عمران خان، الماس بوبی اور مولانا طارق جمیل: روپ بہروپ کا کرشمہ


ہنڈسم وزیراعظم عمران خان کے ماضی پر جانا ضروری نہیں ہے۔ سیاست ہر شہری کا حق ہے عمران خان نے بھی کرکٹ کے بعد اپنا حق سمجھتے ہوئے سیاست شروع کر دی۔ بعض کہتے ہیں کہ انہیں سیاست میں لایا گیا ہے۔ یہ بھی مان لیا جائے تو اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بقول بانی پاکستان کہ ہم اک تجربہ گاہ چاہتے ہیں۔ عمران خان کو لانے کا تجربہ کیا گیا ہے۔ تجربہ کیسا رہا ہے۔ سب کے سامنے ہیں۔ موضوع سخن عمران خان کا سیاست میں آنا نہیں ہے۔ بہروپ بھرنا اصل موضوع ہے۔ لوگ مفادات کے لئے کس طرح اپنی شناخت کے برعکس بہروپ بھر لیتے ہیں۔

عمران خان جب سیاست میں آئے تو لاہور میں عمران خان کے حوالے سے جو پہلا سیاسی پوسٹر دیواروں پرنظر آیا اس میں عمران خان کو قائد اعظم ثانی کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت نے عمران خان میں قائداعظم کو تلاش ضرور کیا ہے۔

جس طرح اب الماس بوبی اذانیں دینے لگے ہیں۔ الماس بوبی خواجہ سرا ہیں۔ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لئے بھی سرگرم رہے ہیں۔ مگر آج کل شاہ جی کے نئے روپ میں مذہبی دکان چمکانے کی سعی میں لگے ہیں۔ مردانہ کپڑوں میں اجنبیت نمایاں ہے۔ بھیس بدل کر اب اللہ اللہ کرنے کی پریکٹس کی جا رہی ہے۔ مولانا طارق جمیل نے بھی عجب اختراع کر رکھی ہے کہ اللہ کو یاد کرنے کے لئے بھیس بدلنا ضروری ہے۔ الماس بوبی کی زندگی تو نہیں بدل سکے مگر کپڑے ضرور تبدیل کرا دیے ہیں۔ جس سے الماس بوبی کی پہلے والی حیثیت تو ختم ہوئی ہے۔ ساتھ کئی خواجہ سراؤں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ جن کو کم از کم چھت میسر تھی۔ روٹی مل جاتی تھی۔ کسی مشکل میں ہوتے تو الماس بوبی بطور گرو پہنچ جاتے تھے۔ اب وہ سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔

عمران خان نے بھی پنیترا بدلا یا پھر الماس بوبی کی طرح جون تبدیل کی گئی کہ اگر وزیراعظم بننا ہے تو یہ روپ دھارنا پڑے گا۔ ایک سے بڑھ کر ایک روحانی شخصیت کی خصوصی شفقت پہلے سے دستیاب تھی۔ دنیا جانتی ہے کہ عمران خان کی حقیقی شناخت کیا ہے۔ مگر انہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا سہارا لیا۔ قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ قائداعظم ثانی مولانا طارق جمیل کی کاربن کاپی بن گیا ہے۔ عوام کی امیدیں، خواب ٹوٹ گئے ہیں۔ نیا پاکستان، ریاست مدینہ، چین کا نظام، ایرانی انقلاب سمیت شروع شروع میں موصوف مہاتیر محمد کو آئیڈیلائز کیا کرتے تھے۔ مگرعملی طور صرف بھاشن پر اکتفا کر رہے ہیں۔

عمران خان جب اپنے حقیقی روپ میں جلوہ نما تھے تو سماجی کاموں میں مصروف تھے۔ نمل جیسی درسگاہ اور کینسر کا ہسپتال بنائے۔ قدرتی آفات میں متاثرین کی مدد کیا کرتے تھے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتے تھے (حضور باقی باتیں درست ہو سکتی ہیں لیکن محترم عمران خان پر انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے کی تہمت لگاتے ہوئے خدا کا خوف کھائیں۔ عمران خان نے کبھی انسانی حقوق کی بات سمجھی اور نہ کی۔ وجہ یہ کہ ان کے اتالیق از قسم مجیب الرحمن، حمید گل، ہارون رشید، رفیق اختر اور شجاع پاشا وغیرہ کو انسانی حقوق سے اصولی اور معاشی اختلاف رہا۔ گر ہمیں مکتب است و این ملا۔۔۔۔ مدیر

روپ بہروپ کی اس گول منڈی کا حصہ بننے کے بعد عمران خان زندہ انسانوں کو قبر میں سکون کی نوید سنا رہے ہیں۔ بطور وزیراعظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لب کشائی نہیں کرتے ہیں۔ روحانیت اور مذہب اختیار کرنے کا کیا یہ مطلب ہے کہ انسانی بھلائی اور عوامی حقوق جیسے کاموں سے توبہ کرلی جائے اور لوگوں کو صرف تبلیغ کی جائے۔

پاکستان کے عوام نے وزارت عظمیٰ کا مینڈیٹ تبلیغ کے لئے ہرگز نہیں دیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب! مولانا طارق جمیل بہت پیارے ہیں مگر 22 کروڑ عوام کی امیدوں، خواہشات اور بنیادی ضروریات سے بڑھ کر نہیں ہے۔ عوام بھی منتظر ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے مکین کی باہیں ان کے لئے بھی اتنی ہی وا ہوں جس طرح سے مولانا طارق جمیل کے لئے ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).