یہ جو خاکی وردی ہے!


چند روز قبل لاہور میں ایک نام نہاد ’فورس‘ کی بنیاد رکھے جانے کی تقریب کے دوران کارندوں کے ایک ٹولے کی طرف سے لگائے گئے زہر آلود نعروں اور ان پر خاتون کی معنی خیز خاموشی مجھے وزیرستان میں گزرے ماہ و سال میں لے گئی۔ ساڑھے تین سال اوروں کی طرح میرے بھی دل و جان پر گزرے تھے۔ خون میں لت پت درجنوں وردیوں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اپنے ہاتھوں سے چھوا ہے۔

سال 2001 ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہر رنگ و نسل کے جنگجو ہمارے قبائلی علاقوں میں امڈتے چلے آ رہے تھے۔ بظاہر باریش، پرہیز گار نظر آتے اور قرآن کی طویل رقت آمیز تلاوت کرتے۔ چنانچہ حراست میں لئے جانے کے باوجود ہمارے جوان ان سے احترام کے ساتھ پیش آتے۔ سال 2002 ء میں یونٹ کی کمان سنبھالتے ہی میں قبائلی ایجنسیوں سے واقفیت کے لئے روانہ ہوا جو کہ میرا ان علاقوں کا پہلا سفر تھا۔ چار پانچ دن کی مسافت کے بعد تین ایجنسیوں سے ہوتے ہوئے ہم رزمک، وانا شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے کانی گرم کے مقام پر نماز ظہر کے لئے رکے۔ مسجد سے باہر نکلے تو مقامیوں کا ہجوم ہمارا منتظر تھا۔ ایک کھلے مقام پر گول دائرے میں کرسیاں بچھا دی گئیں تھیں اور گاؤں کے معززین ہمارے منتظر تھے۔ نہایت خوشگوار ماحول میں ہم نے مقامی بسکٹوں کے ساتھ چائے پی۔ بے حد اپنائیت کے ساتھ ہمارے قافلے کو وہاں سے رخصت کیا گیا۔

آنے والے چند مہینوں میں فوج اور غیر ملکی جنگجوؤں کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی کہ جس میں دونوں اطراف نے جانی نقصان اٹھایا، مگر معاملات ایک دائرے کے اندر رہے۔ تاآنکہ غیر ملکیوں نے مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر ایف سی کے دو قافلوں پر خوفناک حملے کیے۔ کچھ دن گزرے تو دن دیہاڑے، وانا کے اعظم بازار میں فوج کے ایک جوان کے سینے میں گولی اتار دی گئی۔ تناؤ کے اس ماحول میں ایک چیک پوسٹ سے ایک مسافر وین کو مشکوک سمجھ کر نشانہ بنا ڈالا گیا۔

بدلے میں فروری 2003 ء میں میری یونٹ کے قافلے پر سرو کئی کے مقام پر گھات لگائی گئی، تو جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دیتا تھا۔ دشمن کے معاندانہ پراپیگنڈے کے زیر اثر باہم بد اعتمادی اپنے عروج پر تھی۔ تاریکی کے اس دور میں قبائل میں رائج صدیوں پرانی روایات تہ تیغ ہو چکی تھیں۔ قبائلی ملک کا روایتی ادارہ مذہبی پیشواؤں کے سامنے بے اثر ہو چکا تھا۔ مقامی قبائلی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا تھا۔ ستر ہزار سے زائد پاکستانی اس بے چہرہ جنگ میں کام آئے۔

انہی سالوں کے دوران کہ پاک فوج کے افسر اور جوان جہاں جان ہتھیلیوں پر رکھے سفاک دہشت گردوں سے برسر پیکار تھے، تو وہیں ملک میں انتہا پسند مذہبی رہنماء آئے روز اپنے ہی سپاہیوں کے خلاف کفر کے فتوے جاری کرتے رہتے۔ خاکی میں لپٹے شہیدوں کے جنازوں کی ادائیگی حرام قرار دے دی گئی۔ دوسری طرف پاکستان سے ’ڈومور‘ کا مطالبہ بھی شروع ہو گیا اور آنے والے سالوں میں زور پکڑتا چلا گیا۔ شجاع نواز اپنی حالیہ کتاب ’بیٹل فار پاکستان‘ میں بتاتے ہیں کہ انہی سالوں کے دوران پاک فوج پر دباؤ بڑھانے کے لئے درجنوں قبائلی نوجوانوں کو مغربی دارالحکومتوں میں لے جایا گیا۔

واپسی پر ان نوجوانوں نے پاک فوج پر دہشت گردوں کی بیخ کنی میں لیت و لعل سے کام لینے اور بعض گروہوں کی پشت پناہی کا پراپیگنڈہ شروع کیا۔ اسی ایک سانس میں قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کے الزامات دھرتے ہوئے، پاک فوج کو علاقہ سے نکل جانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ علاقے سے چیک پوسٹیں ہٹانے سے شروع ہونے والے مطالبات بڑھتے بڑھتے، پاکستان کے شہروں پر امریکی طیاروں کی بمباری تک جا پہنچے۔

چند مغربی طاقتوں، اور دو پڑوسی ممالک کے ایماء پر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے خلاف ایک منظم مہم برپا کر دی گئی۔ اس مہم کو پاکستان کے اندر مخصوص میڈیا ہاؤسز اور ان میں موجود خاص افراد کی حمایت حاصل تھی۔ قبائلی علاقوں میں جنم لینے والے اسی مخصوص گروہ نے سوشل میڈیا پر خاکی وردی کے خلاف ایک تضحیک آمیز نعرہ عام کیا۔ اس مخصوص گروہ کو بلوچستان میں پختون پٹی، کے پی کے میں خود دہشت گردی کا نشانہ بننے والی قوم پرست سیاسی جماعتوں اور واشنگٹن میں حسین حقانی جیسے کرداروں کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ دوسری طرف بلوچستان میں انتشار اور خون ریزی کے پیچھے کارفرما عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والے غیر ملکیوں کے اہداف بھی اب مختلف نہیں رہے تھے۔ پاک فوج اب قوم پرست علیحدگی پسندوں، مغرب زدہ لبرلز اور مذہبی انتہا پسندوں کے مشترکہ نشانے پر تھی۔

چند سالوں سے پاکستان اور بالخصوص افواج پاکستان کے خلاف جاری پانچویں درجے کی جنگ اب فیصلہ کن مرحلے پر ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران ایسا نظر آتا ہے کہ مذہبی اور قوم پرست انتہا پسندوں کے اہداف اور چند خاص مذہبی اور سیاسی خاندانوں کے مفادات ریاستی اداروں کے خلاف معاندانہ مہم سے جڑ چکے ہیں۔

سابق وزیر اعظم اور ان کی ہمہ وقت حالت طیش میں رہنے والی صاحبزادی کی اداروں کے خلاف مہم جاری ہے۔ تاہم قومی اداروں کو سر عام دشنام طرازی کا نشانہ بنائے جانے پر خود پارٹی کے اندر سنجیدہ افراد اب نفرت انگیزی سے اکتائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ پنجاب کے ہر قبرستان میں شہید محو استراحت اور اس کے شہروں، قریوں، محلوں اور گلیوں کے اندر آباد ہر تیسرے گھر میں ایک خاکی پوش بستا ہے۔ صوبے کے صدر مقام میں شہیدوں اور غازیوں کے پاک پیرہن کے خلاف لگائے جانے والے تضحیک آمیز نعرے کو سن کراس کے باسی ملک کے کونے کونے میں آباد دیگر پاکستانیوں سے کم رنجیدہ خاطر نہیں۔

مجھ جیسے لاکھوں از کار رفتہ سپاہیوں کے جسم و جاں پر لگے زخم بھی ایک بار پھر تازہ ہو گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں میں موجود سنجیدہ سیاسی عناصر، قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والے ٹولے کو اپنا کندھا کب تک فراہم کر سکتے ہیں۔ بی بی سی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بلاول بھٹو نے کھلے الفاظ میں خود کو نام نہاد ’جمہوری‘ بیانئے سے الگ کیا ہے۔ میرے لئے دشنام طرازی، بلیک میلنگ، اور نفرت کی سڑانڈ سے متعفن سیاسی ماحول میں یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ پیپلز پارٹی اپنے چیئرمین کے تازہ ترین بیان کو اپنی قیادت کے خلاف زیر سماعت مقدمات کو رکوانے اور سیاسی سودے بازی کے لئے استعمال نہیں کرے گی۔ ہمیں معلوم ہے کہ خود پیپلز پارٹی کے اندر بھی کچھ افراد موجودہ حکومت کو ہر صورت گھر بھیجنے کو آمادہ ہیں۔ تاہم اس کے لئے اداروں کی تضحیک، توڑ پھوڑ اور قومی سلامتی کو داؤ پر لگانا ہر گز دانشمندی کا راستہ نہیں۔

خاتون کے لئے ہمارا پیغام یہی ہے کہ جھوٹ اور دشنام طرازی کے ذریعے انتشار تو برپا کیا جا سکتا ہے، کسی اعلی و ارفع مقصد کا حصول ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).