جہانگیر ترین کی واپسی اور اس کے بعد ۔۔


جوچا ہے آپ کا حسن کر شمہ سا ز کر ے ،قر یبا ً سا ت ما ہ سے عملی طور پر جلا وطنی میں گزا رنے کے بعد عمران خان کے سابق معتمد خصوصی جہانگیرخان تر ین وطن واپس لو ٹ آ ئے ہیں۔ تحر یک انصا ف میں ان کے حا سد ین اور مخا لفین جو کھلے اور دبے لفظوں میں ان پر تنقید کرتے رہتے تھے اب منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ جہانگیر تر ین کا سب سے بڑ ا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر یک وتنہا تھے، وہ کام سے کا م رکھتے ہیں اور انہوں نے شبانہ روز محنت سے پاکستان تحریک انصا ف سینچی،اسے منظم کیا اوراقتدا ر کے ایوانوں تک پہنچایا۔

جہا نگیر تر ین جو کالج کے زمانے سے ہی میر ے دوست ہیں ،اس نظر یئے پر کا م کرتے رہے کہ سیا ستدانوں کی روایتی ریشہ دوانیوں پر وقت ضا ئع کر نے کے بجا ئے اپنے کام پر پو ری تو جہ دی جا ئے۔تحر یک انصا ف میں اچھے لوگ لانے کی ذمہ داری بھی خا ن صا حب نے انہیں ہی سو نپ دی تھی ،بھانت بھانت کی بولیاں بو لنے والے خوا تین وحضرات اس پا رٹی میں جمع ہو گئے جن کا بنا ئے اتحا د کوئی نظر یہ نہیں صرف اقتدار تھا۔جہانگیر تر ین نے محنت ،اعلیٰ سیاسی حکمت عملی سے دوسا ل سے کم عر صے میں تحر یک انصا ف کو ملک کی تیسر ی بڑ ی سیا سی جما عت کے طور پر اپنے پا ئوں پر کھڑاکردیا۔

اس تما م تر جد وجہد کے دوران تر ین صاحب ایک بنیادی اصول بھول گئے جس کے مطابق دوستوں کو تو قر یب رکھو لیکن اس سے زیادہ دشمنوں اور حا سدوں پر کڑ ی نظر رکھو۔دیکھتے ہی دیکھتے تر ین صا حب کے نا قد ین نے لمبی زبانوں سے ان پر تنقید شروع کر دی۔ وزیر اعظم نے اپنے سابق دست راست کے خلا ف زبان نہیں کھولی لیکن صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ شو گر ما فیا کو نہیں چھوڑوں گا۔وہ کو ن ساما فیا تھا جنہیں معا ف کر نے کو خان صا حب تیا ر نہیں تھے ، لگتا ہے کہ اب یہ راز ،راز ہی رہے گا۔

سیا ست میں ایک اصول مسلمہ ہے کہ حاسدوں کی نظر بد اور شرسے بچو۔ تر ین صاحب کا طر یقہ کا ر یہ تھاکہ وہ ہر کام میں مشاورت تو کر تے لیکن وہی کرتے جسے درست اورپا رٹی کے حق میں سمجھتے تھے۔ شاید یہ بدیہی حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئی کہ سیا ست میں مفا د پرستوں کی کمی نہیں ہے۔ ریاکا ری اور دو غلے پن کو ہی سیا ست سمجھا جاتا ہے۔ تر ین صاحب نے عمران خان کی خاطر اپنے بعض قریبی ساتھیوں کو بھی ناراض کر لیا۔

شا ہ محمود قر یشی، جہا نگیر تر ین کے سیا ست میں آنے سے پہلے کے ذاتی دوست تھے لیکن 2018 کے عام انتخابات میں جب وہ پنجاب اسمبلی کی نشست ہا ر گئے تو یہ الزام تر ین صاحب کے سر تھو نپا گیا کہ وہ یہ نہیں چا ہتے تھے کہ قر یشی صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب بنیں لہٰذا انہوں نے کروڑوں رو پے لگا کر قر یشی صاحب کو صوبا ئی نشست ہروا دی۔اصل کہانی تو قر یشی صاحب خو دہی بتا سکتے ہیں کہ جنو بی پنجاب کے معروف اور فعال سیا ستدان ایک نسبتاً نوآمو ز امید وار سے کیسے شکست کھا گِئے لیکن اس شکست کا سا را ملبہ جہا نگیر تر ین پر پڑ گیا۔

پی ٹی آئی کی مر کز ی قیادت کے کئی دیگر رہنما بھی اپنی ریشہ دوانیوں میں لگے رہے لیکن خان صاحب کی مضبو ط لیڈر شپ کی بنا پر پر ایسا ما حول نہیں بن سکا۔ آ ئند ہ چند ما ہ تحر یک انصاف کی حکومت کے لیے چیلنج ہیں، ایک طرف تو اپو زیشن حکومت گرانے کے درپے ہے ، دوسر ی طرف گورننس کے معاملا ت دگرگوں ہیں۔مہنگا ئی ،اشیا ئے ضرورت کی قلت ، سیاسی محا ذآرا ئی اپنے عروج پر ہے۔ بنیا دی بات یہ ہے کہ جب تک حکمران ڈیلیو ر نہ کرپا ئیں اور عوام کے مسائل حل نہ ہوں تو ریا ست کاکا روبار چلانا نا ممکن ہو تا ہے لیکن ڈلیو ر ی کے حوالے سے خان صا حب کی ٹیم خاصی کمزور ہے۔

ہروقت اپو زیشن کو کوسنا اوربر ابھلا کہنا اچھی حکمرانی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ جہا نگیر تر ین نے پا رٹی کی بہت خدمت کی ہے لیکن وہ چند افراد پی ٹی آ ئی کا کلچر نہیں بدل سکتے جو بد قسمتی سے حسن کارکردگی کے بجا ئے محا ذآرا ئی پر زیا دہ یقین رکھتے ہیں۔ خا ن صاحب کو خو شامد ی کلچر کے بجا ئے مخلص اور اہل ٹیم کی زیادہ ضرورت ہے۔

وزیر اعظم کے مشیربرا ئے احتساب شہز ا د اکبر کی ہر بات کی تان جہا نگیر تر ین کو مطعون کر نے پر ٹو ٹتی تھی۔ اب ان سے پو چھا جانا چا ہئے کہ آپ نے جو الزاما ت لگائے تھے ان کے ثبوت پیش کر یں ورنہ ایسے لوگوں کو فارغ کردینا چاہئے جن کاکام سیا سی ما حو ل کو مکد ر کر نے کے سو ا کچھ نہیں۔اسی طر ح سب کو معلوم ہے کہ وزیر اعظم کے پر نسپل سیکر ٹر ی اعظم خان اور تر ین صاحب ایک صفحے پر نہیں ہیں۔

اس محاذ آرائی سے خان صا حب اور ان کی حکومت کو ہی نقصان پہنچتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی رسہ کشی اور مخاصمت کو ختم کیا جا ئے تا کہ کم از کم پی ٹی آ ئی کے دوست عمران خان کی حکومت کی پا لیسیوں کی آبیا ری کرسکیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).