حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں بڑھتی کشیدگی


حالیہ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن اور ریپبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ میں ایک گھمسان کا رن پڑا جس میں جو بائیڈن نے الیکٹورل کالج کے مقررہ ہدف کو ایک سخت مقابلہ کے بعد حاصل کر لیا اور اسی طرح پاپولر ووٹوں میں تو اور زیادہ سخت مقابلہ ہوا اور ماسوائے ووٹوں کی گنتی کے آخری دن کے جس میں بائیڈن نے برتری حاصل کی اس سے پہلے تک تو محض چند ہزار ووٹوں سے بائیڈن کو برتری حاصل تھی۔ اس طرح ڈیموکریٹ پارٹی کی حکومت تو یقیناً بن جائے گی لیکن ایک تو اس کو نہ صرف کانگریس میں شدید مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ عوام سے بھی اٰس کو شاید مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ بالخصوص حالیہ انتخابات میں بہت زیادہ پولرائیزیشن یا باہمی انتشار دیکھنے میں آیا ہے۔

اب تک ریپبلیکن پارٹی کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات بھی لگے ہیں جس میں مردہ افراد کے ووٹ ڈلنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں اور کچھ مقامات پر تشدد کے واقعات بھی ہوئے ہیں لیکن ان کے بڑھنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ امریکہ تو صف اول کے ان ممالک میں شامل ہے جو بذات خود نظریاتی طور پر اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کا سب سے بڑا حامی ہے اور جس نے بزور بازو بہت سارے ممالک میں نجی شعبہ کی بحالی اور اسی سرمایہ دار جمہوریت کے فروغ کے لئے فوج کشی تک کی ہوئی ہے چاہے ان ممالک کے لوگ اس نظام کے حق میں ہوں یا نہ ہوں تو پھر اتنی شاندار جمہوریت کے اوپر خود امریکہ میں کیوں سوالیہ نشان بننے شروع ہو گئے ہیں، دوئم ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں نام نہاد لبرل دانشور اکثر یہ کہتے ہیں کہ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کے لئے عوام کا تعلیم یافتہ ہو نا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگ باشعور ہو کر اچھی قیادت چنتے ہیں اگر یہ بات درست ہے تو پھر امریکہ اور یورپ میں لوگوں نے پاپولیسٹ اور نیم فاشسٹ حکومتیں کیوں منتخب کرنی شروع کر دیں ہیں، سوئم آمریت کے حامی یہ کہتے نظر آتے ہیں تیسری دنیا کی اقوام نسلی اور عقلی اعتبار سے اتنی پچھڑی ہوئی ہیں کہ یہ جمہوری طور پر اپنے جیسے ہی غلط لوگ منتخب کرتے ہیں اس لئے اس عوام کو صرف ڈنڈے سے ہی ہانکا جاسکتا ہے۔ آئیے ہم اپنے اس مضمون میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام میں سیاسی طور پر دو جماعتی نظام ہے یہ وہی نظام ہے جس کے بارے میں پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ۔ ”۔ باریاں لگتی“ ہیں یعنی کبھی ڈیموکریٹ اقتدار میں آتے ہیں تو کبھی ریپبلیکن لیکن ان کی بنیادی پالیسیوں میں کبھی کوئی بہت بڑا فرق نہیں تھا۔ امریکہ ایک ایسا ماڈل ملک تھا جہاں جانے کی حسرت بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں بہت لوگوں کو تھی جہاں کام کے مواقع بھی بہت تھے اور معاوضہ بھی بہت تھا اس کے علاوہ کاروبار بھی بہت تھا سو ایشیاء لاطینی امریکہ اور یورپ وغیرہ سے لوگ روزگار کے لئے امریکہ آئے اور بس یہاں کے ہو کر رہ گئے۔

افریقہ سے سیاہ فام گو کہ بحیثیت غلام آئے مگر اپنی مسلسل کوشش اور اپنی غلامی کے خلاف شاندار جدوجہد کی بناء پر انہوں نے اپنے لئے بھی آزاد مقام حاصل کر لیا اور امریکہ کی سامراجیت تو اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے اس نے یہ موجودہ مقام حاصل کیا لیکن اس میں ان تمام لوگوں کی محنت بھی شامل ہے جس سے امریکہ دنیا بھر میں ایک سوپر پاور کے مقام پر فائز ہوا۔ اس لئے امریکہ کو تارکین وطن کا ملک بھی کہا جاتا ہے اور بہت سی مختلف اقوام کی موجودگی اور بہت سے مختلف تہذیبوں کے ملاپ کی وجہ سے وہاں یورپ وغیرہ کی نسبت نسلی تعصب بھی نسبتاً کم تھا۔

1990 ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جب دنیا بھر میں صرف ایک معاشی نظام رہ گیا تو دنیا بھر میں ڈبلیو ٹی او اور نیو لبرل پالیسیوں کا اطلاق شروع ہوا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں بڑے سرمایہ داروں کے منافع میں ہوشربا اضافہ ہوا اور وہاں پر کام کرنے والے افراد کے نہ صرف اوقات کار میں اضافہ ہوا بلکہ دیگر سہولیات میں واضح کٹوتیاں ہوئیں جس کا اثر امریکہ پر بھی پڑا۔ 2008 ء میں جب عالمی معاشی بحران آیا تو اس نے تو پھر کمر ہی توڑ دی اس کے بعد نوکریوں اور کاروبار میں واضح کمی واقع ہوئی اور بے تحاشا لوگ بے روزگار ہوئے۔

یہاں ایک بات ضرور ذہن نشین رہے کہ جب بھی کہیں معیشت اچھی ہو اور روزگار اچھا چل رہا ہو تو ہمیشہ سب اچھا ہی ہوتا ہے لیکن جب معاشی زد پہنچے اور وہ کچھ دیر تک موجود رہے تو کسی بھی معاشرے میں دو طرح کے رجحانات جنم لیتے ہیں جس میں سے ہم ایک کو ترقی پسند رجحان کہہ سکتے ہیں اور دوسرے کو فسطائی یا فاشسٹ رجحان کہہ سکتے ہیں۔ ترقی پسند رجحان اپنی اس سوچ کی بناء پر پروان چڑھتا ہے جو اس معاشی گزند کا سائنسی بنیادوں اور زمینی حقائق پر تجزیہ کرتے ہیں اور اس کا سائنٹفک حل پیش کرتے ہیں اور فسطائی یا فاشسٹ رجحان کے پیچھے وہ عامیانہ سوچ کارفرما ہوتی ہے جو نسل، قوم اور مذہب پرستی پر مبنی ہوتی ہے۔

اس میں اگر یہ سوچ پروان چڑھ جائے کہ ہماری موجودہ بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ خدا ہم سے ناراض ہے اور ہم کو واپس اپنے ماضی کی روایات کو زندہ کرنا ہے تو یہ مذہبی بنیاد پرستی اور مذہب پرستی کو زندہ کرتی ہے۔ اس میں لوگ غیر مذہب اور غیر فرقے کے لوگوں کو وہاں سے نکالنے اور قتل کرنے کا کام شروع کرتے ہیں گو کہ اس کے پیچھے لاشعوری طور پر یہ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے جانے کے بعد وسائل روزگار پر صرف یہ قابض ہوں کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔

لیکن اگر یہ سوچ پروان چڑھ جائے کہ چونکہ ہم قومی اور نسلی اعتبار سے اعلی ہیں اور ان غیر اقوام اور غیر نسل لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان ذرائع روزگار پر قابض ہوں اور ان کی وجہ سے ہمارا معاشرہ تباہ ہو رہا ہے اس لئے ان کو یہاں سے چلے جانا چاہیے تو وہ جبراً دوسری اقوام اور نسلوں کو اپنے یہاں سے نکالنے کی سعی کرتے ہیں جو کہ نسل اور قوم پرستی ہوتی ہے اور یہ تمام رجحانات اپنے اندر فسطائی یا فاشسٹ ہوتے ہیں۔

ایک اور بات جو فاشسٹ رجحان میں لازمی ہوتی ہے وہ یہ کہ ان کو کوئی نہ کوئی لازمی دشمن چاہیے ہوتا ہے یا کوئی ایسا شخص، قوم یا فرقہ جس کو وہ تمام کوتاہیوں اور خامیوں کا ذمہ دار ٹھیرا سکیں جیسا کہ اگر ہم دیکھیں تو ہندوستان میں وہاں کے انتہا پسندوں نے اپنے تمام مسائل کا حل زمینی حقائق کے بجائے مسلمان دشمنی میں نظر آتا ہے جبکہ یورپ کے سفید فام انتہاپسند اپنے مسائل نظام میں تلاش کرنے کے بجائے تارکین وطن کی دشمنی میں تلاش کرتے ہیں بالکل ایسے ہی پاکستان میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کی وجوہات ہمارے وزیراعظم صاحب کو اپوزیشن کو الٹا لٹکانے میں نظر آتے ہیں اسی طرح کی ملتی جلتی حرکتیں آپ کو برازیل کے بالسونارو اور فرانس کے ایمانوویل میکرون کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ میکرون نے اپنی مقابل لی پین کو انتہا پسند ہونے کی وجہ سے شکست دی تھی لیکن اقتدار میں آ کر وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔

اگر ہم ذرا گہرائی میں جا کر مطالعہ کریں تو ہمیں دنیا میں جہاں، جہاں اور جب، جب یہ انتہا پسندی پنپتی نظر آئے گی اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہوگی جیسا کہ دونوں عالمی جنگیں ہوں یا موجودہ یورپ ہو یا کہ تیسری دنیا کے ممالک ہوں جہاں انتہا پسندی موجود ہے یا جیسا کہ سامراجی ممالک کے توسیع پسندانہ عزائم ہوں یا اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بدحالی ہو جیسا کہ افغانستان یا موجودہ مشرق وسطی میں ہے۔

2008 ء کے معاشی سرمایہ دارانہ بحران سے امریکہ میں بھی یہی حالات پیدا ہوئے جب وہاں ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار باراک اوباما صدر تھے۔ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے بہت قانون سازی کی لیکن وہ ان معاشی حالات پر مکمل قابو نہ پا سکے جس کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی لیکن بالکل آخری ایام میں اسامہ بن لادن کے قتل نے ان کی بگڑتی ساکھ کو سہارا دیا اور وہ اگلا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔

ان کا اگلا دور صدارت بھی امریکا کو معاشی حالات سے نہیں نکال سکا اور امریکی معاشرے میں جو اوپر حالات بیان کیے گئے ہیں وہ مزید جڑ پکڑتے اور مضبوط ہوتے گئے۔ یہ وہ حالات تھے جس کے ردعمل میں امریکی معاشرے میں دو مختلف مکاتب فکر پیدا ہوئے۔ ایک تو ترقی پسند سوچ تھی جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی من مانی کے خلاف تھی اور نیو لبرل پالیسیوں کی مخالف اور بہت حد تک ویلفیئر ریاست کی حامی تھی اور دوسرا مکتب فکر اس بات کا حامی تھا کہ یہ ملک سفید فاموں کا ہے اور دوسری اقوام کے باشندوں نے نہ صرف ہمارے ذرائع روزگار پر قابض ہیں اور حالات کی خرابی کی وجہ ایشیاء اور لاطینی امریکہ کے ممالک سے لوگوں کا امریکہ میں آنا ہے جو ہماری نوکریوں اور کاروبار پر قابض ہو گئے ہیں اور اس پر نہ صرف قابو پانا لازمی ہے بلکہ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہ واپس اپنے ممالک چلے جائیں۔

ایسے میں امریکہ کے توسیع پسندانہ اقدامات کی وجہ ہے لیبیا، عراق، شام اور یمن وغیرہ سے یہاں اور یورپ میں مہاجرین کی آمد شروع ہو گئی جس سے فسطائی سوچ کے حامیوں کو اور بھی جواز میسر آ گئے اور بظاہر دشمن بھی مل گئے ریپبلیکن پارٹی کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ اس سوچ کے ترجمان کے طور پر سامنے آئے اور یہی پاپولیزم ہے جس میں اس سرمایہ دار جمہوریت میں پاپولیسٹ لیڈران عوام کی مشکلات کو استعمال کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں یہی سب کچھ ہمیں نہ صرف امریکا بلکہ یورپ، لاطینی امریکا، ایشیاء اور افریقہ میں نظر آتا ہے۔

معاشرے میں پائی جانے والی ترقی پسند سوچ کو ڈیموکریٹ پارٹی میں بارنی سینڈرز نے اپنایا اور امریکہ میں سوشل ڈیموکریسی کے نام پر اتنی مقبولیت حاصل کی کہ دو بار سخت مقابلہ کے بعد صدارتی دوڑ سے الگ ہوئے۔ جبکہ ان دونوں جماعتوں میں ایک سوچ اس بات کی حامی تھی اور اب بھی ہے کہ جیسے حالات چل رہے ہیں ان کو اسی طرح چلنے دیا جائے یعنی سٹیٹس کو قائم رکھا جائے جس کے خود اوباما اور اس وقت کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن حامی تھیں بلکہ حالیہ منتخب صدر جو بائیڈن بھی اسی سٹیٹس کو کے حامی اور داعی ہیں۔

ریپبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے معاشی بحران میں گھرے ہوئے امریکا کے لیے پھر سے امریکا کو عظیم بنانے کا نعرہ لگایا، میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنا کر اور تارکین وطن کو بیدخل کرنے کے وعدے کیے۔ ان نسل پرست اقدامات کی وجہ سے انتہا پسند سفید فاموں کو کھل کر کھیلنے کے مواقع ملے اور نازی ازم اور سفید بالادستی جیسی تنظیموں کا احیاء ہوا۔ جارج فلائیڈ کا پولیس کے ہاتھوں قتل اور پھر اس کے بعد دیگر سیاہ فاموں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور قتل کرنے والے پولیس افسران پر ڈھیلے ڈھالے مقدمات بننے سی وہاں آگ بھڑک اٹھی اور ان کے مقابلے میں سفید انتہا پسند تنظیمیں آ گئیں جس نے معاشرے میں تعصب کو شدید کیا۔

ملک میں کرونا کے حملے نے کاروبار کو پہلے سے بھی بڑھ کر تباہ کیا اور بے روزگاری اپنی تاریخی سطحوں کو چھونے لگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ محض نسل پرستی کی وجہ سے آئے تھے وہ ان تمام مسائل کو بہت ہی مضحکہ خیز بلکہ بھونڈے طریقے سے ہینڈل کرنے لگے۔ داخلی مسائل جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے تارکین وطن دشمنی پر ہینڈل کرنے لگے اسی طرح خارجی اور بین الاقوامی مسائل کے لیے بھی دشمن پیدا کرنے شروع کر دیے جیسا کہ ایران سے اوباما دور کا معاہدے کا خاتمہ اور اس پر پابندیاں اسی طرح یورپ اور بالخصوص جرمنی کے ساتھ کاروباری جنگ کی ابتدا پھر چین کے ساتھ کاروباری جنگ کا آغاز۔

کرونا پر قابو پانے کے بجائے اور اپنی نا اہلی کو چھپانے کی بجائے یہاں پھر دشمن پیدا کیا اور اس کو چینی تیار کردہ وائرس کے طور پر دنیا بھر میں پھیلانے کی کوشش کی جبکہ حقیقتاً وہ اپنے تمام داخلی معاملات کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے لیکن نسل پر ستی کا خوشنما نعرہ اور دشمن پر دشمن کا پیدا ہونا ایک تو نسلی اور قومی فخر پیدا کرتا ہے اور لوگ ان سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنے ذاتی مسائل کو اپنی ترجیحات میں بہت پیچھے کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ڈونلڈٹرمپ اپنی مقبولیت مکمل طور ختم نہیں کر سکے اور انہوں نے بہرحال جو بائیڈن کو انتہائی سخت مقابلہ دیا ہے اور ہارنے کے بعد دھاندلی کے الزامات بھی لگائے ہیں اور اس کے لئے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں جس سے اندیشہ ہے کہ انتشار میں اضافہ ہوگا۔

جو بائیڈن جو کو بنیادی طور پر قدامت پسند سوچ اور سٹیٹس کو کے حامل ہیں اور خود اپنی جماعت میں ترقی پسند سوچ کو شکست دے کر آئے ہیں اس لیے ان سے اس نظام میں کسی بھی بنیادی تبدیلی کی توقع رکھنا ہی عبث ہے اس لیے بالکل امید نہیں کی جا سکتی کہ معاشی طور پر امریکہ مضبوط ہو سکے یا یہ کہ پہلے سے بہتر ہی ہو۔ اگر بہت ہوا تو یورپ اور ایران سے ان کے حالات شاید پہلے سے بہتر ہو جائیں لیکن کملا ہیرس جو کہ نائب صدر منتخب ہوئی ہیں امید نہیں ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی خاص بہتری آئے گی اور اسی طرح اسرائیل کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں انتہاوں کو چھو رہے تھے ان میں کوئی خاص کمی واقع ہو گی۔

جو بائیڈن کی ملکی معیشت کو سنبھالنے میں ناکامی ملک کے اندر ترقی پسند سوچ کو اپنے نظریہ پر مزید یقین دلائے گی اور یہ سوچ جو فی الحال بائیں بازو کی طرف ابھار رکھتی ہے اب کھل کر بائیں بازو کی طرف جائے گی اور شاید یہ اور زیادہ ریڈیکل سوچ اور طریقہ کار کو آگے لائے۔ اسی طرح جوبائیدن کی ناکامی سے نسل پرست سوچ کو بھی اور زیادہ تقویت ملے گی اور وہ مزید اپنی انتہا پسند سوچ پر مستحکم ہوں گے اور مزید دائیں بازو کی طرف جائیں گے جس سے امریکی معاشرے میں عوام میں تقسیم اور زیادہ گہری ہونے کے امکانات ہیں اور آنے والے وقت میں ملک میں انتشار اور خلفشار بڑھ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).