ارنب گوسوامی: نریندر مودی کی جماعت بی جے پی بھی انڈیا کے معروف اینکر کے حامیوں کے نشانے پر


ارنب
انڈیا کے معروف ٹی وی اینکر اور رپبلک ٹی وی کے سربراہ ارنب گوسوامی کی عبوری ضمانت کے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ آج یعنی سوموار کو آ سکتا ہے لیکن دریں اثنا سوشل میڈیا پر گرما گرم مباحثہ جاری ہے۔

بدھ کو ارنب گوسوامی کو ایک دو سال پرانے خودکشی کے مقدمے میں حراست میں لیا گیا تھا اور انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انھیں 14 دنوں کی پولیس حراست کے بجائے عدالتی تحویل میں دیا گیا۔

ارنب گوسوامی کی جانب سے ممبئی کی عدالی (یا بامبے ہائی کورٹ) میں عبوری ضمانت کی درخواست دی گئی جس پر متواتر کئی روز تک سماعت جاری رہی۔ عدالت کا کہنا ہے کہ وہ تمام فریقین کو سنے بغیر اس مقدمے پر فیصلہ نہیں دے سکتی۔

چنانچہ اس مقدمے پر جمعے اور سنیچر کو بھی سماعت ہوتی رہی اور پھر اس مقدمے کے فیصلے کو پیر تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔

ارنب کی گرفتاری کے بعد انڈیا میں حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے شدید تنقید کی گئی اور وزیر داخلہ امت شاہ سمیت دوسرے اہم مرکزی وزیروں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔

جبکہ سوشل میڈیا پر اس دن کے بعد سے روزانہ نئے ہیش ٹیگ کے ساتھ ارنب گوسوامی کی حمایت جاری ہے جبکہ بہت سے صارفین یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ارنب کو انھی کی دوا پلائی گئی ہے تو اس پر اس قدر واویلا کیوں؟‘

یہ بھی پڑھیے

جوشیلے انڈین اینکر کے استعفے پر ہلچل

ارنب گوسوامی پر سوشل میڈیا میں پھر بحث

یس ارنب، بٹ ارنب!

پہلے ارنب گوسوامی کو حراست میں ایک کووڈ سینٹر کے علیحدگی والے وارڈ میں رکھا گیا تھا لیکن انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق جب انھیں مبینہ طور پر موبائل فون کا استعمال کرتے دیکھا گیا تو انھیں تلوجا جیل منتقل کر دیا گیا۔

انڈیا میں سوشل میڈیا پر ان دنوں جو ہیش ٹیگ جاری رہے ان میں ‘آئی ایم ود ارنب’، ‘انڈیا ود ارنب’، ‘ریلیز ارنب’، ‘ارنب گوسوامی’ شامل ہیں۔ یہاں تک کہ ضمانت نہ ملنے اور جیل منتقل کیے جانے پر ارنب کے حامیوں نے تنگ آکر حکمراں جماعت بی جے پی پر تنقید شروع کر دی اور ہندی میں ایک ہیش ٹیگ ‘بی جے پی پر تھوکتا ہے بھارت’ کم از کم پانچ چھ گھنٹے تک ٹاپ ٹرینڈ رہا۔

شروع میں تو بی جے پی کے رہنماؤں اور حکومت کے اعلیٰ وزرا نے ارنب کی گرفتاری کو سنہ 1975 میں انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں سے تعبیر کیا۔

وزیر قانون، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور وزیر ماحولیات سب نے ایک سُر میں ٹویٹ کیا۔ جبکہ مختلف شہروں میں ارنب کو حراست میں لیے جانے کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے۔ اڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے بیان جاری کرتے ہوئے یہ امید ظاہر کی مہاراشٹر کی ریاستی حکومت اس معاملے میں اقتدار کا غلط استعمال نہیں کرے گی اور پورے معاملے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے گی۔

سینیئر صحافی رام بہادر رائے نے ایک سوال کے جواب میں بی بی سی کو بتایا کہ ایمرجنسی جیسے حالات تو نہیں ہیں البتہ ذاتی پرخاش نکالی جا رہی ہے۔ انھوں نے وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کی جانب سے معاملے کو ٹھیک طرح سے ہینڈل نہ کرنے کی بات کہی۔

اس دوران سوشل میڈیا پر ایک صارف، جو بظاہر ارنب کے حامی محسوس ہوتے ہیں، سوال کرتے ہیں کہ ‘ارنب کی زندگی خطرے میں ہے، کیا بی جے پی حکومت بھی ان کو نہیں بچا سکتی؟’

ارنب گوسوامی کی گرفتاری کے بعد کئی جگہ مظاہرے ہوئے

ارنب گوسوامی کی گرفتاری کے بعد کئی جگہ مظاہرے ہوئے

جبکہ دوسری جانب سینیئر صحافی جے شنکر گپت نے پوچھا کہ اس سے قبل جب دوسری ریاستوں میں صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا تھا تو لوگ خاموش کیوں تھے۔

انھوں نے کہا: ‘سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ارنب گوسوامی کے بہانے ہمارے وزرا نے ایمرجنسی کو یاد کرنا شروع کردیا ہے۔ اس سے پہلے صحافی ونود ورما کو چھتیس گڑھ کی پولیس رات کے اندھیرے میں دہلی کے پاس اندرا پورم میں ان کے گھر سے گرفتار کر کے سڑک کے راستے چھتیس گڑھ لے گئی۔ اس کے بعد یو پی پولیس ایک صحافی پرشانت کنوجیا کو دہلی سے گرفتار کرکے لے گئی۔ کچھ دن پہلے ہاتھرس کے واقعے کی رپورٹنگ کے لیے جانے والے کیرالہ کے ایک صحافی کو متھرا کے قریب گرفتار کیا گیا اور ان پر غداری کا الزام لگایا گیا۔ ان تمام واقعات میں، کسی وزیر کو ایمرجنسی یاد نہیں آئی۔’

اس طرح کی باتیں بہت سے صحافی اور دوسرے سوشل میڈیا صارفین بھی کر رہے ہیں۔ معروف ایکٹیوسٹ کویتا کرشنن نے ٹویٹ کیا: ‘بہت حد تک ممکن ہے ارنب کو ضمانت مل جائے گی جو کہ کسی بھی زیر سماعت قیدی کا حق ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کے بعد وہ اپنی قوت اور اثر و رسوخ کا استعمال فادر سٹین، سائی بابا، گوتم نولکھا، عمر خالد اور بہت سے دوسرے لوگوں کی ضمانت کے ہمارے مطالبے کے لیے کریں گے جنھیں بناوٹی الزمات میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے؟’

بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ بالی وڈ اداکار سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے معاملے کو ارنب گوسوامی نے جس زور سے شور سے اٹھایا تھا اور بالی وڈ اور مہاراشٹر کی حکومت کو جس طرح تنقید کا نشانبہ بنایا تھا یہ اسی کا شاخسانہ ہے۔

چنانچہ سوشل میڈیا اور بطور خاص ٹوئٹر پر جنھوں نے سوشانت سنگھ راجپوت کو انصاف دلانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا وہ آج ارنب کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کے متعلق بہت سے میمز شیئر کیے جا رہے ہیں۔

ایک صحافی ساکشی جوشی نے رھیا اور ارنب کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا: ‘کیا کسی نے ان کو ارنب گوسوامی کے خلاف کچھ کہتے/ لکھتے/ ردعمل دیتے/ یا کچھ بھی کرتے دیکھا ہے۔ اسے وقار کہتے ہیں۔ وہ انتقام پرور ہو سکتی تھیں۔ ایسا بمشکل پایا جاتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگر وہ کنگنا ہوتی تو وہ ارنب کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع نہیں گنواتی۔’

دراصل ساکشی نے سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کے بعد ان کی گرل فرینڈ رھیا چکرورتی کے خلاف چلائے جانے والے ٹرول اور ان کی گرفتاری کی مانگ اور اس میں اداکارہ کنگنا رناوت کے بڑھ چڑھ کر حصے لینے کی جانب اشارہ کیا ہے۔

دوگا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘ارنب کو بی جے پی نے چھوڑ دیا۔ کوئی دوسرا چینل ان کی خبر نہیں دکھا رہا ہے’ جبکہ ایک دوسرے صارف سنی سینی نے لکھا کہ ‘بی جے پی ایک قوم پرست پارٹی ہے۔ بی جے پی کے مہاراشٹر میں 105 ایم ایل اے ہیں۔ بی جے پی کے 300 سے زیادہ رکن پارلیمان ہیں۔ پھر بھی بی جے پی ارنب کے معاملے پر ٹوئٹر ٹوئٹر کھیل رہا ہے۔

’اگر نمبر ون چینل کے اینکر کے ساتھ ایسا معاملہ ہے تو عام آدمی کے بارے میں سوچیں؟’

بہت سے صارفین نے انڈیا کی معروف فلم باہو بلی کے ایک سین کا میم تیار کیا ہے اور یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ارنب باہو بلی ہے جسے اس کے آدمی نریندر مودی نے پیچھے سے چھرا بھونک دیا ہے۔

ارنب کی گرفتاری کے معاملے کو لوگ مختلف نظریات سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ بنیادی طور پر ایک قانونی مسئلہ جس میں ایک انٹیریئر ڈیزائنر نے خودکشی سے قبل کے اپنے نوٹ میں تین افراد کا نام لیا ہے اور انھیں اپنی خودکشی کا سبب قرار دیا ہے۔

رپبلک ٹی وی کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ کلوز ہو چکا تھا لیکن انٹیریڑ ڈیزائنر انوے نایک کی بیٹی کا کہنا ہے کہ اسے ان کی تازہ اپیل پر پھر سے کھولا گیا ہے کیونکہ ارنب نے گذشتہ بی جے پی حکومت میں اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے اس بند کروا دیا تھا۔

ارنب گوسوامی پر تعزیرات ہند کی دفعہ 306 کے ساتھ دفعہ 34 کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان دفعات کا کسی کو خودکشی کے لیے اکسانے پر استعمال ہوتا ہے۔

انڈیا میں ارنب گوسوامی کی گرفتاری کے بعد سے صحافت کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، جمہوریت اور قوم پرستی وغیرہ کے متعلق بھی بحث جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp