سموگ کو جنم دینے والے انڈین کسان ہیں


صوبائی محکمہ لائیو سٹاک نے خبردار کیا ہے کہ سموگ کی وجہ سے جس قدر خطرہ انسانوں کو ہے اس سے کہیں زیادہ خطرہ جانوروں اور مویشیوں کو ہے حالانکہ مویشیوں میں موسم کی بدلتی صورتحال کو برداشت کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ شدید سردی میں جب ہم گھر کے اندر ہیٹر لگا کے بیٹھے ہوتے ہیں تب مویشی کھلے آسمان تلے یا معمولی سے شیڈ کے نیچے موسم کی سردی برداشت کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح گرمیوں میں بھی مویشی جانور کسی کو شکایت کیے بناء گرمی برداشت کر لیتے ہیں لیکن سموگ نے انسان تو انسان جانور تک کو بھی نہیں چھوڑا کیونکہ سموگ دھند اور دھوئیں کا ایسا مرکب ہے جس نے حالیہ چند دنوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو سانس، گلے خراب اور سینے کی بیماریوں کا مریض بنا دیا ہے یہی نہیں سموگ کی وجہ سے پھیلے ہوئے دھوئیں کی وجہ سے جانور، مویشی، مرغیاں دم گھٹنے سے ہلاک ہو رہی ہیں اسی لئے مرغبانی اور ڈیری فارم سے وابستہ افراد کو اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک طرف ہسپتالوں میں سموگ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب ویٹرنری کلینکس میں سموگ سے متاثرہ جانور، مویشی، مرغیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جونہی دوائی کا اثر ختم ہوتا ہے تو انسان تو انسان، جانور بھی پھر سے بیمار پڑ جاتے ہیں بلکہ اب تو دم گھٹنے کی وجہ سے مویشی ہلاک ہونے لگے ہیں۔ انسانوں نے تو سموگ سے بچنے کی کچھ تدبیریں اپنا لی ہیں لیکن جانوروں اور مویشیوں کو سموگ سے بچانے کے لئے حکومتی اور انفرادی سطح پر کوئی خاص اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ مویشی رکھنے والے مالکان کے پاس اس قدر وسائل نہیں کہ وہ اپنے مویشیوں کو سموگ سے بچانے کے لئے کھلے ہال تعمیر کروا سکیں اس لئے بہت بڑی تعداد میں مویشی کھلے آسمان تلے بندھے ہیں اور سموگ سے دم گھٹنے کی وجہ سے ایک ایک کر کے ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں سموگ کا سب سے بڑا حملہ لاہور شہر پر ہوا ہے جہاں ائر کوالٹی جان لیوا حد تک آلودہ ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک کے مقابلے میں پاکستان اور انڈیا میں سموگ کا زور زیادہ ہے۔ سموگ حالیہ چند برسوں سے شروع ہوئی ہے اس قبل کسی نے سموگ کا لفظ تک نہیں سنا تھا، لوگ صرف ماحولیاتی آلودگی کو ہی جانتے تھے لیکن کسے پتہ تھا کی ماحولیاتی آلودگی کا ایک جزو سموگ اتنی اہمیت اختیار کر جائے گا کہ ماحولیاتی آلودگی کا نام برائے نام ہی رہ جائے گا اور اس کی جگہ سموگ کو عالمی شہرت مل جائے گی۔

کورونا وائرس کے بعد سب سے زیادہ وبائی امراض میں سموگ کا نام لیا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سموگ دھوئیں اور دھند کا مرکب ہے اور یہ دھواں کسی بھی چیز کا دھواں ہو سکتا ہے مثلاً گاڑیوں کا دھواں بھٹوں کا دھواں وغیرہ۔ ایک تحقیق کے مطابق چند سال قبل جب انڈیا کے کسانوں نے اپنی فصلوں کی بڑی تعداد میں باقیات کو جلانا شروع کیا تو اس کے نتیجہ میں سموگ نے صحیح معنوں میں جنم لیا اس سے قبل ٹریفک اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں کو ماحولیاتی آلودگی کے نام سے جانا جاتا تھا۔

اگرچہ انڈیا روایتی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے کہ انڈین کسان ہر سال فصلوں کی باقیات کو جلا دیتے ہیں جس سے فضاء میں بے حد دھواں پیدا ہو چکا ہے جو اب تحلیل نہیں ہو رہا بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔ انڈیا چاہے مانے یا نہ مانے لیکن دنیا بھر کے سائنس دان اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ سموگ انڈین کسانوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ دوسری جانب مودی حکومت سموگ کے خاتمے پر کام کرنے کی بجائے پاکستان کے خلاف سازشیں تیار کرنے اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کرنے پر لگی رہتی ہے۔

اقوام متحدہ اور ماحولیاتی آلودگی کی عالمی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ نسل انسانی کی بقاء کے لئے مودی حکومت پر زور دے کہ وہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بجائے اسے ٹھکانے لگانے کے انتظامات کرے اگر جلد ہی اس عفریت پر قابو نہ پایا گیا تو زمین کے گرد آکسیجن کی تہہ کم ہوتی جائے گی اور یہ تو سب بخوبی جانتے ہیں کہ آکسیجن کے بغیر زندگی زندگی نہیں بلکہ موت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).