محنت کش


صبح کے تقریباً نو بج کر پانچ منٹ ہو رہے تھے جب ہم نے پی آئی بی کالونی کے قدیم پوسٹ آفس کے احاطے میں قدم رکھا۔ غور کریں تو تعجب ہوتا ہے کہ اس پوسٹ آفس میں رکھے گئے ہمارے پچھلے اور اس قدم کے درمیان فاصلہ، تین دہائیوں کا ہے۔ آخری ایروگرام لڑکپن میں دیار غیر میں شفقت و محبت کے پیکروں کو بھیجا تھا۔ خوش قسمتی سے اس خط کے بعد ہمیں ان کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دوبارہ مل گیا تو خطوط کا سلسلہ منقطع ہو گیا تھا۔ آج جب کہ وہ دونوں محبت میں گندھے خمیر خاک نشیں ہیں تو اس پوسٹ آفس میں واپسی نے ایک گھر سے بچھڑے ہوئے بچے کے دل میں والدین سے ملنے کی ہوک پھر سے بھڑکا دی ہے۔

کچھ بھی تو نہیں بدلا یہاں۔ وہی در و دیوار، آنگن میں لگے پیپل کے پیڑ سے وہی جھانکتی کرنیں۔ وہی سیمنٹ کے فرش پر اس پیڑ سے گرے ہوئے زرد پتے!

آہنی دروازہ کھلا تھا۔ اندرونی دروازے کے کواڑ بھی بند نہ تھے البتہ مجھ سمیت پندرہ اشخاص اور تین چار خواتین جن کی قطار الگ لگی ہوئی تھی، کسی کو بھی کوئی کام کرنے والا نظر نہیں آ رہا تھا۔ نو بج کر بارہ منٹ پر احاطے میں ایک موٹر سائیکل داخل ہوئی۔ صاحب کو اترتا دیکھ کر ہاتھوں میں بجلی اور گیس کے بل تھامے پونے نو بجے سے کھڑی رعایا کے دلوں میں قرار سا آ گیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ محض آج انہونی نہیں ہوئی ہے، یہ تو روزانہ کا معمول ہے۔ دوبئی کے دفتر میں ساتھیوں کو چھ بجے شروع ہونے والی ڈیوٹی پر ساڑھے پانچ اور پونے چھ کے درمیان بلا ناغہ ہاتھ اسکین کرتا دیکھنے والے کے لئے یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ کافی مایوس کن تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد ایک دبلے پتلے بزرگ گرچہ کہ بوسیدہ مگر اجلا پاجامہ کرتا پہنے دھیرے دھیرے قدموں سے، جگہ بناتے ہال کے اندر چلے گئے۔

ہمیں کچھ سامان پارسل کرنا تھا۔ کاؤنٹر تک پہنچنے کے لئے ابھی دیر تھی تو ہم برابر میں کھڑے شخص سے پوچھ بیٹھے کہ کیا پارسل بھی اسی کاؤنٹر سے بھیجا جاتا ہے۔ اس نے ہمیں اندر بھیج دیا تو معلوم ہوا اس کا سیکشن الگ ہے۔ وہاں موجود ایک نفیس باریش صاحب نے ہم سے پارسل سے متعلق کچھ رسمی سوال کیے اور کہا کہ آپ کو وہاں سے پیک کروا لیجیے۔ جہاں انہوں نے اشارہ کیا تھا وہاں وہی بزرگ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک چھوٹی سی میز رکھی تھی۔ ہم نے مدعا بیان کیا تو انہوں نے پارسل ہمارے ہاتھوں سے لے کر میز پر رکھ دیا۔

بزرگی کا قرب بھی کیا خوب نعمت ہے۔ دوبئی میں یہ نعمت کس قدر معدوم ہے! پوٹلی سے انہوں نے کپڑے کے بنے سفید تھیلے کا بنڈل نکالا۔ ایک تھیلا ان میں سے علیحدہ کیا اور باقی سلیقے سے الگ رکھ دیے۔ نہ جانے کیوں ہماری عجلت پسند طبیعت پر پیری کا یہ سہج پن بالکل گراں نہ گزرا۔ کانپتے ہاتھوں کی، ہمارا پارسل اس جھولے میں ڈالنے کی کوشش کو ناکام ہوتا دیکھ کر ہم نے مدد کا پوچھا تو کہنے لگے میاں تمھاری یہ دوا کی بوتلیں بھاگ رہی ہیں۔ آ جائیں گی ابھی قابو! دوسرے جھولے میں ہمارے سامان کو پلٹ کر انہوں نے ایک بڑی سی سوئی بلکہ سوا اور دھاگہ نکالا۔ لرزتے ہاتھوں نے چند دقیقوں میں اسے پرو کر ہمیں تھما دیا۔

” جی اس کی رقم ہمیں یہاں ادا کرنی ہے یا کاؤنٹر پر؟“ ۔ ہم نے پوچھا۔ ”پہلے اس کو نپٹا لو، پھر دے جانا“ ۔ ہم نے اس تھیلے پر پتہ لکھا اور جمع کروا کر دوبارہ چشمہ عطف کی جانب پلٹے۔ ادائیگی کرتے ہوئے ہم نے پوچھا کہ کیا وہ پوسٹ آفس کے ملازم ہیں۔ ”نہیں، پینشن یافتہ ہوں۔ عمر اسی برس ہو گئی ہے، بارہ سال پہلے عمرہ کیا تھا، اس کے بعد سے یہاں آ رہا ہوں۔“ ہم نے بتایا کہ ہم لکھاری ہیں اور اجازت چاہی کہ ان پر کچھ لکھ سکیں۔ کہنے لگے ”کس اخبار میں چھپے گا۔“ ہم نے آن لائن کا تذکرہ کر کے کچھ بولنے کی کوشش کی ہی تھی کہ ہمیں روک دیا۔ کرتے کی جیب سے ایک پرانا موبائل نکالا اور کہا کہ ”میاں! چھ سو روپے کا لیا ہے۔ ہمارے پاس یہی ہے۔“ ۔

پل بھر کے لئے ہم خاموش ہو گئے۔ پھر وعدہ کر بیٹھے کہ لکھیں گے تو آپ کو سنائیں گے ضرور۔ گھر واپس آ گئے، دو چار دن اپنوں میں اور گزارے اور پھر دوبئی لوٹ آئے۔

عمر رواں بڑی سرعت کے ساتھ آخری منزل کی جانب بڑھ رہی ہے۔ زندگی دینے اور اسے برقرار رکھنے کی نعمت دینے والے رب سے یہی دعا ہے کہ اس محنت کش سے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کرنے کی مہلت عطا کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).