لائیکا: ’خودکش‘ خلائی مشن پر جانے والی کتیا، انسان کے خلائی سفر کے باب کی ایک اہم کردار


 

لائیکا

انسان کا خلا میں سفر کرنے کا خواب اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسانی تہذیب۔ اس سفر میں معاونت کرنے والے راکٹ کی تیاری کا آغاز 347 سے 428 قبل مسیح میں ہوا جب ایک مصری فلسفی اور ماہرِ فلکیات آر کی طاس نے پہلی دفعہ ایک ایسی مشین تیار کی جس سے ہوا میں اڑا جا سکتا تھا۔

صدیوں کے انسانی ارتقا کے ساتھ راکٹس کا ارتقا بھی جاری رہا اور خلا کے سفر کو پہلی دفعہ باقاعدہ ممکنات کے طور پر رابرٹ ایچ گوڈارڈ نے پیش کیا۔ اگرچہ گوڈارڈ کو اپنے قوانین اور تحقیق پر ساری زندگی لعن طعن کا سامنا رہا مگر اس حقیقت کا آج ساری دنیا اعتراف کرتی ہے کہ یہ رابرٹ گوڈارڈ ہی تھے جن کی مائع ایندھن پر تحقیق کی بدولت خلا کا سفر ممکن ہوا۔

گوڈارڈ کی وفات کے اگلے 20 برس میں امریکہ اور روس میں راکٹس کی تیاری اور خلائی سفر پر بہت تیزی سے پیش رفت ہوئی۔ اگرچہ امریکہ تکنیکی لحاظ سے روس سے بہت آگے تھا مگر ابتدا روس کی جانب سے سپتنک خلائی پروگرام کی صورت میں ہوئی۔

تین خلائی مشنز پر مشتمل اس سیریز کا آغاز چار اکتوبر 1957 کو سپوتنک ون کے ساتھ ہوا۔ یہ مصنوعی سیارچہ (آرٹیفیشل سٹیلائٹ) 940 کلومیٹر اپوجی اور 230 کلومیٹر پیریجی تک پہنچا۔

واضح رہے کہ اپوجی زمین سے خلا میں دور ترین مقام اور پیریجی نزدیک ترین مقام کو کہا جاتا ہے۔ اس کے ایک ماہ بعد سپوتنک ٹو خلائی جہاز خلا میں بھیجا گیا جو اپنی نوعیت کا انوکھا مشن تھا۔

روس اور امریکہ پہلا انسان بردار خلائی مشن خلا میں بھیجنے اورایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے مگر اس دور میں سائنسدان اور فزیشن لاعلم تھے کہ خلا میں انسانی صحت پر کیسے مضر اثرات مرتب ہوں گے اور کیا خلاباز کی زندہ واپسی ممکن ہو گی؟

تین نومبر 1957 کو ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے روس نے سپوتنک ٹو خلائی گاڑی کے ساتھ ایک کتے کو پہلی دفعہ زمین کے گرد مدار میں بھیجا جس کا نام ’لائیکا‘ تھا۔ آئیے اس بہادر اور حیران کن جانور کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جو انسانی خلائی سفر کے باب کا اہم کردار ہے۔

لائیکا

ایک کتے کا انتخاب کیوں کیا گیا؟

سپوتنک ٹو ڈیزائن کرنے والے انجینیئرز کے مطابق مشن کو مناسب تحقیق کے بغیر سپوتنک ون سے حاصل ہونے والی معلومات اور ڈیٹا کے ساتھ کافی جلدی میں لانچ کیا گیا تاکہ سات نومبر 1957 کو روس کے عظیم باشیوک انقلاب کی 40 ویں سالگرہ مشن کی کامیابی کے ساتھ دھوم دھام سے منائی جا سکے۔

اگرچہ لائیکا خلا میں بھیجا جانے والا پہلا جانور نہیں تھا اس سے پہلے ایک درجن سے زائد کتے خلا میں بھیجے گئے تھے مگر ان کی پہنچ زمین کے مدار کے اندر (سب آربیٹل) تھی۔ ماہرینِ حیوانات نے بندر یا بلی کے انتخاب کا بھی مشورہ دیا تھا مگر روسی سائنسدانوں نے ان پر کتوں کو ترجیح دی۔

اُن کا خیال تھا کہ اِنھیں خلائی سفر کی تربیت بہتر انداز میں دی جا سکتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد انجینیئرز نے انتہائی تیزی کے ساتھ کام کرتے ہوئے سپوتنک ٹو خلائی گاڑی میں زیادہ دباؤ والا ایک خاص خانہ (کمپارٹمنٹ) تیار کیا۔

لائیکا کا انتخاب کیسے ہوا؟

روسی خلائی ادارے کے ماہرین نے سپوتنک ٹو کے لیے پالتو جانور کی بجائے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے کتوں کی تلاش شروع کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جانور زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور سختیوں کو جھیلنے کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔

اس تلاش میں نر پر مادہ کتوں کو ترجیح دی گئی کیونکہ یہ ناصرف جسامت میں چھوٹی ہوتی ہیں بلکہ انھیں باآسانی تربیت دی جا سکتی ہے۔ دس آوارہ گرد کتوں کو کئی ہفتوں کو زیادہ دباؤ والے چھوٹے خانوں یا کیپسول میں رکھا گیا جہاں ان کا دن میں کئی بار طبی معائنہ کیا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی بلند دباؤ اور شور پر ان کتوں کا ردِ عمل بھی نوٹ کیا جاتا جس کے لیے ان کے پیٹ اور ٹانگوں کے درمیان حساس آلات نصب کیے گئے تھے۔

کئی ہفتوں کے تجزیے کے بعد ان میں سے دو کتوں ’کدریاوکا‘ اور ’سفید البینا‘ کا انتخاب کیا گیا۔ جنھیں باقاعدہ روسی ریڈیو پر متعارف بھی کروایا گیا۔ چونکہ روسی زبان میں بھونکنے کو لائیکا کہا جاتا ہے اسی مناسبت سے کدریاوکا کا نام ’لائیکا‘ رکھ دیا گیا۔ اگرچہ البینا نے لائیکا سے زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اس نے کچھ عرصے پہلے ہی بچوں کو جنم دیا تھا لہٰذا خلائی سائنسدانوں نے تین سالہ لائیکا کا انتخاب کیا۔

لائیکا

لائیکا کی تربیت اور لانچ سے پہلے کے مراحل کیا تھے؟

سوویت ڈاکٹر اس امر سے واقف تھے کہ بے زبان جانور کے لیے یہ ایک خود کش مشن ہے۔ اگر لائیکا مدار میں گردش کے دوران زندہ بچ بھی گئی تو واپسی کے سفر میں زمین کی فضا کی حرارت اسے جلا کر خاکستر کر دے گی مگر رسک لینا مستقبل کی ضرورت تھی۔ لانچ سے تین دن پہلے لائیکا کو ایک تنگ چیمبر میں رکھا گیا جہاں صرف چند انچ کی حرکت ممکن تھی۔

اسے ایک خصوصی تیار کردہ سپیس سوٹ پہنایا گیا جس میں سینسرز نصب تھے۔ انٹر نیشنل خلائی پروگرام اور سپیس سوٹس کی نگران کھیترین لیوس نے چند سالوں بعد بتایا کہ خلائی گاڑی میں لائیکا کے لیے خوراک انتہائی کم رکھی گئی تھی حالانکہ چند اونس خوراک سے وزن میں زیادہ فرق نہیں پڑنا تھا۔

اسی لیے ٹیم میں شامل ایک خاتون ڈاکٹر نے پروٹوکول توڑتے ہوئے لانچ سے کچھ دیر قبل لائیکا کو تھوڑی خوراک دی تھی۔

لانچ کے بعد لائیکا کے ساتھ کیا ہوا؟

سپوتنک ٹو خلائی گاڑی میں ایسے آلات نصب تھے جن سے لائیکا کی دل کی دھڑکن اور حرکات براہ راست نوٹ کی جا سکتی تھیں۔ ابتدائی چند منٹ میں ہی انتہائی دباؤ اور شور کے باعث لائیکا کے دل کی دھڑکن معمول سے تین گنا اور اس کی سانس کی رفتار چار گنا بڑھ چکی تھی۔

اس کے باوجود یہ بہادر جانور دو ہزار میل کے فاصلے پر زمین کے مدار تک زندہ پہنچنے میں کامیاب رہی اور تقریباً 103 منٹ تک خلائی گاڑی کے ساتھ زمین کے گرد محو گردش بھی رہی۔

سنہ 1993 میں اس مشن کے ایک میڈیکل ڈاکٹر اور ڈاگ ٹرینر اولیگ گیزینکو نے انکشاف کیا کہ خلائی گاڑی کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے چار مدار مکمل کرنے کے بعد اس کے اندر درجۂ حرارت 90 سینٹی گریڈ ڈگری تک بڑھ گیا تھا جس کے باعث چند ہی منٹ میں لائیکا کی موت واقع ہو گئی۔

مگر سپوتنک ٹو خلائی گاڑی اپنے مسافر کے بغیر تقریبا پانچ ماہ تک زمین کے مدار میں گردش کرتی رہی۔

اگرچہ لائیکا لانچ کے کچھ دیر بعد ہی مر گئی تھی مگر سوویت حکام یہ جھوٹا دعویٰ کرتے رہے کہ لائیکا 12 نومبر تک زندہ رہی۔ البتہ سوویت کمیونسٹ نے نو دن بعد اعلان کر دیا تھا کہ لائیکا اب مر چکی ہے مگر مشن کے جو سرکاری دستاویزات روسی خلائی ایجنسی کی جانب سے جاری کی گئیں ان میں حقیقت بیان نہیں کی گئی۔

لائیکا

مشن پر دنیا بھر سے سامنے آنے والا منفی رد عمل

اگرچہ 1950 کے عشرے میں آج کی طرح جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی تنظیمیں نہیں تھیں اس کے باوجود لائیکا کو خلا میں بھیجنے اور اس کی موت کے حوالے سے حقائق چھپانے پر دنیا بھر سے شدید منفی رد عمل سامنے آیا۔ سنہ 1957 ٹائمز رپورٹ کے مطابق اخبارات و رسائل میں مشن کے لیے ’پوچنک‘ اور ’پپ نک‘ جیسے تمسخرانہ الفاظ استعمال کیے گئے۔

روسی مشن کو اس حوالے سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ انھوں نے لائیکا کی باحفاظت زمین واپسی کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے اور معصوم جانور کے لیے یہ ایک خودکش مشن تھا۔ شگاگو امریکہ، ڈیلی مرر لندن نے اس پر طویل مذمتی مضامین شائع کیے اور روسی حکام پر دباؤ ڈالا کہ انھیں سپوتنک ٹو کی کامیابی کا جشن منانے کے بجائے لائیکا کی درد ناک موت پر سوگ منانا چاہیے۔

لائیکا پر ایسی کہانیاں بھی شائع ہوتی رہی ہیں جن میں معصوم جانور کے لیے احساس اور ہمدردی تھی۔ اسے ایک ہیرو قرار دیا گیا جس نے زمین سے 2000 میل کے فاصلے پر مکمل تنہائی کے چند لمحات گزارے تھے۔

سنہ 1985 میں ایک فلم ’مائی لائف از اے ڈاگ‘ ریلیز کی گئی جس میں ایک نوجوان کی صورت میں اس خوف کو پردۂ سکرین پر پیش کیا گیا جس سے لائیکا گزری تھی۔

اب تک متعدد راک سنگرز اپنے گانوں کو لائیکا کے نام سے منسوب کر چکے ہیں اور معروف جاپانی ناول نگار ہاروکی موراکامی، جینیٹی ونٹرسن، اور وکٹر پیلی وون نے بھی اپنی کتابوں میں لائیکا کا ذکر کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp