کشمیر: 23 برس بعد رہا جھوٹے مقدمے سے رہا ہونے والے شخص کی کہانی


سری نگر کے 'نام چھابل' علاقے میں چالیس سالہ مرزا نثار حسین کے تین منزلہ گھر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے آپ کی نظر گھر کی دیواروں پر پڑی دراڑوں پر جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دیواریں مرزا خاندان کے ساتھ ہوئے سانحے کی داستان بیان کررہی ہیں۔

23 برس قبل دو شدت پسندانہ حملوں کے سلسلے میں مرزا نثار سمیت ان کے خاندان کے دو بیٹوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس کے بعد نثار کے خاندان پر جو گزری اس کی داستان ان کے گھر کی دیواروں پر عیاں نظر آتی ہے۔

سنہ 1996 کی بات ہے۔ اس وقت نثار کی عمر 16 برس تھی۔ پولیس نے انہیں نیپال سے گرفتار کرلیا تھا۔ ان پر انڈیا کے مختلف شہروں میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان الزامات کے سلسلے میں 23 برس جیل میں گزارنے کے بعد آخرکار ریاست راجستان کی ہائی کورٹ نے انہیں 22 جولائی 2019 کو رہا کردیا تھا۔ عدالت نے ان پر عائد سبھی الزامات خارج کردیے گئے۔

سری نگر میں اپنے گھر کے اندر بیٹھے بات کرتے ہوئے نثار اپنے 23 برس پہلے کے ماضی میں کھو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ایک بڑی طویل اور ہولناک کہانی ہے۔ بھائی اور میری گرفتاری نے میرے خاندان سے بہت کچھ چھین لیا۔‘

وہ دن جب سب کچھ بدل گیا

نثار بتاتے ہیں، ’23 مئی 1996 کا دن تھا۔ اس دن ہمارے لیے سب کچھ بدل گیا۔ میں اپنی قالین کے خریدار سے رقم لینے کے لیے نیپال گیا ہوا تھا۔ خریدار نے دو دن رکنے کے لیے کہا۔ ہم رک گئے۔ اگلے دن میں میں اپنے ساتھ کام کرنے والے دو لوگوں کے ساتھ ٹیلی فون بوتھ جارہا تھا۔ مہاراجہ گنج کے چوراہے پر ٹیلی فون بوتھ تک پہنچنے سے پہلے ہی پولیس آئی اور ہم لوگوں کو پکڑکر لے گئی۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں، ’پولیس نے ایک شخص کا فوٹو دکھایا اور پوچھا، اسے پہنچانتے ہو؟ میں نے کہا، ہاں۔ اپنی رقم کے لیے میں ایک دن پہلے ہی اس شخص کے پاس گیا۔ پولیس ہمیں لیے کر دلی کی لودھوی کالونی پہنچی۔‘

اسی دن نثار اور ان کے بھائی مرزا افتخار حسین کو دلی میں ہی گرفتار لیا گیا۔ نثار اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’جب دلی کی پولیس نے پوچھ گچھ کی اور تفتیش والے اندھیرے کمرے میں میرا اپنے بھائی سے آمنا سامنا ہوا تو میں نے انہیں گلے لگالیا اور میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے؟`

نثار کے بڑے بھائی کو دلی کے لاجپت نگر علاقے میں ایک بم دھماکے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سری نگر میں اپنے گھر پر موجود افتخار کہتے ہیں۔ ’آپ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں کہ ہم پر کیا گزری- دو دو مقدمے لڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہمارا سب کچھ ختم ہوگیا۔‘

ایک کو رہائی، ایک کو سزائے موت

سنہ 1996 میں جنوبی دلی کے علاقے لاجپت نگر کی مشہور مارکیٹ میں جو کہ عام طور پر بہت مصروف بازار ہے وہاں ایک ہولناک بم دھماکہ ہوا تھا جس میں 13 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے تھے۔

نثار اور افتخار پر بم دھماکے کے لیے دھماکہ خيز مواد کا بندوبست کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

نثار نے بتایا کہ پولیس نے دونوں بھائیوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے میں پانچ برس لگا دے۔ جیل میں 14 برس گزارنے کے بعد 2010 میں دلی کی ایک عدالت نے نثار اور دو ديگر کشمیری نوجوانوں کو سزائے موت سنائی۔ مرزا افتخار اور چار ديگر افراد کو رہا کردیا گیا۔

افتخار بتاتے ہیں، ’2010 میں ہم نے سزائے موت کے خلاف اپیل کی۔ 2012 میں دلی ہائی کورٹ نے نثار اور ایک دیگر ملزم محمد علی کو رہا کردیا۔‘

نثار بتاتے ہیں عدالت میں سبھی 16 گواہ مکر گئے اور انھوں نے کہا وہ ملزمان اور اس مقدمے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں۔

مرزا بھائیوں کا مقدمہ لڑنے والی نامور وکیل کامنی جیسوال نے بی بی سی ہندی کو بتایا انہیں ناکافی ثبوتوں کی وجہ سے چھوڑا گیا۔

کامنی جیسوال مزید بتاتی ہیں ’نثار اور ديگر افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس میں کوئی ثبوت ہی نہیں تھے۔‘

افتخار نے بتایا کہ دلی یونیورسٹی کے پروفیسر مرحوم ایس اے آر جیلانی نے انہیں کامنی جیسوال سے ملوایا تھا۔ پروفیسر جیلانی کو 2005 میں انڈیا کی پارلیمان میں ہوئے شدت پسندانے حملے کے معاملے میں نا کافی ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا گیا تھا۔

ایک مقدمے میں رہائی، دوسرے میں گرفتاری

یہ بھی پڑھیے:

چھرّوں سے نابینا ہونے والی انشا نے میٹرک کر لیا

کشمیریوں کا پرتشدد فوجی کریک ڈاؤن کا الزام

افتخار کہتے ہیں، ’اس معاملے میں بھی راجستھان کی مہووا سیشن کورٹ میں 14 برس بعد چارج شیٹ داخل کی گئی۔ مقدمہ 2014 تک چلا اور اسی برس اکتوبر میں عدالت نے سب کو عمر قید کی سزا سنائی۔ صرف ایک ملزم جس کا نام فاروق خان تھا اس کو رہا کیا گیا۔‘

سنہ 2014 میں راجستھان ہائی میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی۔ یہ مقدمہ وہاں جولائی 2019 تک چلا۔ 23 جولائی کو عدالت نے نثار کو سبھی الزامات سے بری کردیا۔ ان کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ پولیس اور استغاثہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

نثار کو اخبار سے معلوم ہوا کہ عدالت نے راجستھان دھماکے کے معاملے میں انہیں بری کردیا ہے۔ نثار بتاتے ہیں، ’اتنے برس جیل میں رہنے کے دوران ہمیں صرف ایک چیز سے خوشی ملتی تھی اور وہ تھے اخبار میں شائع ہونے لطیفے۔‘

مرزا خاندان کے لیے لیےصدمے پر صدمے

نثار بتاتے ہیں ، ’افتخار کو حالانکہ 2010 میں سبھی الزامات سے بری کردیا گیا ان پر ہمیں رہائی دلانے کی بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ انہیں کشمیر میں ملازمت مل گئی تھی لیکن مقدمے کے سلسلے میں دلی جانا پڑتا تھا جس کے نتیجے میں ملازمت چھوٹ گئی۔‘

آخرکار 24 جولائی 2019 کو نثار اپنے گھر پہنچے۔ ان کے گھر پہنچنے کے ایک ہفتے بعد انڈین حکومت نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا جس کے بعد کئی مہینوں تک وہاں کرفیو جیسے حالات تھے۔ لوگوں کی نقل و حرکت محدود تھی، انٹرنٹ بند اور پوری وادی کشمیر میں فوج کی زبردست تعیناتی نے عام زندگی کو پہلے کے مقابلے بے حد مفلوج کردیا تھا۔

اس کے بعد رواں برس مارچ میں کورونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔

ایک ہی برس کے اندر دو دو لاک ڈاؤن کی وجہ سے نثار اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے ٹکڑے بھی نہیں سمیٹ سکیں۔

نثار ویسے تو اب آزاد ہیں لیکن رہائی کے بعد اپنے اطراف اور اپنی ریاست میں جو ماحول دیکھ رہے ہیں اس کے بارے میں فکرمند بھی ہیں اور مایوس بھی۔

نثار بتاتے ہیں، ’شروع میں سڑک پر چل بھی نہیں پاتا تھا کیونکہ اتنے عرصے جیل میں رہنے کے بعد میں سڑک پر چلنا ہی بھول گیا تھا۔ جب میرے سامنے کوئی موٹر سائیکل آتی تھی تو بھاگ کر دور کھڑا ہوجاتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے موٹر سائیکل مجھے روند دے گی۔`

وہ مزید بتاتے ہیں، ‘جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میری والدہ اور میرے خاندان والوں نے میری غیر موجودگی میں 23 برس کیسے گزارے تو میں کانپ اٹھتا ہوں اور رات کو سو نہیں پاتا۔`

نثار کی والدہ کی خواہش ہے کہ وہ ان کا بیٹا اب شادی کرکے اپنا گھر بسا لے لیکن بغیر ملازمت کے گرہستی شروع کرنا آسان نہیں ہے۔

نثار نے صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ جس برس ان کو گرفتار کیا گیا تھا اس برس وہ تعلیم چھوڑ کر قالین کے اپنے خاندانی کاروبار میں اپنے بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے دلی چلے گئے تھے۔

نثار اپنے علاقے کے ایک متوسط کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد قالین کا کاروبار کرتے تھے۔ ان کے بھائی نے دلی میں یہی کاروبار کرتے تھے اور اپنے بزنس سے خوش تھے۔ مگر اب نثار کو ملازمت حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

نثار بتاتے ہیں، ’جیل سے رہائی کے بعد شروع میں سب نے ہمدردی دکھائی لیکن بعد میں جب بھی لوگوں سے ملتا تو ہر کوئی یہی سوال پوچھتا، اب آگے کیا پلان ہے؟ یہ سوال مجھے بے حد پریشان کرتا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک جیل سے دوسری جیل میں آگیا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp