ایک کانفرنس کا احوال: بڑے لوگوں کی چھوٹی باتیں


میرے بچپن کا کچھ حصہ کوئٹہ میں گزرا، یہ اسی سال کی بات ہے جب ڈرامہ سیریل دھواں بن رہا تھا۔

پی ٹی وی کوئٹہ کا وہ شاید سب سے بڑا ہٹ تھا۔ ہم پی ٹی وی سوسائٹی میں ہی رہتے، اور سوسائٹی میں کوئی دکان نہیں تھی، تو شام میں میں اور میرا بھائی ٹی وی اسٹیشن کی کینٹین جاتے، اس کینٹین میں ہمیں کوئی نہ کوئی اداکار یا اداکارہ ضرور ٹکرا جاتے۔ یوں بھی کوئٹہ اداکاروں کے معاملے میں غریب تھا، تو پورے پاکستان کے اداکار وہاں آتے، یوں ہمیں اس دور کے بہت سے اداکاروں کو سامنے سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔

بچہ ہونا اور بچپن ایک عجیب سا دور ہوتا ہے۔ بچوں کو جب کوئی اچھا لگتا ہے تو بہت، اور برا لگتا ہے تو بھی بہت، ہم ٹیلی وژن پر دکھائی دینے والے چمکتے ستاروں کو جب سامنے سے دیکھتے تو ان کا اترانا اور سستا پن، بے حد برا لگتا، گنتی کے اکا دکا اداکار ہی ہوں گے جو سامنے سے ملنے پہ بھی ویسے ہی لگے ہوں گے جیسے وہ ٹیلی ویژن پہ لگتے تھے۔ اور یوں وہ اداکار ہمارے دل سے اتر جاتے۔

وقت کے ساتھ ہم بڑے ہو گئے، کوئٹہ کا رہنا خواب ہوا، اور ہم اپنی عملی زندگی میں آ گئے۔

پاکستان ٹیلی ویژن ابو کے انتقال کے ساتھ ہماری زندگی سے چلا گیا، اور ہمارا طرح طرح کے اداکاروں سے ٹکراؤ بھی ختم ہوا۔

مشہور شخصیات سے ایک عرصہ دراز کے بعد حال ہی میں کچھ ایسا ٹکراؤ ہوا کہ میں کئی دن کے لئے اداسی میں چلی گئی، مجھے اپنے اوپر شدید غصہ آیا کہ میں پھر وہی بچی بن گئی جو ٹی وی پر دکھائی دینے والوں سے جب ہاتھ ملانے چلی جاتی تھی تو وہ ایک خاص ادا سے چملاتے تھے۔ لیکن اس وقت میں بچی تھی اور بچوں میں ذلیل ہونے کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ اب تو میں بچی نہیں پھر اس قدر بے وقوفی پہ اپنے آپ کو جلاتے رہنے سے بہتر ہے لکھ دیا جائے، اور سب تک حقیقت کو دکھایا جائے۔ یوں بھی وجاہت صاحب کا پرچہ میری تحریروں کے لیے بہت فراخدل رہا ہے۔

گزشتہ دو ماہ سے ہم ایک کانفرنس کی تیاری میں لگے ہوئے تھے اور وہ بھی دوسرے شہر سے۔ اپنے کچھ پڑھے لکھے دوستوں سے جو لاہور سے ہیں ان سے رابطہ کیا کہ ہم ایک تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ شخصیات کی ضرورت ہے جو اچھا بولیں۔ انہوں نے دو نام بتانے کے بعد پہلے خود بات کی اور پھر ہم سے کہا کے آگے آپ بات کر لیں۔

پہلی شخصیت پاکستان کا ایک بہت بڑا نام، ماضی میں بہت بڑی کرسی اور ناجانے کیا کیا رکھتے ہیں، اب وہ ریٹائرڈ جج ہیں اور ایک مختلف نوع کا تعلیمی ادارے چلاتے ہیں۔ میں نے اپنے حوالے کے ساتھ ان سے بات کی تو وہ بہت ہی شائستہ، اور نفیس شخص لگے، بات کر کے بہت ہی اچھا محسوس ہوا۔ میں نے ان کو پروگرام کی تفصیل اور دیگر تمام معلومات دی اور پھر ان سے کہا کہ آپ کی آمد کے منتظر رہیں گے۔ جس پہ انہوں نے مہمان خصوصی کا نام سن کے کہا میرا آنا مناسب نہیں، وہ ایک انتہائی درجے کی بد تمیز خاتون ہیں ان کی موجودگی میں میں نہیں آ سکتا لیکن میرے تعلیمی ادارے کے افسران ضرور آئیں گے۔

پھر ہم کراچی کی کانفرنس میں شدت سے مصروف ہو گئے، ایک روز ان کو صبح کے کوئی دس بجے میسج کیا، سر کیا آپ سے بات ممکن ہے؟ جس کا جواب کئی گھنٹے بعد آیا ok، اور پھر دو، تین روز گزر گئے، بد قسمتی سے دو تین دن بعد آفس جاتے ہی سب سے پہلے جج صاحب کو کال کی سلام دعا تک تو وہ ٹھیک تھے لیکن جیسے ایک دم ہی انہیں کچھ یاد آیا اور وہ چیخنے لگے اور ایک جھٹکے سے وہ رٹائرڈ سے حاضر سروس جج کے کیریکٹر میں آ گئے، کہنے لگے میں آپ سے بالکل بھی بات نہیں کروں گا، آپ نے مجھ سے کہا بات کرنا چاہتی ہوں اور پھر جب میں نے اجازت دے دی تو آپ نے اس وقت کال کیسے نہیں کی؟ جواب دیں؟

بڑے میاں کی لرزتی آواز سے میں گھرا گئی، میں نے کہا I am sorry Sir، I was extremely busy، I am sorry!

لیکن بھائی وہ اس قدر سیخ پا ہوئے کہ غصے میں غراتے ہوئے فون بند کر دیا۔

میں بڑے میاں کے رویے سے بہت دکھی ہوئی کہ یہ کیسے لوگ ہیں، ان کی کرسی کو ان سے دور ہوئے بھی دہائیاں ہو رہی ہیں لیکن غرور و نخوت ایسے ہے جیسے زمین کے خدا ہوں۔ دوبارہ فون بھی کیے لیکن وہ غرور و نخوت کا مجسمہ بنے رہے، اور فون نہ اٹھایا۔

بہر حال ہم لاہور روانہ ہوئے، اب کانفرنس میں فقط تین دن اور نئے لوگوں کے ساتھ کام، پہلے ہی ایک آزمائش پھر خدا خدا کر کے وہ دن آ ہی گیا جس کا دو ماہ سے انتظار تھا۔

جج صاحب کے سوا سب ہی تھے، پروگرام کا آغاز ہوا، مہمان خصوصی منہ بنائے مہمانوں کے ساتھ بیٹھیں تھیں، اس وقت بھی وہ کیڑے ہی چن رہی تھیں۔ کیڑا ایک ایسی شے ہے کہ جب آپ کیڑا چننے کی نیت کر لیں تو کیڑے ہی کیڑے ملیں گے۔

محفل میں سارے شہر کے بڑے اسکول موجود تھے، جو انگریزی میڈیم بھی تھے۔

مہمان خصوصی کا تعارف کچھ یوں ہے کہ، محترمہ بڑے بڑے عہدوں پہ رہی ہیں، ساری زندگی کانونٹ کے کالج کی پروفیسر رہی، امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، کالج شدید درجے کا انگریزی میڈیم ہے اور زیادہ تر ساتھ کام کرنے والے بھی گورے۔

محفل کا احوال سننئے!

جب ڈاکٹر صاحبہ تشریف لائیں تو ہمارے ادارے کی ہیڈ نے اپنے تئیں نیک نیتی سے کہا کہ، ہم زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر صاحبہ کو سننے کے خواہشمند ہیں، اس لیے ان کو پینل ڈسکشن میں بھی شامل کیا جائے اور جب ڈسکشن ہو جائے تو کی نوٹ اسپیکر کی حیثیت سے ان کو دوبارہ بلا لیں گے۔

اب جیسے ہی محترمہ اسٹیج پہ جلوہ افروز ہوئیں، غصے کے مارے چہرے پہ لکیروں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ رنگت سیاہ سی ہو گئی۔

مائک پکڑ کر لرزتی آواز میں گویا ہوئیں کہ!

آج تک ناجانے کتنی کانفرنسوں میں کراچی جانا ہوا، ہم نے یہ کبھی نہیں سنا کہ وہاں کی نوٹ اسپیکر کو پینلئسٹ اور پینلسٹ کو کی نوٹ اسپیکر کہتے ہیں۔

اس کے بعد، ہر سوال کا جواب زہریلا، آخر میں وہ سب کو کوسنے پہ اتر آئیں، آپ لوگ غلام ہیں، انگریزی میڈیم اسکولوں کو بلا کے انگریزی میں تقریریں کرواتے ہیں، یہاں صرف انگریزوں کی دی گئی تعلیم پہ بات کی جا رہی ہے، مجھے پہلے معلوم ہوتا ہو میں یہاں نہ آتی۔ اور آپ لوگوں کو میری باتیں بری لگیں اس کا مجھے کوئی افسوس نہیں۔

یہ بچہ جو تقریری مقابلے میں جیتا ہے اس کو انعام کی رقم اس کے استاد سے دلوائی جائے، میں تو نہیں دوں گی۔

اور یوں وہ ہماری دو ماہ کی محنت کو تیل چھڑک کر آگ لگا کر چلتی بنیں۔

ان بد مزاج، خوفناک بزرگوں سے بات کرنے اور ملاقات کے بعد بچپن والی ذلت دوبارہ یاد آ گئی جو ہمیں اداکاروں کی طرف ہاتھ بڑھا کے ہوا کرتی تھی۔

جب لوگ تمام عمر گورے پرنسپل کے پاس نوکری کرتے ہیں، امریکہ سے ڈگری لیتے ہیں، اس کی بنیاد پہ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی بولتے ہیں تو اس وقت اپنے منہ پہ تھپڑ کیوں نہیں مارتے؟

ساتھ ساتھ مدرسے سے پڑھنے والوں کو حقارت سے دیکھنا اور مولوی فاضل لوگوں کو گالی دینا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں، تو ایسے لوگ کیا تعلیم یافتہ کہلانے کے لائق بھی ہیں؟

یہ تو خود سب سے زیادہ احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں، جو مر رہے ہیں کہ کس طرح انگریزوں سے زیادہ انگریز بن جائیں۔ گورے کے بنائے قانون پہ ساری زندگی پیسے کمانے کے بعد اور کرسچئن کالج میں نوکری سے ساری زندگی جھولے لینے کے بعد یہ لوگ اپنے مرنے سے پہلے اردو کے ٹھیکے دار بن گئے ہیں۔

اگر اسے علم دوستی اور علم پروری کہا جاتا ہے تو تف ہے ایسی تعلیم پر۔ اور آخر میں ڈاکٹر صاحبہ کی مشہور لائن جو اکثر محافل میں کہتی ہیں۔ ”آپ کو برا لگا، میری گفتگو سے آپ کو تکلیف ہوئی تو مجھے اس کا نا ہی دکھ ہے اور نا ہی شرمندگی“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).