ٹرمپ کی شکست: امریکہ میں جمہوری کامیابی کا نقطہ آغاز


امریکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن ملک کے 46 ویں صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ ابھی تک سرکاری طور پر نتائج کا اعلان سامنے نہیں آیا لیکن گزشتہ دو روز سے یہ واضح ہوچکا تھا کہ صدر ٹرمپ دوسری مدت کے لئے انتخاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ ان کی شکست دراصل امریکہ کے پرانے جمہوری نظام کی کامیابی ہے۔ امریکی عوام نے ووٹ کی طاقت سے ٹرمپ کی اس کوشش کو مسترد کردیا ہے کہ پورے نظام کو تہس نہس کرکے ’نیا امریکہ‘ تعمیر کیا جائے۔

دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں اس تاریخ ساز لمحہ کو اہمیت دی جارہی ہے۔ مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ جو بائیڈن کی کامیابی دراصل جمہوریت کی کامیابی ہے۔ امریکی انتخاب نے ثابت کیا ہے کہ اگر جمہوری طریقہ سے کوئی ‘جمہوریت دشمن‘ لیڈر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو وہی جمہوری نظام اس سے نجات حاصل کرنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے۔ ان معنوں میں ٹرمپ کی شکست جمہوریت کی حقیقی فتح کہی جارہی ہے۔ البتہ اسی کے ساتھ یہ پہلو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ شکست کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انہیں 2016 کے مقابلے میں لگ بھگ چالیس لاکھ زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنا پاپولر بیس برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ اس میں قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے۔ جمہوری اداروں کی کامیابی اور عوامی رائے کی اہمیت پر اصرار کرتے ہوئے اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 7 کروڑ 3 لاکھ کے لگ بھگ امریکیوں نے ووٹ دیا ہے۔ ان کے مد مقابل جو بائیڈن کو 7 کروڑ44 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔

اس تناظر میں یہ واضح ہے کہ ٹرمپ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکی قوم کو تقسیم کرنے کی پالیسی کے سبب شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنے دور صدارت میں ہر قسم کے اختلاف رائے کو برداشت کرنے سے انکار کیا بلکہ پوری انتخابی مہم کے دوران وہ اپنے ہر طرز عمل کو درست اور دوسروں کو غلط قرار دیتے رہے۔ وہ دنیا کو سیاہ و سفید میں تقسیم کا اصول مانتے ہیں کہ وہ خود ہر معاملہ میں درست ہیں اور دوسرے یا تو ان کی بات مان لیں یا ان سے مقابلہ کریں۔ مقابلہ کی صورت میں اختلاف کرنے والے کے خلاف ہر ہتھکنڈا استعمال کرنا جائز و درست سمجھتے تھے۔

ٹرمپ سیاست میں کسی اخلاقی قدر یا اصول کے قائل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے طرز حکمرانی کے بارے میں شدید اختلافات سامنے آئے اور ان کے مقابلےمیں جو بائیڈن کو کامیابی نصیب ہوئی۔ حالانکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امید وار عمر رسیدہ بھی ہیں اور انہیں دلکش شخصیت بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بائیڈن نے کامیابی کے لئے تگ و دو کرنے کی بجائے، اطمینان سے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی شکست کا راستہ ہموار کرنے کا موقع دیا۔ بائیڈن کی کامیابی تحمل، مدبرانہ سوچ، قومی یک جہتی کے پیغام کی فتح ہے۔ ٹرمپ کی ناکامی ضد، انانیت، جمہوری اقدار کو مسترد کرنے کے طریقے اور اختلاف رائے کو دشمنی قرار دینے کے رویہ کی شکست ہے۔

کورونا وائرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انانیت پسند پہلو کو نمایاں کیا۔ اس وائرس سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کرنے اور ماہرین کی رائے پر عمل کرنے کی بجائے ٹرمپ نے خود کو درست اور ہر معاملہ کا ماہر ظاہر کرنے پر اصرار کیا۔ سیاسی مخالفین سے مقابلہ یا تکرار قابل فہم ہوسکتی ہے لیکن امریکی صدر نے ایک وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈاکٹروں، سائنس دانوں اور ماہرین کی رائے کو بھی ماننے سے انکار کردیا ۔ یہ ممکن ہے کہ اگر یہ وبا امریکی انتخابی مہم کے دوران سامنے نہ آئی ہوتی تو شاید ٹرمپ کا طرز عمل مختلف ہوتا لیکن دوبارہ صدر منتخب ہونے کے جوش میں انہوں نے ماہرین کے ہر مشورہ کو رد کیا۔ عالمی ادارہ صحت پر الزام تراشی کرتے ہوئے اس کی مالی امداد بند کی اور اپنی حکومت کی بدانتظامی کو درست کرنے کی بجائے چین پر یہ وائرس امریکہ بھیجنے کا الزام عائد کرکے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ نکلا کہ امریکہ میں یہ وبا بدترین شکل میں موجود ہے۔ کثیر وسائل اور اعلیٰ ترین فنی و سائنسی صلاحیت کے باوجود امریکہ میں کورونا متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد دنیا بھر میں زیادہ ہے۔ اس وقت بھی یہ وبا عروج پر ہے۔ گزشتہ تین روز کے دوران روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ امریکی کورونا کا شکار ہوتے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اپنے دور میں معیشت کو ضرورسہارا دیا۔ چین سمیت ان تمام ملکوں کو جن کے ساتھ امریکہ کے تجارتی مراسم ہیں ، رعایات دینے پر مجبور کیا۔ اس طرح وہ ملکی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور امریکی سرمایہ داروں کی حوصلہ افزائی میں کامیاب ہوئے۔ کورونا وائرس کا سامنا کرنے سے پہلے روزگار اور معاشی انڈکس مثبت تھے ۔ صدر ٹرمپ اسی بنیاد پر انتخاب جیتنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اسی لئے جب ماہرین نے کورونا سے امریکی عوام کو بچانے کے لئے لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کے سخت قواعد لاگو کرنے کا مشورہ دیا تو ڈونلڈ ٹرمپ نے شدید مزاحمت کی۔ ان کے خیال میں امریکی معیشت کا پہیہ چلتے رہنے میں ہی ان کی کامیابی تھی۔ لاک ڈاؤن اور دوسری پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے وہ معیشت کو بحال رکھنے کے مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی رہے۔ کورونا کے آغاز میں ایک کروڑ سے زائد امریکی روزگار سے محروم ہوگئے تھے۔ تاہم کھربوں ڈالر کے مالی پیکیج اور پابندیوں کے خلاف سیاسی فضا ہموار کرکے وہ اس تعداد میں قابل ذکر کمی کرنے میں کامیاب رہے۔ لیکن روزانہ کی بنیاد پر شہریوں کی ہلاکت اور کورونا کی شدت سے عوام میں بے چینی اور خوف بھی پیدا ہؤا۔ ٹرمپ کو بلاشبہ اس کا نقصان ہؤا۔

اس کے باوجود کورونا وائرس ڈونلڈ ٹرمپ کی ناکامی کا سبب نہیں بنا۔ انتخاب میں اپنی عوامی مقبولیت میں اضافہ سے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی غلط اور علمی و عقلی شواہد سے متصادم پالیسیوں کے باوجود ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہؤا۔ مئی کے آخر میں پولیس تشدد میں سیاہ فام شہری جارج فلائڈ کی ہلاکت کے بعد ’بلیک لائف میٹر‘ تحریک کے تحت ملک بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہؤا۔ صدر ٹرمپ نے کسی بھی مرحلہ پر اس تحریک کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے مسترد کرتے ہوئے سفید فام امریکیوں میں اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہے۔ وہ مظاہرین کو قانون شکن اور تشدد کا پرچار کرنے والا قرار دیتے رہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ ملک کی سیاہ فام آبادی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی تھی۔ انہوں نے نسلی اور گروہی تعصبات کی سرپرستی کے ذریعے اپنی مقبولیت کی راہ نکالنے کی کوشش کی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے۔

ڈیموکریٹک پارٹی، جو بائیڈن اور لبرل امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی اسی انتہا پسندی کو نمایاں کرکے امریکیوں کو نظام اور جمہوریت بچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ یہ حکمت عملی کامیاب ہوئی اور جو بائیڈن سخت مقابلے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ اس لحاظ سے اسے جمہوریت کی فتح اور انتہا پسندی کی ناکامی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن امریکہ کے ان انتخابات میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ تعصب، انتہاپسندی اور جمہوریت دشمنی کا مزاج امریکی سماج میں راسخ ہوچکا ہے۔ نہ صرف جو بائیڈن بلکہ مستقبل میں اقتدار سنبھالنے والے سب صدور کو اس انتہا پسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔

جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران بھی اور کامیابی کے قریب پہنچ کر بھی اپنی تقریروں اور پیغامات میں واضح کیا ہے کہ وہ امریکی قوم کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے ان کا پیغام سادہ اور عام فہم رہا ہے کہ ’آپ نے خواہ مجھے ووٹ دیا ہے یا نہیں دیا ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ امریکہ کا صدر منتخب ہو کر میں سب امریکی شہریوں کا صدر ہوں گا۔ آپ کسی رنگ و نسل، طبقے یا سیاسی نظریے سے وابستہ ہوں، بطور صدر آپ کے مفاد کی حفاظت میری ذمہ داری ہوگی‘۔ امریکی مبصر اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت امریکہ کو اس پیغام اور ایسے ہی لیڈر کی ضرورت ہے جو تقسیم کی بجائے جوڑنے پر یقین رکھتا ہو، جو جمہوری اقدار کا تمسخر اڑانے کی بجائے ، بلاتخصیص عوام کی رائے کا احترام کرنا جانتا ہو۔ جو بائیڈن کئی دہائی تک امریکی سینیٹ کے رکن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سابق صدر باراک اوباما کے ساتھ آٹھ برس تک نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ انہیں پارٹی تقسیم سے بالا ہوکر کام کرنے والے سیاست دان کی شہرت حاصل ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ صدر ٹرمپ کے برعکس وہ اپنی کابینہ میں ری پبلیکن پارٹی کے نمائیندوں کو شامل کرکے تعاون کی بنیاد رکھیں گے۔ اسی طرح اگر سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کو فیصلہ کن اکثریت نہ بھی حاصل ہوسکی تو بھی بائیڈن اپنی سیاسی ہنر مندی کی وجہ سے مفاہمت کا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب رہیں گے۔

وہائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے رخصت ہونے کے بعد امریکی تاریخ کے ایک بدترین صدر کا عہد تمام ہوگا۔ یہ ایک ایسے شخص کی صدارت تھی جس نے اسی نظام کو تہ و بالا کرنے پر اصرار کیا جو اسے اقتدار تک پہنچانے کا سبب بنا تھا۔ اس نے مفاہمت اور احترام کے بنیادی جمہوری اصولوں کو مسترد کیا۔ ٹرمپ کی شکست پر ناروے کی اوسلو یونیورسٹی میں پروفیسر شیل لارش برگے نے کہا ہے کہ ’ یوں لگتا ہے کہ ہم ایک پاگل خانے سے نکل کر معمول کے سماج میں واپس آرہے ہیں‘ ۔ یہ بیان اس وقت امریکہ ہی نہیں دنیا کے بیشتر ملکوں کے لاتعداد لوگوں کے احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali