انکل میرے بابا مر گئے ہیں


یہ پرویز مشرف کے اقتدار کا قصہ ہے میں کراچی موجود تھا۔ اپنے ایک دوست کے گھر پہنچا کے اس کو ہمراہ لے جانا تھا وقت طے تھا مگر انتظار کرنا پڑا میرا دوست وقت کا پابند تھا مگر دیر کر رہا تھا۔ سامنے آیا تو دیر کی سمجھ بھی آ گئی۔ اس کی گردن میں اس کا کوئی پونے سات برس کا بیٹا لٹکا تھا جو باپ سے بضد تھا کہ میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔ یار میں کام سے جا رہا ہوں آپ کو ساتھ لے کر کیسے جاؤں۔ نہیں میں جاؤں گا باپ کی گردن اس نے مزید بھینچ لی۔

اچھا جب میں آفس میں کام سے چلا جاؤں گا تو آپ کہاں بیٹھوں گے؟ آپ کے ساتھ میں آفس چلا جاؤں گا پٹ پٹ کرتی زبان سے جواب حاضر تھا۔ اچھا چلیں میں انکل کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا ان سے کہانی سن لوں گا۔ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ ننھا فرشتہ بولا، باپ کی گردن سے اپنے سر کو ذرا پیچھے سرکاتے ہوئے مجھے آنکھ ماری اور اشارے سے ہاں میں ہاں ملانے کا اشارہ کیا میری ہنسی نکل گئی۔ اپنے دوست سے میں مخاطب ہوا کہ یار اپنے تیسرے دوست کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔

اب تو انکل بھی مان گئے یار آپ بھی مان جاؤ تھوڑی پر ہاتھ رکھے وہ اپنے باپ سے ضد پر اڑا ہوا تھا۔ اچھا میرے باپ آ ساتھ چل، پھر میرا دوست مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا یار ہے میرا یار، بچپن سے ہی سوتا تک میرے پاس ہے۔ اب تو میرا بھی یار ہے بچے نے خوشی سے میرا بھی ہاتھ پکڑ لیا۔ آپ کو کہانیاں آتی ہیں؟ ہاں کوئی ایک دو تو آتی ہوگی۔ بس اتنی کم مجھے تو بابا روز نئی کہانی سناتے ہے چلے آپ بھی ان سے یاد کر لینا پر جو ابھی یاد ہے وہ مجھے سنا دے۔

واپسی پر میں نے گاڑی ایک کھلونوں کی دکان پر رکوا دی۔ کیوں یار میرا دوست مجھ سے مخاطب ہوا۔ آؤ تو سہی، پر تم نے کھلونوں کی دکان سے کیا خریدنا ہے؟ اپنے دوست کے لئے خریدنا ہے، اوہ چھوڑو یار تکلف مت کرو، تکلف کیسا دوست بن گیا ہے میرا پکا دوست کیوں بن گئے ہو نہ میرے پکے دوست؟ ہاں بن تو گیا ہوں پر بابا کہتے ہے کسی سے کوئی چیز نہیں لیتے۔ اب ہم کھلونوں کی دکان میں داخل ہو چکے تھے۔ یار کوئی کھلونا پسند کرلو اس نے پیچھے ہٹتے ہوئے انکار میں سر ہلایا مگر ہاتھ کے اشارے سے ایک ہیلی کاپٹر کی طرف اشارہ کر دیا۔

بھائی یہ ہیلی کاپٹر دے دو۔ میرا دوست سمجھ گیا کہ اس نے اشارہ کیا ہے۔ بہت چالاک ہو انکل کو اشارہ کیا ہے۔ وہ تین بار زور سے بولا نہیں نہیں نہیں اور ہنستے ہوئے اپنے باپ سے لپٹ گیا ہم دونوں بھی ہنسنے لگے۔ میں لاہور واپس چلا گیا۔ کراچی میں ان دنوں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ میرے دوست کی تصویر سامنے آ گئی وہ دہشت گردی کا شکار بن چکا تھا۔ فوری طور پر جنازے میں تو کراچی نہ جا سکا مگر کوئی دو ہفتے بعد کراچی جانا ہوا تو سیدھا اپنے مقتول دوست کے گھر تعزیت کے لیے جا پہنچا ابھی بیٹھا ہی تھا تو اس کا بیٹا آ گیا۔

سہما سہما پریشان گھبرایا ہوا جس کے سامنے سب کچھ ہوا ہو مگر اس کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ چند لمحے مجھے دیکھتا رہا پھر بولا انکل آپ بابا سے ملنے آئے ہے؟ انکل میرے بابا مر گئے ہیں۔ ان کو کسی نے مار دیا ہے انکل آپ تو میرے بابا کے دوست ہیں نا؟ کیا میرے بابا گندے آدمی تھے؟ نہیں نا۔ وہ تو کسی سے لڑتے بھی نہیں تھے۔ یاد ہے اس دن ٹریفک پولیس انکل نے ہماری گاڑی دوسری جگہ کھڑی کرا دی تھی۔ بابا نے بالکل بھی لڑائی نہیں کی تھی۔ پھر کسی نے میرے بابا کو کیوں مار دیا؟

معصوم ذہن میں پلنے والے سوال زبان پر جاری تھے۔ اچانک وہ مڑا اور ڈرائینگ روم سے چلا گیا لمحوں بعد واپسی ہوئی تو اس کے ہاتھ میں اس دن والا ہیلی کاپٹر تھا۔ انکل آپ یہ واپس لے لیں۔ کیوں بیٹا؟ انکل یہ خراب ہو گیا ہے اس نے باہر نکلی ہوئی ایک تار کی طرف اشارہ کیا۔ اس دن بابا نے کہا تھا کہ واپس آ کر ٹھیک کر دوں گا اب بابا تو مر گئے ہے نا، ٹھیک کون کرے گا؟ اور اب ہم ماموں کے گھر رہیں گے وہاں یہ اڑ کر کسی اور انکل کے گھر چلا گیا تو وہ انکل میری پٹائی کر دیں گے کہ ہمارے گھر کیوں آیا مجھے اب پٹائی سے کون بچائے گا؟ میرے بابا تو مجھے ماما کی پٹائی سے بھی بچا لیتے تھے پر اب وہ مر گئے ہے پھر مجھے اب کھیلنا بھی نہیں۔

کیوں نہیں کھیلنا آپ کو؟ مجھے اپنی ماما اور چھوٹی بہن کا خیال جو رکھنا ہے۔ میری بہن تو بس اسی گڑیا سے کھیلتی رہتی ہے جو بابا نے اسے دلائی تھی کے بابا اس کے لیے گڈا بھی لا کر دیں گے اسے نہیں پتہ کہ بابا مر گئے ہیں وہ سمجھتی ہے کہ لاہور گئے ہیں اس کے لئے گڈا لینے۔ پھر ماما بھی ہر وقت روتی رہتی ہے میں نے ماما کو بتایا بھی ہے کہ بابا مجھے شیر کہتے تھے اور میں اب بڑا بھی ہو گیا ہوں پر ماما پھر اور رونے لگتی ہے۔

یہ سب کچھ دوبارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا جب پشاور دھماکے کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی، ایک معصوم بچہ جس کی تھوڑی پر پٹی، چہرے پر خون کے دھبوں کے نشان، آنکھوں میں آنسو۔ ہم اپنے بچوں کی ذہنی نشو و نما یہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے باپ کو مقتول دیکھتے ہیں یا خود دھماکے کا نشانہ بن جاتے ہیں چلو یہ سب کرنے والے تو یزیدیت کے پیروکار ہیں مگر اس سب کو روکنے کے ذمہ دار، ہم نے تسلیم کر لیا کہ آپ نمبر ون ہے، دنیا آپ سے کانپتی ہے، وائٹ ہاؤس میں آپ کے پر کترنے کے منصوبے بنتے ہیں۔ سب مان لیا۔ اب آپ بھی حقیقی معنوں میں ذمہ داری ادا کرے اپنے بچوں کو سامنے لے کر بیٹھ جائے اور۔ فیصلہ سازی کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).