بس، یہ آخری جملہ…


‘’بس منے، یہ آخری جملہ، پھر میں چلا‘‘۔یہ شاہ صاحب تھے، وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے جس پر وہ بیٹھے ہی کہاں تھے اور آخری جملے کا آغاز کیا۔ جملہ روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے جانے کہاں جا نکلا،پھر نا معلوم شاہ صاحب کب واپس اپنی نشست پر بیٹھے اورکب یہ جملہ کانٹا بدل کر کسی دوسری شاہراہِ پر گامزن ہوا، اس کی خبر شاہ صاحب کو ہوئی، نہ ان کے مصاحبین کو۔ شاہ صاحب کون تھے، کیا تھے، انھیں دیکھنے، ان سے ملنے اور انھیں جاننے والے اپنا اپنا مشاہدہ بیان کر سکتے ہیں لیکن مجھ سے پوچھیں تو وہ داستان گو تھے جہاں بیٹھے، سامعین میسر آگئے جہاں بات شروع کی، وہیںسننے والے سر دھننے لگے۔

ان پر بات کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے جملے کی طرح بات کا سرا تلاش کیا جائے لیکن کون ہے جو اس عشق بلا خیز کا پتہ پائے، وہ شخص سراپا عشق تھا۔ وہ کیسے عشق کا درد تھا جسے اس شخص نے اپنے دل میں جگہ دی؟یہی بات ایک بار میں نے ان سے پوچھ لی۔ شاہ صاحب مسکرائے، جانے پہچانے انداز میں اپنے ہونٹوں کو حرکت دی پھر کچھ سوچتے ہوئے یا پھر بے خیالی میں ہی سگریٹ کی ڈبیا کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ڈھکن کھولتے ہوئے کہا: ’’ عشق کیسا منے، ہم تو ٹھرکی ہیں‘‘۔

’’کیسا ٹھرک شاہ صاحب‘‘؟

اس سوال پرشاہ صاحب پھر خاموش ہوگئے اور اسی خاموشی میں راول پنڈی کے اُس علاقے کی طرف جا نکلے جہاں کبھی نیپ (متحدہ پاکستان زمانے کی نیشنل عوامی پارٹی) کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ شاہ صاحب اسی نیپ کے سرفروش مجاہد تھے۔ اتنی بات تو بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ شاہ صاحب نیب کے راستے مولانا مودودی ؒتک پہنچے لیکن وہ کیا حادثہ تھا جس نے مولانا بھاشانی کے مرید کو اپنا پیر بدلنے پر مجبور کردیا؟

اس سوال کا براہ راست جواب ذرا مشکل ہے، ہمارے بزرگ ایسی مشکلیں تمثیلوں سے آسان بنایا کرتے تھے۔ شاہ صاحب اور ابا یعنی ان کے برادر بزرگ حکیم محمود احمد سرو سہارن پوری، دونوں شاعر تھے اور وہ بھی قادر الکلام، کسی کور ذوق سے ان کا سامنا ہوا تو وہ بد بخت جانے کس پینک میں کہہ بیٹھا کہ سعود کی شاعری تو دراصل ان کے بڑے بھائی کی شاعری ہے۔

یہ الزام شاہ صاحب نے بڑے سکون کے ساتھ سنا، تلخی سے مسکرائے اور کہا کہ اچھا تم ایسا سمجھتے ہو توآج سے شاعری بند۔ شاعری بند ہو گئی اور وہ نثر میں رواں ہو گئے، نثر نیز داستان گوئی۔ شاعری سے کنارہ کشی کی طرح نظریے سے جدائی کا سبب بھی کچھ ایسا ہی تھا، جس کسی شخص سے ان کا پالا پڑا ہوگا، وہ بھی کچھ ایسا ہی کور ذوق رہا ہو گا کہ یہ جانے بغیر کہ مخاطب کون ہے، ان کے سامنے زمین آسمان کے قلابے کچھ یوں ملا بیٹھا کہ طبیعت منغض ہوگئی اور شاہ صاحب اپنے کامریڈ رہنما کو سرخ سلام کر کے سیڑھیاں اتر آئے۔

’’اس کے بعد جانے کیا ہوا کہ خود بخود راستے بنتے چلے گئے اور میں مولانا مودودیؒ تک جا پہنچا‘‘۔

شاہ صاحب کے جملے میں اک ذرا وقفہ ہوا تو جلدی سے میں نے پوچھ لیا :’’پھر‘‘؟

’’پھر کیا، اب میں مودودیؒ کا ملنگ ہوں‘‘۔

سن بانوے کی سردیوں کی بات ہوگی، سانولے سلونے آصف فاروقی کو انھوں نے طلب کیا اور کہا، منے، صحافت تو تمہیں کرنی ہی ہے لیکن میں چاہتا ہوں، یہ کام ذرا شعوری انداز میں کیا جائے۔

’’ٹھیک ہے سر‘‘۔آصف نے فرماں برداری کے ساتھ کہا اور پوچھا کہ یہ کیسے ہوگا؟ ایسی باتوں اور ایسے سوالات پر شاہ صاحب کچھ ایسا منہ بناتے کہ انھیں پہلی بار دیکھنے والا سمجھتا کہ یہ تو بیزار ہو گئے، اب آئی شامت، لیکن ذرا سے ثانیے کے بعد شاہ صاحب دائیں ہاتھ کو الٹا کر ہتھیلی آگے بڑھاتے اور اس کی انگلیوں کو نیچے سے اوپر کچھ یوں حرکت دیتے جیسے کہتے ہوں کہ دفع ہو جاؤ لیکن وہ خوش قسمت جو ایسے مواقعے پر ’’دفع‘‘ نہیں ہوتے تھے، جانتے تھے کہ یہ اشارہ دفع ہونے کا نہیں، دامن محبت سے کچھ پانے کا ہے۔ اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا، شاہ صاحب نے کہا کہ یہ بات تو ڈاکٹرمغیث الدین شیخ سے پوچھنی پڑے گی۔

اگلی صبح شاہ صاحب معہ اپنے مریدوں کے لاہور میں تھے، اس سے پہلے کہ نیو کیمپس جانے کے لیے چار نمبر (ویگن) پکڑتے، کسی اور نمبر کی قسمت جاگی اور قافلہ 5 اے ذیلدار پارک جا پہنچا۔ سردیوں کی چمکتی ہوئی دھوپ میں اس تاریخی عمارت کے مختصر لان میں دو چیزیں بہت نمایاں تھیں، سبزے کی چادر اوڑھے سویا ہوا سید ابوالاعلیؒ کا مرقد اور مونج کی نیم سنہری چمکتی ہوئی صفیں۔ آصف اور میں نے وضو بنایا، جیسے روایت ہے، قبر کے پہلو میں احترام سے کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کی اور آگے بڑھ گئے لیکن پلٹ کر دیکھا تو سمجھ میں آیا کہ مذہب عشق کسے کہتے ہیں اور ملنگ کیسا ہوتا ہے۔

اسی شام مسافروں نے داتاؒ کی خدمت میں بھی حاضری دی۔ مودودیؒ کا ملنگ اِس دیار پر بھی اتنے ہی جلال میں تھا۔ عرض کیا کہ قبلہ، مودودیؒ اور داتاؒ، یہ دو الگ الگ دنیائیں، الگ الگ مدرسے ہیں لیکن ہم ناسمجھوں کو آپ کا جذب و سلوک دونوں جگہ ایک سا لگا ، یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں؟

شاہ صاحب جب چلتے چلتے بات کرتے تو کون جانے وہ کب کھڑے ہو کر اس کائنات کی الجھی ہوئی گھتیاں سلجھانے لگیں۔ یہ سوال جب ان کے کان میں پڑاتو ان کا بایاں قدم اس بابرکت چوکھٹ سے باہر تھا اور دایاں اندر، وہیں کھڑے ہوگئے۔ یہ دربار کی قدیمی عمارت کا وہ چبوترا تھا جس کی مختصر سیڑھیاں اُس طرف اترتی تھیں جس طرف پیر کرم شاہ صاحب علیہ رحمہ کا مکتبہ ہے۔ شاہ صاحب رکے، عادت کے مطابق ہونٹوں کو حرکت دی پھر بڑی گمبھیرتا کے ساتھ کہا، منے، تم نہیں سمجھو گے، یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں، بس ذرا ڈیوٹیوں میں فرق تھا۔

صلاح الدین صاحب نے روزنامہ چھوڑا اور ہفت روزے کی صورت میں نیا ٹھکانا خود بنایاتو اس سفر کے بیچ آنے والے سارے پڑاؤ تلخی سے بھرے ہوئے تھے، یہ صرف شاہ صاحب کی ذات تھی جس نے ان رشتوں کے سارے تقاضے بکمال و تمام اس طرح نبھائے کہ انتہاؤں کو چھوتی ہوئی تلخیاں گوارا ہوتے ہوتے محبتوں میں بدل گئیں۔

کچھ ایسا ہی رویہ انھوں نے سیاست میں بھی اختیار کیا۔دائیں اور بائیں کی تقسیم کے بارے میں ہنستے ہوئے اگرچہ کہا یہی کرتے تھے کہ ایف سکسٹین اِن دونوں کا کریش کر چکا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کہا کرتے کہ روز ِحشر اعمال نامہ چوں کہ دائیں ہاتھ میں تھامنے کی آرزو ہے،اس لیے اپنے دل کا ٹھکانا بھی اسی جانب ہے۔اس کے باوجود کہ پاکستان کے دائیں بازو کی پرانی ترتیب بکھر چکی، صرف اہلِ جماعت نے ہی راستے جدا نہیں کیے بلکہ دائیں بازو کی مسلم لیگ بھی حصوں میں ایسی بٹی کہ کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں۔

حلقہ یاراں میں ایسی نرمی کا یہ خوگر جب اپنے پیشے کا منصب سنبھالتا تو اس کے تیور ہی بدل جاتے۔ مارشل لا لگانے کے بعد جنرل ضیا نے مدیران جرائد اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کی تو اس نشست میں شاہ صاحب بھی موجود تھے۔جنرل ضیانے دائیں بازو کے اخبارات اور صحافیوں کی دل کھول کر تعریف کی ، ماضی کے حکمرانوں سے جنھوں نے جم کر لڑائی لڑی اور مشکلات کا سامنا کیا۔ جنرل ضیا نے کہاکہ وہ دور بیت چکا،اب ہم رواداری اور برداشت کے ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔ یہ سنتے ہی شاہ صاحب اٹھ کھڑ ے ہوئے کہاکہ آپ غلط کہتے ہیں۔

انھوں نے سیکریٹری اطلاعات مسعود نبی نور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک آپ کے دائیں بائیں ایسے لوگ موجود ہیں، صورت حال کبھی بدل نہیں سکتی۔نئے نویلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی اچھی بھلی پریس کانفرنس انتشار کا شکار ہوگئی۔ چائے کی میز  پر جنرل صاحب نے شامی صاحب سے گلہ کیا کہ یہ کیسے پاگل لوگ آپ نے جمع کر رکھے ہیں؟ شامی صاحب نے شاہ صاحب کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ان پاگلوں کے بل بوتے پر ہی تو ہم نے وہ لڑائی لڑی جس کی ابھی آپ تعریف فرما رہے تھے ۔ یہ سننے کے بعد جنرل صاحب نے کچھ کہنے کے بجائے چائے کی پیالی ہونٹوں سے لگانی مناسب سمجھی۔

یہ سب واقعات میرے ذہن میں کسی فلم کی مانند چلتے ہیں اورمیں سوچتا ہوں کہ اس شخص کی زندگی کو کیا عنوان دوں؟ اسی لمحے شاہ صاحب مسکراتے ہوئے میرے سامنے آتے ہیں اور کہتے ہیں:’’بس منے، آخری جملہ۔۔۔‘‘وہ جملہ جو انھوں نے شاہوں کے دربار میں کہا تو زلزلے بپا ہوئے اور ہم نفسوں کی محفل میں ادا کیاتو پھول کھل اٹھے، ہاں، مگر وہی ایک جملہ جسے مکمل کرنے والا اب کوئی نہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).