میرا پیغمبرﷺ عظیم تر ہے


کچھ عرصہ پہلے مستنصر حسین تارڑ کا ایک سفرنامہ ”غار حرا میں ایک رات“ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ویسے تو پورا سفرنامہ ہی عشق رسولﷺ میں ڈوبا ہوا ہے مگر کچھ پیراگراف پڑھ کر پڑھنے والے پر ایک عجیب سی روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ تارڑ صاحب لکھتے ہیں کہ غار حرا کے اندر بیٹھ کر نجانے ان کے من میں کیا سمائی۔ انہوں نے اپنی قمیض کی جیب سے ایک پین نکالا اور ایک بے خودی کے عالم میں وہ یہ پین غار میں موجود ایک پتھر کے ساتھ رگڑنے لگے۔

انہیں یقین تھا کہ ٹھیک اسی جگہ پر حضورﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی ہو گی۔ قلم کو ان پتھروں، ویواروں کے ساتھ رگڑنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ ان کے قلم میں بھی عشق محمدﷺ کا رنگ شامل ہو جائے۔ تارڑ صاحب تو بہت خوش قسمت لکھاری ہیں کہ انہیں یہ موقع ملا کہ نہ صرف وہ غار حرا میں کچھ وقت گزار سکیں بلکہ اپنے قلم کو بھی ان پاک پتھروں کے ساتھ رگڑ کر امر کر سکیں مگر میرے پاس تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے نہ ایسا کوئی قلم اور نہ الفاظ کا وسیع ذخیرہ جن کو پاس بٹھا کر میں ان کے اندر ذکر محمدﷺ کی مہک اتار سکوں۔

میرے لفظ میرے اندر ہی دبے رہتے۔ لیکن فرانس میں ہونے والے حالیہ گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے اعلانات کے بعد میرے لفظوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ میرے وجود کے ساتھ میرے لفظ بھی تکلیف میں ہیں۔ میں محسن انسانیت ﷺ کی محبت کے حصار میں ہوں۔ محبت رسولﷺ کے رنگوں میں رنگ کے اپنے نبی ﷺ کے لئے کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں۔ کچھ ایسا جو عشق رسول ﷺ میں ڈوبا ہوا ہو۔ اپنے تخیل کے آسمان پر محو پرواز، چند ہی لمحوں میں میں ایک حسین منظر کے سائے میں جا کر بیٹھ گئی ہوں۔

صحن حرم میں صحابہ کرام ؓ کی محفل میں محبوب خدا ﷺ مسکراتے ہوئے صحابہ کرام ؓ کے سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔ میں بھی ایک کونے میں بیٹھ کر آقاﷺ کی شان میں کچھ اشعار کہتی ہوں۔ میرا وجود خوشبو محمدﷺ سے مہک سا جاتا ہے۔ ایسے ہی حسین خیالات کے تانے بانے بنتے مجھے سر سید احمد خان کا ایک خط بہت یاد آ رہا ہے جو انہوں نے اپنے دوست نواب محسن الملک کو لکھا تھا۔ ان دنوں سر سید ایک انگریز ولیم میور کی وجہ سے بہت رنجیدہ تھے۔

ولیم میور نے لائف آف محمد کے نام سے ایک گستاخانہ کتاب لکھی تھی۔ سر سید نے اپنے خط میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ آپ نے ولیم میور کی کتاب کے جواب میں ایک کتاب لکھنے کا اعلان کیا تھا۔ بقول سر سید اس کتاب کو لکھنے اور شائع کروانے تک اگر ان کے پاس ایک روپیہ بھی نہ بچا اور وہ فقیر ہو گئے تب بھی وہ یہ کتاب ضرور لکھیں گے تاکہ میدان حشر میں انہیں نبی ﷺ کا فقیر کہہ کر پکارا جائے۔

دیکھا جائے تو توہین رسالت کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں ایسے شیطان سامنے آتے رہتے ہیں جو ایسے شیطانی افعال کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت جلد اپنے انجام کو بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے نبی ﷺ کی شان بہت بلند ہے۔ یہ محض چند جانوروں کے اندر کی گندگی ہے جو ان کے منہ پر پڑتی ہے۔ پہلے زمانوں میں تو یہ گستاخ انفردی طور پر ایسی حرکتیں کرتے تھے مگر اب مغربی حکومتیں بھی ان کے ساتھ مل گئیں ہیں۔ ذہنی بیمار یہ لوگ میرے رب کے حکم سے بہت جلد جہنم واصل ہوں گے۔ گنہگار سے گنہگار شخص آقاﷺ کی ناموس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔

فرانس کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ اور ایمبیسی کے باہر احتجاج تو ہمیں کرنا ہی ہے مگر اس کے علاوہ بھی کچھ کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ سیرت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مگر ابھی بھی بہت کچھ لکھنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا ہمارا ہتھیار ہے۔ وہ ہمارے نبی ﷺ کو لے کر گستاخانہ خاکے بناتے ہیں تو کیوں نہ ہم آقاﷺ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرنے والی فلمیں بنائیں اور بین الاقوامی سطح پر ریلیز کریں۔ پوری دنیا میں اس وقت مختصر دورانئے کی فلموں کا ایک دور چل رہا ہے کیوں نہ ہم بھی اپنے نبی ﷺ کی سیرت کے چند واقعات کو لے کر مختصر دورانئے کی فلمیں بنائیں اور ساری دنیا کو بتا دیں کہ ہمارا پیمبر عظیم تر ہے۔ بائیکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ کتے خود ہی بھونک بھونک کر خاموش ہو جائیں گے۔ آخر میں حسن نثار کی نعت کے دو اشعار جو ہمیشہ مجھے اپنے دل کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔

میں بھی ہوتا تیرا غلام کوئی
لاکھ کہتا نہ میں رہا ہوتا
سوچتا ہوں تب جنم لیا ہوتا
جانے پھر کیا سے کیا ہوا ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).