گلگت بلتستان کا سیاسی منظرنامہ


گلگت بلتستان الیکشن میں اب صرف چند ہی دن رہ گئے ہیں۔ یہ اس خطے کے تیسرے عام انتخابات ہیں۔ آج سے تقریباً 10 برس قبل پہلی بار یہاں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ یہ انتخابات اس وقت کی حکومت نے گلگت بلتستان کو نیم صوبائی حیثیت دے کر یہاں منعقد کرائے۔ اس طرح سے یہاں بیوروکریسی کے نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ اس زمانے میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ان انتخابات میں پی۔ پی کے کارکن جناب مہدی علی شاہ وزیر اعلٰی منتخب ہوئے اور ڈاکٹر شمع خالد کو گورنر گلگت بلتستان مقرر کر دیا گیا۔

اس دفعہ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی الیکشن مہم چلانے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود ہی گلگت بلتستان پہنچ گئے۔ انھوں نے اپنی کمپین مشرق میں سرحد پر واقع پہلی ڈسٹرکٹ گانچھے سے آغاز کیا۔ ان کے جلسے میں سکردو کے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان میں الیکشن کی گہما گہمی کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جس نے یہاں سے ایف۔ سی۔ آر کا خاتمہ کیا۔ راجہ شاہی نظام کا خاتمہ کیا، گندم پر پہلی بار سبسڈی دی، تعلیمی اداروں میں کوٹہ کے ذریعے یہاں کے طالب علموں کے لیے اعلٰی تعلیم کا حصول ممکن بنایا اور اپنی آخری حکومت کے دوران یہاں صوبائی طرز حکومت متعارف کرا کر لوگوں کو ان کا اپنا گورنر، وزیر اعلٰی اور اسمبلی دی۔ اس دوران بلاول بھٹو گلگت بلتستان اور کشمیر کے طلبا کے لیے سندھ کی چند یونیورسٹیوں میں کوٹے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔

وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈاپور نے اپنی کمپین کا آغاز جنوب کے جڑواں علاقوں تا گیر اور داریل وغیرہ سے کیا۔ ان کا پہلا جلسہ تانگیر میں ہوا جس میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے لیے پی۔ ٹی۔ آئی کی حکومت سے زیادہ مخلص کوئی حکومت نہیں۔ اپنے مذہبی جذبات کے اظہار کے بعد انھوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو مخلصانہ مشورہ دیا کا وہ استخارہ کریں اور جس کا نام نکلے اسی کو ووٹ دیں۔

داریل اور تانگیر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے لوگ نہایت حریت پسند واقع ہوئے ہیں۔ اپنے علاقے کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے انگریزوں اور سکھوں کے خلاف جدوجہد بھی خوب کی۔ اور پاکستان کے ساتھ 1974 میں مشروط الحاق کیا۔ مختلف مقامات پر کیے گئے جلسوں میں علی امین گنڈا پور نے اہالیان گلگت بلتستان سے ترقیاتی منصوبے اور جیتنے کی صورت میں اربوں روپے فراہم کرنے کے وعدے کیے۔

وزیر اعظم عمران خان بھی آزادی کی تقریبات میں شرکت کے لیے یکم نومبر کو گلگت بلتستان میں آن موجود ہوئے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ انھوں نے غریب عوام کی مدد اور ڈیولپمنٹ کی بات کی اور ہندوستان کے کشمیر سے حق ملکیت کا قانون ختم کرنے کی مذمت کی۔ انھوں نے استور میں نیشنل پارک کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ مگر جلد ہی نگران وزیراعلٰی میر افضل خان نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے عمران خان کے صوبہ بنائے جانے کے اعلان کی تردید کردی۔

صوبائی حیثیت دیا جانا یہاں کی عوام کا ایک پرانا مطالبہ رہا ہے۔ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی نے وعدہ کیا ہے کہ الیکشن جیت کر وہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائیں گے۔ استور کے جلسے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گلگت بلتستان کے عوام کو حق حاکمیت، حق ملکیت اور حق روزگار دلانے کی بات کی۔ حق حاکمیت اور حق ملکیت اہالیان گلگت بلتستان کے ہر طبقے اور طول و عرض میں رہنے والے ہر باشندے کا مطالبہ ہے اور سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو حق ملکیت و حق حاکمیت ضرور ملنا چاہیے۔ قراقرم یونیورسٹی میں ہونے والے ایک مباحثے کے دوران پی۔ پی کے امیدوار امجد ایڈووکیٹ نے تین ماہ کے اندر گلگت بلتستان کو حق حاکمیت اور حق ملکیت دلانے کا وعدہ کیا۔ ن لیگ کے امیدوار اور سابقہ وزیر اعلٰی حافظ حفیظ الرحمٰن نے اپنی پانچ سالہ دور حکومت کی کارکردگی کے بنا پر ووٹ مانگے۔

رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس کی بادشاہت میں موجود کوئی بھی غیر آباد زمین خلاصہ سرکار کی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔ رفتہ رفتہ خلاصہ سرکار نے یہاں ایک اصطلاح کی صورت اختیار کرلی۔ اب اس سے مراد وہ زمین ہے جو کسی گاؤں یا قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔ ایسی زمین اس گاؤں یا قبیلے سے باہر کے کسی فرد کو نہ الاٹ کی جا سکتی ہے اور نہ بیچی جا سکتی ہے۔ اور نہ ہی گورنمنٹ کی اجازت حاصل کیے بغیر یہاں کوئی ادارہ کسی قسم کی تعمیرات کر سکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ نیم اشتراکی نظام ہے اور یہاں کی تمام املاک اور اراضی عوامی ملکیت سمجھے جاتے ہیں۔

اسی اثنا میں مریم نواز بھی گلگت بلتستان دورے پر پہنچ گئیں۔ ن لیگ کے کئی امیدواروں کو پی۔ ٹی۔ آئی اپنی صفوں میں جگہ دے چکی ہے۔ مریم نواز نے عوام سے کہا کہ وہ لوٹوں کو اس بار الیکشن میں ناکام بنائیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد صاحب پچھلے تین سال گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے پر کام کرتے رہے ہیں۔

قوم پرست جماعتوں میں بلاورستان نیشنل فرنٹ کے لیڈر نواز خان ناجی نمایاں ہیں جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی لیڈر بابا جان آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ بابا جان کی گرفتاری گلگت بلتستان میں اپنی طرز کا پہلا واقعہ ہے اور ہنزہ سمیت دوسرے علاقوں کے نوجوانوں میں بھی اس حوالے سے رنج و غم پایا جاتا ہے۔

حال ہی میں گلگت بلتستان چیف کورٹ نے تمام وفاقی وزرا اور قومی اسمبلی ممبران کو گلگت بلتستان سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ یہ الیکشن کے ضابطہ اصولوں کے خلاف ہے۔ لیکن تاحال کسی نمائندے نے الیکشن کمیشن کے اس حکم پر عمل نہیں کیا ہے۔ اور تینوں وفاقی پارٹیوں کے نمائندے جلسوں میں خوب سرگرم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).