اپوزیشن اتحاد: کیا مولانا کی رفو گری کام آئے گی؟


چک شہزاد میں آج اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں بظاہر ملک کی سیاسی صورت حال پر غور کیا گیا لیکن دراصل یہ اجلاس بلاول بھٹو زرداری کے بی بی سی کو دیے گئے اس انٹرویو کے پس منظر میں منعقد ہوا تھا، جس میں انہوں نے گوجرانوالہ جلسہ میں نواز شریف کی طرف سے آرمی اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کا نام لینے پر بات کی تھی۔ اور کہا تھا کہ یہ سننا ان کے لئے ’دھچکہ‘ تھا۔ اس بیان سے اتحاد کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لئے مولانا فضل الرحمان رفو گری کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ کیا ان کی کوششیں بارآور ہوں گی؟

مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور بلاول بھٹو زرداری کے انٹرویو کے حوالے سے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’سب جانتے ہیں کہ جب اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے۔ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے البتہ میڈیا نے اسے بہت بڑا معاملہ بنا دیا ہے‘ ۔ مولانا اپنی سیاسی پرکاری اور الفاظ کے مناسب استعمال کے لئے مشہور ہیں، تاہم انہوں نے اس پہلو پر زیادہ سوالوں کے جواب دینے سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سب لوگوں کے بات کرنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ بعض لوگ زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ موجودہ حالات میں بہتر ہوگا کہ ہمارا بیانیہ مشترکہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن اگر سیاست دانوں کے نام لئے جا سکتے ہیں تو ملکی اداروں سے تعلق رکھنے والوں کے نام لینے میں کیا حرج ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں ہے‘ ۔

پی ڈی ایم کے اجلاس کا بنیادی مقصد اپوزیشن کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان آل پارٹیز کانفرنس میں متفقہ اعلامیہ کے حوالے پیدا ہونے والے اختلاف پر بات کرنا تھا تاہم مولانا کی پریس کانفرنس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی الوقت ’سیز فائر‘ کی کوشش کی گئی ہے اور اس معاملہ پر حتمی فیصلہ 14 نومبر کو اپوزیشن اتحاد کے سربراہی اجلاس تک مؤخر کیا گیا ہے۔ تاکہ پارٹیاں اپنی حتمی پوزیشن کا تعین کر لیں اور حکومت کے خلاف احتجاج کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اسے مل کر جاری رکھا جاسکے۔ آج منعقد ہونے والے اجلاس میں دیگر لیڈروں کے علاوہ نواز شریف، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک تھے۔ ٹھوس اعلان سامنے نہ آنے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں اختلاف بدستور موجود ہے۔

خبروں کے مطابق اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں نواز شریف کا بیانیہ ہی بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے باقی سب پارٹیوں کو اسے من و عن قبول کرلینا چاہیے۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے جو اشارے دیے ہیں، ان کے مطابق پارٹی اے پی سی میں ہونے والے اتفاق رائے پر قائم ہے لیکن اداروں کے سربراہوں کے نام لے کر انتخابی دھاندلی اور تحریک انصاف کو مسلط کرنے کے الزامات سے گریز کیا جائے۔ نواز شریف گوجرانوالہ کے جلسے میں فوجی قیادت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ پر تنقید کو جس سطح پر لے گئے ہیں، کوئی ٹھوس نتیجہ حاصل کیے بغیر مستقبل میں اس سے گریز کرنے سے یہی سمجھا جائے گا کہ مسلم لیگ (ن) نے پسپائی اختیار کرلی ہے۔ حکومت اور اس کی ہمدردی میں مستعد میڈیا اسے مسلم لیگ یا شریف خاندان کی سودے بازی بھی قرار دے سکتا ہے۔

نواز شریف کے تند و تیز لب و لہجہ اور براہ راست الزام تراشی کے بعد پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے اور اس اتحاد کو غیر موثر بنانے کے لئے کئی سطح پر سرگرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ حکومت نے مسلم لیگ (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں۔ عمران خان نے عام جلسوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اور ان کا لب و لہجہ بدستور سخت اور غیر مفاہمانہ ہے۔ اس وقت ان کا ٹارگٹ نواز شریف اور مریم نواز ہیں۔ پی ڈی ایم پر وہ انہی کے بیانات کی روشنی میں تنقید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف فوج کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں اور ان کی باتیں دشمنوں جیسی ہیں۔ اس دوران غدار اور بھارتی ایجنٹ قرار دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چند روز پہلے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ دوسرے ملکوں میں ایسے بیان دینے والوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے لیکن یہ شخص لندن میں بیٹھ کر حملے کر رہا ہے۔ تاہم وہ اپنے حامیوں کو بدستور یقین دلاتے ہیں کہ نواز شریف کی یہ سخت بیانی ’این آر او‘ لینے اور اپنی چوری بچانے کے لئے ہے۔ عمران خان ایسے کسی دباؤ سے پریشان نہیں ہوگا۔

اس دوٹوک انتباہ کے باوجود عمران خان نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی زبان بولنے کے باوجود صرف اس لئے آزاد ہیں کیوں کہ پاکستان میں عورتوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ گویا وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ اگر مریم کی بجائے کوئی مرد سیاست دان ایسے بیان دیتا اور پاکستان میں ہوتا تو اسے اب تک گرفتار کر لیا جاتا۔ اس بیان کے بین السطور حکومت اور وزیر اعظم کی کمزوری اور دفاعی پوزیشن کو بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ مریم نواز موجودہ حکومت کے دور میں ہی ایون فیلڈ کیس کے علاوہ ایک اور مقدمے میں بھی قید رہی ہیں اور اس وقت بھی ضمانت پر رہا ہیں۔ اس لئے عمران خان کا یہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ انہیں خاتون ہونے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا جاتا۔ اس ہچکچاہٹ کی اصل وجہ یہ ہے کہ مریم کو گرفتار کر کے دراصل حکومت یہ اعتراف کر لے گی کہ وہ موجودہ تحریک سے خوف زدہ ہے اور کسی بھی قیمت پر اسے دبانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ماہ کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے موقع پر مریم نے للکارا بھی تھا کہ ’ہمت ہے تو مجھے گرفتار کر کے دکھاؤ‘ ۔

مریم نواز کو گرفتار کرنے سے معذوری کے بارے میں وزیر اعظم کے بیان کو اگر نواز شریف کے بیانات و الزامات پر آئی ایس پی آر کی خاموشی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سمجھنا بھی دشوار نہیں ہے کہ ادارے فی الوقت کسی انتہائی صورت کی طرف نہیں جانا چاہتے۔ یعنی موجودہ حالات میں آئینی انتظام لپیٹنے اور مارشل لا لگانے کا ’آزمودہ‘ طریقہ اختیار کرنے کا آپشن موجود نہیں ہے۔ اس مجبوری کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے جو بائیڈن کی کامیابی کے بعد پاکستان میں کسی غیر آئینی انتظام کو شدید امریکی مزاحمت کا سامنا بھی ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ فوج موجودہ سیاسی حکومت کی حمایت تو کرتی ہے لیکن وہ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ تصادم کی بجائے مفاہمت چاہتی ہے۔

عمران خان کا لب و لہجہ اور حکمت عملی اس کے برعکس ہے۔ اس دوران پی ڈی ایم کو کمزور کرنے، پارٹیوں میں گروہ بندی یا توڑ پھوڑ کے ذریعے ماحول کو پرسکون بنانے کی کوشش جاری ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ موجودہ حکومت کی پوری مدت کے لئے یہ سکون اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت کا سلسلہ شروع ہو۔ فی الوقت وزیر اعظم اور تحریک انصاف اس پر راضی نہیں ہیں۔ اس لئے متبادل ہتھکنڈے دیکھنے میں آرہے ہیں۔

کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ اور ثنا اللہ زہری کی مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اور نواز شریف پر تنقید کو اسی حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ عبدالقادر بلوچ کا یہ کہنا کہ وہ اپنے آرمی چیف پر الزامات برداشت نہیں کر سکتے اور ساتھ ہی کوئٹہ جلسہ میں نواب زہری کو مدعو نہ کرنے کو عذر کے طور پر پیش کرنا، واضح کرتا ہے کہ علیحدگی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ ورنہ فوجی قیادت پر براہ راست تنقید سے مایوس ہونے والے قادر بلوچ کو پارٹی چھوڑنے اور نواز شریف کے بیان کو مسترد کرنے میں دس روز تک سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری بھی انہیں کوششوں میں شامل تھی، جن کا حصہ دار بننے کے لئے اب قادر بلوچ اور ثنا اللہ زہری میدان میں نکلے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اختلاف دراصل اب اس نکتہ پر مرکوز ہو رہا ہے کہ کیا سیاسی مہم کو عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف جد و جہد تک محدود رکھا جائے یا حکومت کی بجائے سیاسی بساط پر مہرے چلنے والے اداروں سے مقابلہ کیا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو دے کر اپنی پوزیشن واضح کی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف اسے بیانیہ کی لڑائی بنا چکے ہیں۔ تاہم آئینی سیاسی انتظام میں عدم مداخلت کا اصول منوانے کے لئے براہ راست ان اداروں کو مبارزت یا مفاہمت کی دعوت دینا ہوگی۔ نواز شریف نے یہی کیا ہے۔ اس کوشش میں البتہ اپوزیشن کی باقی جماعتوں کے علاوہ خود پارٹی کے ’میٹھا میٹھا کھاؤ‘ والے عناصر ساتھ چلنے پر راضی نہیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اس تصادم میں بیچ بچاؤ کروانے کے مشن پر ہیں۔

مفاہمت اس تنازعہ میں بنیادی نکتہ ہے۔ نواز شریف کو سخت ترین موقف اختیار کرنے کے باوجود کسی مرحلہ پر اسی طرف لوٹنا پڑے گا۔ اگرچہ فی الوقت عمران خان کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے لیکن کسی مرحلہ پر اگر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو یہ مذاکرات حکومت کے ساتھ ہی ہوں گے۔ سہولت کار ان میں براہ راست فریق نہیں بن سکتے کہ یہی پاکستانی سیاست کے غیر تحریر شدہ اصولوں کی بنیاد ہے۔ مولانا فضل الرحمان نواز شریف کو یہی سمجھانے کی کوشش کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی کو انٹرویو دے کر اس سیاسی دنگل میں خود کو برابر کا ’جوڑ‘ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ بلاول کے ’دھچکے‘ سے اپوزیشن اتحاد کو جو جھٹکا لگا ہے، مولانا فضل الرحمان اپنی قیادت میں قائم پی ڈی ایم کو اس سے کیسے بچائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali