ایوب خان: کیا واقعی پاکستان کے پہلے فوجی حکمران کی حکومت مہنگی چینی کی وجہ سے گری؟


ایوب خان
چینی کا بحران ایوب خان حکومت کے خاتمے کی اہم وجوہات میں سے تھا لیکن متعدد دیگر واقعات ایسے بھی تھے جنھوں نے ان کے عہد کے خاتمے کی راہ ہموار کی
’ایوب خان کا عشرہ ترقی اور ملک میں چینی، دونوں ایک ساتھ ختم ہوئے۔‘

یہ جملہ پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں ایوب خان کے وزیر قانون ایس ایم ظفر کا ہے جس میں 10 سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے حکمراں کے زوال کی ساری کہانی بیان کر دی گئی ہے لیکن یہ کہانی نہ بہت سادہ ہے اور نہ اتنی مختصر کہ چینی سے شروع ہو کر چینی پر ختم ہو جائے۔

یہ اقتدار کی بے رحم جنگوں اور پس پردہ محلاتی سازشوں کی کہانی ہے جس کا تعلق اُس ’مردِ آہن‘ کے زوال سے ہے جسے اس کے زمانہ عروج میں ایشیا کا چارلس ڈیگال کہا گیا۔

واقعاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان واقعات کا آغاز 29 جنوری 1968 کو ہوتا ہے جب ایوب خان اردن کے شاہ حسین کے اعزاز میں دی گئی ضیافت میں شرکت کے لیے انٹرکانٹینینٹل ہوٹل راول پنڈی پہنچے۔

قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ اس روز ان کا چہرہ مہرہ اور چال ڈھال معمول کے مطابق نہ تھی۔ وہ جائے تقریب میں داخل ہونے سے قبل بار میں گئے اور کئی گلاس انھوں نے پانی یا سوڈا ملائے بغیر نوشِ جان کر لیے۔ یہ طرزِ عمل ان کے معمول کے خلاف تھا جس کے اثرات ان کی آواز پر فوراً ہی نمودار ہوگئے اور اس کے بعد غیر ملکی مہمان کے اعزاز میں ان کی تقریر میں بھی انھیں احساس بھی نہ ہوا کہ وہ دو دو ورق ایک ساتھ پلٹ رہے ہیں۔ ان کی یہ کیفیات دراصل دل کے دورے کی وجہ سے تھیں۔ ایوان صدر میں پہنچتے ہی دل کا دورہ شدید ہوگیا۔ اس کے بعد دنیا سے ان کا رابطہ کٹ گیا کیونکہ فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے ایوان صدر کو اپنی تحویل میں لے کر ایوب خان کے اہلِ خانہ، اراکین حکومت اور خود ایوب خان کے عملے کو بھی ان سے دور کردیا۔

صحت یابی کے بعد ایوب خان کا پہلا احساس یہی تھا کہ عرصہ علالت میں انھیں ملک کی سول انتظامیہ کے ہر ایک رکن سے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کاٹ دیا گیا تھا۔ یہ گویا ان کے اقتدار کی بساط لپیٹنے کی ابتدا تھی چنانچہ صحت یاب ہوتے ہی انھوں نے اپنی جسمانی صحت اور سیاسی قوت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا۔

وہ اب بالکل صحت مند اور توانا ہیں، اس کے اظہار کے لیے انھوں نے کس قسم کی گفتگو شروع کی؟ اس کی ایک جھلک قدرت اللہ شہاب نے پیش کی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک بار اپنے قریبی وزیروں کی محفل میں دوران گفتگو انھوں نے دعویٰ کیا کہ انھیں دنیا کے بہترین ڈاکٹروں نے یقین دلایا ہے کہ اگر میں مناسب احتیاط اور پرہیز سے کام لوں تو آئندہ 20 برس عہدہ صدارت کا بوجھ اٹھا سکتا ہوں۔ اپنی سیاسی صحت کے اظہار کے لیے انھوں نے اپنی حکومت کے 10 عظیم الشان برسوں کا جشن منانے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انگریزی میں ‘The Great Decade of Developement and Reform کا نعرہ تخلیق کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

1965 کی پاکستان انڈیا جنگ اور ایوب خان کا خفیہ دورۂِ چین

پہلے پاکستانی فوجی صدر کا امریکہ میں فقیدالمثال استقبال کیوں ہوا؟

جب پاکستان کے پہلے صدر کو ’ملک کے مفاد میں‘ جلاوطن کیا گیا

لال بہادر شاستری: وہ انڈین وزیر اعظم جن کی میت کو صدر ایوب خان نے کندھا دیا

یہ نعرہ ایوب انتظامیہ کے کس ذہن رسا کی تخلیق تھا؟ کوئی بھی اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ایوب عہد کے بعض نقادوں نے ان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کو اس کا خالق قرار دیا ہے لیکن وہ بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کرتے ہیں۔

یہ نعرہ جس کا رواں ترجمہ ’ترقی اور اصلاحات کا عشرہِ عظیم‘ ہوسکتا ہے، اُس عہد میں ریاستی نصب العین کی شکل اختیار کر گیا کیوں کہ تمام سرکاری دفاترکے نمایاں ترین مقامات، سرکاری سٹیشنری اور بہت سی دیگردستاویزات پر بھی اس کا اندراج ضروری خیال کیا گیا۔

سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر تو اس جشن کے اثرات فطری طور پر نمایاں ہونے ہی تھے لیکن نجی شعبے کے اخبارات کے مندرجات کی نوعیت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔

اس مقصد کے لیے اخبارات کو بڑے پیمانے پر اشتہارات جاری کیے گئے اور خصوصی ایڈیشنوں کا اہتمام کیا گیا جس میں ایوب عہد میں زندگی کے مختلف شعبوں خصوصاً معیشت اور آئینی اصلاحات وغیرہ کو اجاگر کیا جاتا۔ ان اخبارات میں ایوب خان کی روزانہ آٹھ آٹھ اور دس دس تصاویر شائع ہوتیں۔

شہاب لکھتے ہیں کہ شروع شروع میں کچھ لوگوں نے ایک معقول حد تک اس مہم میں دلچسپی کا اظہار کیا لیکن دن رات ایک ہی ڈھنڈورا پیٹے جانے کی وجہ سے لوگوں کی دلچسپی بہت جلد اس میں کم ہو گئی۔ پھر لوگ اس سے اکتانے لگے اور بالآخر مذاق اڑانے لگے۔ لیکن اسی جشن کے دوران جب اشیائے ضرورت، خاص طور پر چینی کی قیمت میں اضافہ بھی ہونے لگا تو فوجی حکمراں کے حق میں کیے جانے والے اس پروپیگنڈے نے پورس کا ہاتھی بن کر خود ایوب خان ہی کو روند ڈالا۔

عوامی بیزاری کا ایک بڑا سبب عہدِ ایوبی کی ’برکات‘ کا حد سے بڑھا ہوا ذکر تھا تو دوسری طرف مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی کم یابی نے اس تضاد کو نمایاں کر دیا جس سے عوامی بے چینی بہت بڑھ گئی، یوں عشرہِ ترقی و اصلاحات کے مقابل ایک جوابی بیانیہ مرتب ہو گیا۔

ایوب مخالف بیانیے کے مرکزی کردار مرکزی وزیر تجارت عبدالغفور ہوتی تھے۔ یہ ان کی پالیسیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ چینی کے علاوہ چاول، دالوں، آٹے اور میدے کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا اور صورت حال اتنی بگڑ گئی کہ ملک کے سب سے بڑے شہر یعنی کراچی میں بیکریوں نے ہڑتال کردی۔

چینی مہنگی ہونے کے علاوہ اتنی نایاب ہو گئی کہ پنجاب میں اس کی راشن بندی کرنی پڑی جب کہ مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں شہر کے مرکزی مقام شہید مینار کے سامنے خستہ حال ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ لٹکا دیا گیا جو ایوب کے عشرہ ترقی کا دن رات مذاق اڑاتا۔

ایوب خان نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ انھیں ناکام بنانے کے لیے خود حکومتی مشینری بھی کام کر رہی تھی، اس کا ثبوت انھوں نے یہ پیش کیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے عہدے دار اشیائے خوردو نوش مارکیٹ میں نہیں لانے دیتے تھے اور انھیں انڈیا سمگل کروا دیا جاتا تھا۔

وجہ چاہے جو بھی ہو، مگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافے اور ان کی کم یابی پر قابو پانے میں ناکامی پر عوام نے پہلا غصہ وزیر تجارت عبدالغفور ہوتی پر اتارا۔ سب سے پہلے ان کے بارے میں ’چینی چور‘ کا نعرہ مقبول ہوا لیکن رفتہ رفتہ حق بہ حقدار کے مصداق ایوب خان بذات خود اس تنقید کی زد میں آنے لگے۔

اس سلسلے کی ابتدا ایک نعرے سے ہوئی جس میں ایوب خان اور ہوتی کو بیک وقت تنقید کا نشانہ بنایا گیا یعنی ’عبدالغفور ہوتی، ایوب خان دی کھوتی۔‘ یہ نعرہ پاکستان کی عوامی سیاست کے مزاج کے عین مطابق تھا۔

کچھ دنوں کے بعد عبدالغفور اس نعرے سے منہا ہو گئے اور چینی چوری کا تنہا الزام ایوب خان کے سر آگیا۔

عبدالغفور ہوتی کی جگہ ایوب خان عوامی غیض و غضب کا ہدف کیوں بنے؟ اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے عوام کا مرکز نگاہ وہی تھے۔ ان کی اس مرکزی حیثیت کے بیان کے لیے انھیں اس زمانے میں بعض لوگ لائل پور (فیصل آباد) کا گھنٹہ گھر بھی کہنے لگے تھے، لیکن اس کی دوسری وجہ زیادہ سنگین اور زیادہ دلچسپ تھی۔

ایس ایم ظفر کے خیال میں اشیائے صرف کے اس بحران کی وجہ عبدالغفور ہوتی کی غلط اور ناکام پالیسیاں تھیں، ایوب خان کو بہت جلد اس کا احساس ہو گیا اور انھوں نے وزیر تجارت کو ہدایت کہ وہ فوری طور پر اپنے منصب سے الگ ہو جائیں لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔

یہ واقعہ ایوب خان کی گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور دھکا دینے کا باعث بن گیا۔ یہ کیسے تصور کیا جاسکتا تھا کہ ایوب خان جیسے طاقت ور حکمران کا ایک وزیر ان کی ہدایت پر عمل کرنے کے بجائے ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو جائے؟

اس واقعے نے اقتدار کے ایوانوں میں طاقت کے بدلے ہوئے توازن کی نشان دہی کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور ایوب خان لوگوں کی نفرت کا سب سے بڑا ہدف بن گئے۔

یوں اشیائے صرف کی گرانی اور ان کی قلت کی کیفیات میں ایوب خان کے کارناموں کا ذکر بے معنی ہوگیا اور عوام کی غیر معمولی بے چینی نے ایک ایسے لیڈر کا راستہ ہموار کر دیا جو بڑی جرات کے ساتھ عوامی مسائل کو زبان دے سکے۔

یہ خلا ذوالفقار علی بھٹو نے پُر کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ الطاف گوہر کے مطابق اس تحریک کو معروف ماہر معیشت اور اس زمانے میں حکومت کے چیف اکانومسٹ ڈاکٹر محبوب الحق نے یہ کہہ کر ایک اور مضبوط بنیاد فراہم کی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے قومی دولت ملک کے 22 خاندانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو کر رہ گئی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو اس مہم جوئی میں جی ایچ کیو کے بعض عناصر کی حمایت بھی حاصل تھی۔ میجر جنرل پیرزادہ یحییٰ خان کے دست راست اور ایوب خان کے ملٹری سیکریٹری ہوا کرتے تھے لیکن ایوب خان نے کسی وجہ سے ان کی خدمات جی ایچ کیو کو واپس کر دیں جس کی وجہ سے وہ ان کے خلاف ہو گئے۔

قدرت اللہ شہاب کے بقول انھوں نے بھٹو صاحب کو یقین دلا دیا کہ اگر وہ ایوب خان کے خلاف تحریک برپا کرتے ہیں تو اس مہم میں وہ تنہا نہ ہوں گے بلکہ جی ایچ کیو کا ایک بڑا طبقہ بھی ان کا ساتھ دے گا۔

شہاب کے مطابق جنرل پیرزادہ کی بھٹو صاحب سے ملی بھگت کا مقصد ان کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار کرنا نہیں بلکہ انھیں استعمال کر کے یحییٰ خان کے اقتدار کو یقینی بنانا تھا۔

ذوالفقارعلی بھٹو اس تعاون کے حقیقی مقاصد سے آگاہ تھے یا نہیں، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انھوں نے اس پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھا کر ایوب خان کے خلاف فضا گرم کردی۔

بھٹو صاحب نے ایوب خان کے خلاف اپنی تحریک کی ابتدا 21 ستمبر 1968 کو حیدر آباد میں ایک بڑے جلسے سے کی۔ حکومت نے کھلے مقام پر جلسے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تو یہی جلسہ ایک احاطے میں منتقل ہو گیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور انھوں نے ملک بھر میں اسی طرح چار دیواریوں میں جلسے کر کر کے حکومت کے خلاف فضا بنا دی۔

حیدر آباد کے جلسے میں بھٹو صاحب نے اپنی بات کا آغاز چینی کے بحران اور اس کی چوری سے کیا لیکن ان کی تان 1965 کی پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد تاشقند کے معاہدے پر جا کر ٹوٹی۔

انھوں نے ایوب خان پر اقربا پروری، خیانت اور بددیانتی کے الزامات کے بعد بزدلی کے الزامات بھی عائد کیے اور کہا کہ ایوب خان نے تاشقند معاہدہ کر کے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہی جلسہ تھا جس میں انھوں نے انکشاف کیا کہ اس معاہدے کی کچھ خفیہ شقیں بھی ہیں جنھیں بڑی چالاکی سے چھپا لیا گیا تھا، انھوں نے قوم سے وعدہ کیا کہ وقت آنے پر وہ ان شقوں کا انکشاف کریں گے۔

ذوالفقار علی بھٹو، ایوب خان

قدرت اللہ شہاب کے بقول میجر جنرل پیرزادہ نے بھٹو صاحب کو یقین دلا دیا کہ اگر وہ ایوب خان کے خلاف تحریک برپا کرتے ہیں تو اس مہم میں وہ تنہا نہ ہوں گے بلکہ جی ایچ کیو کا ایک بڑا طبقہ بھی ان کا ساتھ دے گا

چینی کے بحران سے عوام میں ایوب حکومت کے خلاف جو بے چینی اور بے زاری پیدا ہوئی تھی، حیدر آباد کے خطاب نے اسے بام عروج پر پہنچا دیا اور تحریک کو بنیاد مل گئی۔

چینی اور دیگر اشیائے صرف کے بحران کے علاوہ اس تحریک کو دوسری طاقت طلبہ کی بے چینی سے ملی۔

سنہ 1968 کے وسط میں ملک بھر میں طلبہ کے بڑے پیمانے پر ہنگامے شروع ہو گئے۔ ان ہنگاموں کے کئی اسباب تھے۔ یونیورسٹی آرڈیننس کی وجہ سے طلبہ میں ایوب خان کے لیے ناپسندیدگی پرانی تھی لیکن اس زمانے میں کئی دوسرے مسائل بھی ان کی ناراضی کی وجہ بن گئے، اس وجہ سے ملک کے تعلیمی ادارے اکثر بند رہنے لگے۔

ملک کے خراب معاشی حالات کی وجہ سے اساتذہ، خاص طور پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی متاثر ہونے لگی۔ اس طرح طلبہ کی تحریک میں اساتذہ کے علاوہ بعض دیگر طبقات بھی شامل ہوگئے، یوں بھٹو کی احتجاجی تحریک کو پہلے طلبہ اور اساتذہ اور اس کے بعد معاشرے کے دیگر طبقات کی حمایت بھی حاصل ہوتی گئی۔

بائیں بازو کے ممتاز راہنما معراج محمد خان مرحوم نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ یہ تحریک اپنے آپ میں بڑی مضبوط بنیاد رکھتی تھی جس سے حکومت کے لیے غیر معمولی مشکلات پیدا کی جاسکتی تھیں، لیکن اسی دوران یعنی سات نومبر 1968 کو راولپنڈی میں عبدالحمید نامی نوجوان طالب علم پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوا تو تحریک کے لیے مزید سازگار ماحول پیدا ہو گیا۔

معراج محمد خان کے بقول انھوں نے اس موقع پر بھٹو کو مشورہ دیا کہ اب پیچھے نہیں ہٹنا کیونکہ عبدالحمید کی موت ایوب خان کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لے گی۔

خان صاحب کے بقول بھٹو یہ رمز سمجھ گئے اور مقتول نوجوان کا جنازہ لے کر خود اس کے آبائی گاؤں پنڈی گھیب پہنچ گئے۔

شہاب لکھتے ہیں کہ راولپنڈی سے پنڈی گھیب تک ساٹھ ستر میل تک جس جس گلی محلے اور گاؤں سے یہ جنازہ گزرا، اسی کے ساتھ ساتھ ایوب خان کی قسمت کا ستارہ بھی ڈوبتا چلا گیا۔ اس کے بعد ملک کا گوشہ گوشہ بدامنی اور شورش کے لامتناہی طوفان کی زد میں آگیا۔

وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس قتل کے روز یعنی سات نومبر 1968 سے لے کر 25 مارچ 1969 یعنی ایوب خان کے استعفے کے دن تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب ملک کے کسی حصے میں کوئی نہ کوئی جلسہ، جلوس یا توڑ پھوڑ کے واقعات نہ ہوئے ہوں۔

عبدالحمید کے قتل کے چار روز کے بعد ایوب خان پر پشاور میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس حملے میں ایوب خان بچ گئے لیکن ان کی کمزوری کا تاثر مزید پختہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد بھٹو اور ولی خان کو گرفتار کر لیا گیا۔

حکومت کا یہ فیصلہ بھی اس پر الٹا پڑا اور ملک بھر میں ہنگامے تیز ہو گئے۔

اس سلسلے میں کراچی کا ایک واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ پولیس تشدد سے بچنے کے لیے کچھ مظاہرین آرام باغ کی معروف تاریخی مسجد میں داخل ہوئے تو پولیس نے پیچھے داخل ہو کر ان پر اتنا تشدد کیا کہ مسجد کا فرش لہو لہان ہو گیا۔ ایسے واقعات میں ملک کے کئی مقامات سے قرآن حکیم کی بے حرمتی کی اطلاعات بھی سامنے آئیں جنھوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

ان واقعات کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں ایک اشتہار دیکھا گیا جس میں فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ امن و امان کی بحالی اور قومی سلامتی کے لیے حکومت سنبھال لیں۔

انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بتایا کہ یہ اشتہار اس زمانے کے سٹینڈرڈ بینک کے مالک مسٹر علوی نے شائع کروایا تھا جو یحییٰ خان کے بہت قریبی دوست تھے۔ یوں اقتدار کے ایوانوں کے اندر اور باہر سے کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی اور چینی چوری کے الزام سے ایوب خان کے خلاف شروع ہونے والی تحریک ان کے زوال کی بنیاد بن گئی اور وہ اپنا منصب چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp