عظیم مینیجر کے کالے کرتوت


رات ہم سب بہن بھائی بیٹھے خبریں دیکھ و سن رہے تھے۔ الیکشن سے سلیکشن کے بعد تک اور وائٹ ہاؤس سے بلیک ہاؤس تک کے سارے کارنامے بتانے کے بعد جب مقامی کارناموں کا آغاز ہوا تو تین خبریں سر جھکانے کو کافی تھیں

پہلی خبر تھی والدین نے بیٹی کو پسند کی شادی کر نے کی پاداش میں پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔

دوسری خبر میں وڈیرے نے غریب کی بیوی اغوا کی ہوئی تھی اور پیسے لے کر بھی واپس نہیں کی، اور وہ ہاتھ جوڑ کے بے حس سیاست دانوں اور عدالتوں سے انصاف اور مدد کی بھیک مانگ رہا تھا۔
یہ تو تھیں دو ان پڑھ گھرانوں یا افراد کی خبریں۔

تیسری خبر جس کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے ”عظیم مینیجر کے کالے کرتوت“

سب ثبوت موجود ہیں۔ مینیجر صاحب پکڑے بھی گئے ہیں۔ مگر گرفتاری کے بعد بھی جو فوٹو سامنے آ یا ہے۔ اس میں چہرہ چھپا ہوا ہے۔ ایسے حسین چہرے تو بے نقاب ہو نے چاہئیں۔ تاکہ گلی گلی میں شور ہو ”وہ جا رہا ہے مینیجر“ تاکہ جس ہو ٹل میں جائے کہا جائے ”مینیجر آ گیا“ تاکہ رشتہ دار فخر کر سکیں، ہائے ہمارا مینیجر۔ ماں بہن واری جا سکیں ”ہائے صدقے میرے مینیجر“ ۔

ہم سب اس موضوع پہ بحث کر نے لگے کہ یار اس کا حل کیا ہو سکتا ہے۔

تو ہمارے بھائی نے ایک کمال بات کی ان کو سزا تو ملنی نہیں ہوتی۔ نیا قانون بننا چاہیے کہ ان کے گھروں کی پیشانی پہ ایک سرکاری تختی لگا دی جائے کہ اس شخص نے اس تاریخ اور سن میں یہ کارنامہ سر انجام دیا تھا۔ اور اس کے کارنامے کے ساتھ ایک یو ٹیوب چینل یا کوئی سرکاری چینل جو بھی ان واقعات کی مانیٹرنگ کر تا رہے۔ اور آویزاں تختیوں کی حفاظت کرتا رہے۔ وہ اپنی سائٹ پہ اس گھر کی پیشانی کی تختی سمیت اس کے کرتوت کی ویڈیو بھی لگا دیں۔

یوں ترسے پرسے لوگ بار بار نہ صرف یہ ویڈیوز دیکھیں گے، نہ صرف اس کے گھر کی پیشانی پہ لگی تختی اس کی اور اس کے گھرانے کی ایک شناخت بنے گی۔ اس سے حکومتی رشوت خوروں کو نیٹ ورکی دولت بھی ملے گی۔ اور وہ لوگ بھی ”شخصیات مکروہ“ میں شمار ہو جائیں۔

گویا بدنام جو ہوئے تو کیا نام نہ ہو گا؟

یہ پیشانی کی تختی کافی مفید کام کرے گی۔ کہ ان گھرانوں کا سوشل بائیکاٹ ہو نے لگا گا۔ نہ کوئی ان کے گھر بیٹی دینے کا سوچے گا، نہ کوئی ان کی بیٹی لے کر جانے کی خواہش کرے گا۔ تب والدین کو اپنے لاڈلے پوت دیکھ کر شاید اپنی تربیت ندامت ہو نے لگے۔ ممکن ہے کچھ والدین کو خوشی بھی ہو۔ کہ بیٹا تم نے تو سکندر سے بڑا کام کر دیا۔

مگر نہ تو یہ ہو گا، نہ وہ ہو گا۔

چند دن بعد مینیجر رہا ہو کر کسی اور جگہ نوکری پہ لگ جائے گا اور کسی اور بیٹی سے دست درازی کرنے لگے گا۔ کیونکہ اب وہ اس ”کتے“ کی طرح ہے جس کو خون لگ چکا ہے۔

اور اس سب کے باوجود روایتی مردانہ طبقہ یہ کہتا دکھائی دے گا۔ اس عورت نے ری ایکٹ کیوں نہیں کیا؟ یہ اس سب کی عادی ہے۔ کرواتی رہتی ہے۔ جیسا کہ ابھی ہر دوسری پوسٹ پہ مردوں کا موقف یہی دکھائی دے رہا ہے۔ عورت کا موقف ”لعنت، ہے۔

مگر لعنت کے ساتھ کنکر مارنے بھی فرض تصور کریں۔

کالے کرتوتوں کی کالی حمایت کر نے والو، اس عورت نے ری ایکٹ اس لئے نہیں کیا کہ ہمارے سماج میں عورت کو خاموش رہنے کا درس دیا جاتا ہے کہ اس سے مرد کی بد نامی نہیں ہو گی۔ عورت کی ہو گی۔ پہلے تو یہ سوچ بدلنا ہے کہ بد نامی مرد کی بھی ہوتی ہے۔

دوسرے مینیجر کے حامیو، تم بھی اصل میں مینیجر ہو۔

اور جو لوگ اس مینجر کے حق میں دلیل دے رہے ہیں کہ ہم نے یونیورسٹیوں میں دیکھا ہے جب تک عورت موقع نہیں دے۔ مرد کی ہمت نہیں ہوتے۔ تو ایسے ”عاشقان مینیجر“ سے عرض سے صاحب ہم بھی چھولے دے کر نہیں پڑھے۔ ہم نے مردوں کو سٹوڈنٹس پہ حملے کرتے بھی دیکھا ہے۔

ہمیں امہ امہ اکا برقعہ پہنا کر خود چمہ چمہ کے چسکے کرتے بھی دیکھا ہے۔ اور لڑکیوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے بھی دیکھا ہے۔ جو عورت خود موقع دیتی ہے۔ وہ اشارہ بھی کر دیتی ہے ”سر جی کہیں ملتے ہیں نا“ اس کو سر عام تماشا بننے کی کیا ضرورت ہے۔

اور بتائے کیا آپ اپنے گھر کی عورت کو کہتے ہیں بٹیا کوئی ہراساں کرے تو ری ایکٹ کرنا۔

ارے کملو جانے دو ہم عورتوں کو تو تمہاری باڈی لینگویج بتا دیتی ہے۔ کتنی اوقات کے مالک ہو۔ اور کمینہ بھی جب اپنی کرسی سے اٹھا تھا۔ اس کی پتلون پھٹنے والی تھی۔ مگر وہ اکیلی عورت تین چار مردوں میں کھڑی تھی۔

پچھلے دنوں تنولیات میں مرد کے حوالے سے پڑھا کہ کرکٹ میں پہلا Testicular guard 1874 میں استعمال ہوا جب کہ پہلا ہیلمٹ پوری ایک صدی کے بعد یعنی 1974 میں استعمال کیا گیا۔ تو حضرت سماج آپ نے ہمارے دماغ کو تو ماننا نہیں اور ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا اپنا یہ حصہ بھی کوئی اہمیت رکھتا ہے آپ کو کم از کم ایک صدی بعد علم ہو تا ہے۔ تب تک آپ کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔
آپ سے عرض ہے اپنی بیٹیوں کو ری ایکٹ کرنا سکھائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).