج کے ترجمان کو میڈیا میں بیان جاری کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ملک میں اس وقت اپوزیشن نے جو سیاسی مکالمہ شروع کیا ہے، اس کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ افواج پاکستان کو سیاست سے دور رہنا چاہیے اور اس حوالے سے ماضی میں ہونے والی غلطیوں کا تدارک ہونا چاہیے۔ آئی ایس پی آر کو اگر یہ محسوس ہوا تھا کہ پاک ایئرفورس نے 26 فروری کو بھارتی فضائیہ کا فائٹر مار گرا کر جو کامیابی حاصل کی تھی لیکن قومی اسمبلی میں اس پر مناسب طریقے سے روشنی نہیں ڈالی گئی یا بیان میں کوئی واقعاتی غلطی ہوئی تھی تو بھی اسے محکمہ وارانہ مواصلت میں تو بیان کیا جاسکتا تھا لیکن ایک سیاسی لیڈر کے بیان پر خصوصی پریس کانفرنس صریحاً سیاسی عمل ہے۔ فوجی ترجمان کو اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ایاز صادق کے بیان پر تبصرہ میں معلومات کی غلط ترسیل کی بات تو کی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ابھی نندن کی رہائی کے لئے پاکستان پر دباؤ کے بارے جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان میں کس حد تک صداقت ہے۔ اسی طرح حکومت کے ترجمانوں نے غداری اور ملک دشمنی کا شور مچا کر بیان بازی کا طوفان تو برپا کیا ہے لیکن اس نکتہ کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کیا شاہ محمود قریشی نے ممکنہ بھارتی حملے کو ٹالنے کے لئے ابھی نندن کی رہائی کی تجویز پیش کی تھی؟ اور کیا حکومت کے پاس اس وقت بھارتی جارحیت سے بچنے کا یہی واحد طریقہ تھا؟

جس بھارتی میڈیا پروپیگنڈے کا ذکر کر کے پاکستانی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسی کا تقاضا ہے کہ حکومت فروری 2019 میں ابھی نندن کی رہائی کے وقت موجود صورت حال کے بارے میں حقائق سامنے لاتی۔ ایک فضائی جھڑپ کے بعد خیرسگالی کے طور پر جنگی قیدی بنائے گئے پائیلٹ کی رہائی ایک مثبت اور قابل تعریف اقدام ہے۔ پاکستانی حکومت کو اس پر فخر کرنا چاہیے۔ تاہم اس پہلو کی وضاحت اہم ہے کہ یہ فیصلہ کسی دباؤ میں نہیں کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے یہ وضاحت دو ٹوک انداز میں سامنے آنی چاہیے تھی۔

اس کی بجائے آئی ایس پی آر کے بیان کی آڑ میں سیاسی دھول اڑانے سے کوئی قومی مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اب وزارت خارجہ، فواد چوہدری کے زیادہ خطرناک اور افسوسناک بیان کی وضاحت کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ اس سے حکومت کو اندازہ کرنا چاہیے کہ سیاسی مقاصد کے لئے اسمبلی اور اس سے باہر دیے گئے بیانات سے نہ صرف حکومت بلکہ ریاست کی پوزیشن بھی کمزور ہوتی ہے۔ فواد چوہدری نے ایاز صادق کے بیان کو رد کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں جو خطاب کیا تھا اس میں جذبات کی رو میں وہ پلوامہ میں ہونے والی دہشت گردی کو  ’ہم نے انڈیا میں گھس کر مارا‘  جیسے غیر ذمہ دارانہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور اس کا کریڈٹ عمران خان اور ان کی حکومت کو دیتے سنائی دیتے ہیں۔ اگرچہ منجھے ہوئے سیاست دان کی حیثیت سے انہیں خود ہی اپنے بیان کی غلطی کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اسی لئے بعد کے فقروں میں وہ اپنے بیان کو فضائی جھڑپ سے جوڑنے کی کوشش کرتے بھی سنے جا سکتے ہیں۔

دوسری طرف یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 26 فروری کو ہونے والی فضائی جھڑپ کے بارے میں یہ بتایا گیا تھا کہ بھارتی فائٹرز نے پاکستان پر حملہ کیا تھا۔ پاک فضائیہ نے اس کا بھرپور جواب دیا اور دو بھارتی طیارے مار گرائے جن میں سے ایک آزاد کشمیر کے علاقے میں گرا تھا۔ اس موقف سے بھی  ’انڈیا میں گھس کر مارنے‘  کے دعوے کی تصدیق نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم کو نوٹ کرنا چاہیے کہ داخلی سیاسی چپقلش میں جب دشمن ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو موضوع بنانے کی کوشش کی جائے گی تو غلطی بھی ہوگی اور اس کا بوجھ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ فواد چوہدری کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ اس کے باوجود وفاقی وزرا اپنی بیان بازی میں اپوزیشن کو ہی دشمن کا ایجنٹ ثابت کرنے میں زور بیان صرف کر رہے ہیں۔

وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا تازہ بیان اس غیر ذمہ داری کا ایک نیا نمونہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈروں نے دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا تھا جس کی وجہ سے تحریک طالبان پاکستان نے ان کے لیڈروں پر حملے کیے اور ان کے کئی لیڈر مارے گئے۔ اسی سانس میں انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے تازہ بیانات بھی اسی قسم کے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیڈروں پر بھی ایسے ہی حملے ہوسکتے ہیں۔ اس بیان میں ملک کا وزیر داخلہ یہ بتا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف بیان دینے کی پاداش میں دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیا وفاقی وزیر داخلہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کی سرکاری سرپرستی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے؟ یہ موقف اور طرز بیان حکومت کے متفقہ سرکاری بیانیہ سے متصادم ہے۔

آج دورہ گلگت بلتستان کے دوران وزیر اعظم نے بظاہر آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کی حمایت میں یہ کہا ہے کہ ان پر نواز شریف کی نکتہ چینی سے یہ واضح ہوتا ہے کہ میرا یہ انتخاب درست تھا۔ کیا عمران خان کے بیان سے یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ نواز شریف کے اس دعویٰ کی تائید کر رہے ہیں کہ جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے اور 2018 میں تحریک انصاف کے لئے راہ ہموار کی تھی؟

عمران خان اگر کچھ اور کرنے کی صلاحیت نہیں بھی رکھتے تو کم از کم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہ غور تو کر سکتے ہیں کہ کون سے بیان خود انہی کے راستے میں کانٹے بچھانے کا سبب بنیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali