کافی ہاؤس آف لاہور: ایک خود نوشت 1942 ۔ 1957


Khurshid Kamal Aziz (K. K. Aziz)

مدت ہوئی, خدائے سخن میر نے کانپتے ہاتھوں سے لکھا ”زمانہ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہا، اب اس سے دامن کھینچ لینا ہی اچھا ہے“۔ اور دھندلی آنکھوں سے دہلی کی اجڑی گلیوں میں ماضی کی حسین یادیں ڈھونڈتے رخصت ہوئے۔ زمانہ گزرا, دہلی آباد ہونے کے بعد پھر اجڑی، قیامت کے ہنگامے میں میاں نوشہ نے دل گم گشتہ کو بار بار یاد کیا۔ تقسیم کے ہنگاموں میں امروہہ کی تہذیب کو اجڑتے دیکھنے والے جون ایلیا نے ہمیشہ دل محلے کی ویران حویلی کی گرد چہرے پر محسوس کی۔ خورشید کمال شاعر نہیں، تاریخ دان تھے، ساری عمر تاریخ کی بھول بھلیوں میں حقائق کی کھوج میں جذبات کو کبھی خود پر حاوی نہ ہونے دیا۔ مگر آخری عمر میں قلم اٹھایا تو ہر اہل دل کی طرح گہرے احساس زیاں کو ہی لفظوں کا جامہ پہنایا۔

برسات کی شام کتاب کھولی تو یک دم کمرے کے خالی پن میں اضافہ ہو گیا، ایک عجیب سی اداسی تھی جو لفظوں، جملوں اور صفحوں سے اٹھ کر دل پر طاری ہونے لگی۔ دل پہ گرتی بارش کی بوندوں کی مہک کے ساتھ پچاس کی دہائی کا لاہور اور اس کی رونق کافی ہاؤس کے مناظر کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کی طرح چلنے لگے۔ محض تین لاکھ کی آبادی کا ایک پرسکون لاہور جس کے گھروں، گلیوں، محلوں، اور بازاروں میں تہذیب دھڑک رہی تھی۔ سر شام علم و ادب کے متوالے نفیس ملبوسات میں کافی ہاؤسسز اور چائے خانوں کا رخ کرتے۔

رات گئے تک شاعری، ادب، فلسفہ، معاشرت اور سیاست سمیت ہر موضوع پر گفتگو ہوتی۔ نہ کچھ کہنے والوں کی کمی تھی اور نہ ہی سننے والوں کی۔ مکالمہ بھی ہوتا اور مباحثہ بھی، لیکن باہمی احترام اور شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹتا۔ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ کتابیں پڑھنے اور خواب دیکھنے والے تھے۔ ان کی باتوں میں نئے خیال کی مہک ہوتی۔ وہ ایسے معاشرے کا خواب دیکھتے جو غربت اور نا انصافی سے پاک ہو۔ انھیں یقین تھا وہ نہیں تو ان کے بچے ان کے خوابوں کی تعبیر ضرور دیکھیں گے۔

اچانک کافی ہاؤس کسی گرد آلود میوزیم میں بدلا جہاں چاروں طرف اداس لوگوں کی تصویریں لٹکی تھیں۔ ان میں ظہیر کشمیری، یوسف ظفر، ناصر کاظمی، حبیب جالب، ریاض قادر، محمد دین تاثیر، اے ایس بخاری، چراغ حسن حسرت، سید عابد علی عابد، ڈاکٹر فضل الرحمن، ڈاکٹر عبدالسلام، الطاف گوہر، عاشق حسین بٹالوی، اور ساحر لدھیانوی سمیت بہت سے باکمال لوگ شامل ہیں۔ ایک کونے میں بییٹھے بوڑھے پینٹر میں کے کے عزیز کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

وہ اپنے کانپتے ہاتھوں سے ایک ایک پینٹنگ پر سے گرد ہٹانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ وہ خود کلامی کے انداز میں ایک ایک پینٹنگ کی شخصیت کی داستان سناتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہر پینٹنگ میں اس کے اپنے دکھوں اور اپن ناکامیوں کا بھی عکس ہے۔ وہ کہتا ہے میں نے یہ پینٹنگز اس لیے بنائیں کہ اداس نسلوں کے ان خوبصورت لوگوں کی کہانی سناسکوں۔

میں اپنے کمرے میں واپس لوٹ آیا، بارش کے بعد کی گھٹن ہر احساس پر حاوی ہو رہی تھی۔ میں کتاب بند کر کے باہر نکل آیا۔ گھپ اندھیرے میں بارش سے بھیگی سڑک پر چلتے عجیب سے خالی پن نے گھیرے میں لے لیا۔ ایسا لگا زندگی میں ہر چیز بے معنی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).