عورت اگر چاہے تو۔


وہ بنا دیکھے ہی اس سے محبت کر بیٹھا تھا۔ بس اس کی آواز سن لینا ہی اس کے لئے کافی رہتا تھا وہ آج بھی شرمندہ ہے کہ بس آواز سننے کی خواہش ہی تو کر رہا تھا پھر بات بڑھانے کی کیا ضرورت تھی۔

پاندان سجائے ساسو ماں بڑے سکون سے کم کم ڈرامہ اس وقت انڈین چینلز آتے تھے دیکھ رہی تھیں۔ فون کی مستقل بجتی گھنٹی پہ بڑی ناگواری سے اٹھیں فون پہ کوئی نوجوان تھا جو اس نمبر سے ایک کال آنے کے بعد کال کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں اس نوجوان نے ساسو ماں سے ان خاتون کا نام پوچھ ہی جن سے کال پہ بات ہوئی تھی۔

شام کی چائے پہ سب بیٹھے تھے ادھر ادھر کی گفتگو میں ساسو ماں کو یاد آیا کہ ایک کال آئی تھی وہ اپنی بہو کو بتانے لگیں بہرکیف بات آئی گئی ہو گئی۔

اسکول سے آنے کے بعد دسترخوان بچھ جاتا تھا وہ ساسو ماں کا کھانا ان کے کمرے میں پہنچا کر اپنے بچوں کو کھانا کھلانے میں مشغول ہوجاتی۔ یہ روز کا معمول تھا۔ کھانے سے فراغت ہوتے ہی سب گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سوتے تھے۔ دن بھر گھر اور بچوں کے کاموں میں نکل جاتا تھا۔ بہت سے بہت کوئی ٹی وی شو دیکھ لیا۔ عموماً گھروں میں عورتوں کے شب و روز ایسے ہی گزرا کرتے۔ اس دوڑ دھوپ میں وہ بھی اپنا آپ بھلا بیٹھی تھی کیا پہنا ہے کب بال بنائے ہیں کب کھایا کب پیا کچھ یاد نہی رہتا تھا بس وقت کے ساتھ جو ہو گیا سو ہو گیا ہاں یہ دھیان ضرور رہتا کہ میاں جی کو ان کا کون سا من پسند کھانا کھلانا ہے بچوں کو کب کیا دینا ہے وہ بہت خوش اور مطمئن تھی اپنی تمام ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا رہی تھی۔ اسے قطعی یہ احساس نہی ہوا کہ اس کی اپنی ذات کہاں کھو گئی۔

دسترخوان بچھ چکا تھا وہ بچوں کو کھانا کھلانے میں مشغول تھی۔ فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ قریب تین پونے تین کا وقت رہا ہوگا۔ فون اٹھانے پہ دوسری طرف سے پوچھا گیا آپ ندا بات کر رہی ہیں۔ جی ہاں۔ ندا نے جواب دیا وہ کچھ دیر بات کرنے کے لئے ادھر ادھر کی باتیں بناتا رہا۔ ندا نے جھنجھلا کر فون رکھ دیا۔

اب یہ تو روز کا معمول بن گیا کہ جہاں تین بجتے اس لڑکے کی کال آجاتی۔ کھینچ تان کے دس منٹ تک کال لے ہی جاتا دس منٹ تک بات کرنے کے بعد خود ہی فون رکھ دیتا۔ ندا اسے بہت ٹالتی غصہ کرتی ڈانٹتی کہ فون مت کیا کروں لیکن پھر بھی انجانے میں بات کر ہی لیتی۔

دوچار دن یہ سلسلہ چلتا رہا اور بالآخر وہ اپنے اصل مدعے پہ آہی گیا۔

آج اس نے ندا سے درخواست کی کہ وہ صرف اس کی آواز سننے کے لئے کال کرتا ہے اور اس کی آواز سے محبت کرتا ہے لہذا کچھ دیر گفتگو کر لیں۔

یہ سننے کی دیر تھی کہ غصے سے ندا کی کان کی لوئیں تک تپنے لگی اس نے کچھ کہے بنا فون پٹخ دیا۔
اگلے دن پھر اسی وقت کال آئی اب کہ ندا نے لحاظ ایک طرف رکھ کے کھری کھری سنا دیں اور فون رکھ دیا

وہ کہاں باز آنے والا تھا اس سے اگلے دن اسی وقت پر کال ملائی اتفاق تھا کہ گھر پر بچوں اور بوڑھی ساس کے کوئی اور فون رسیو و کرنے والا تھا ہی نہی لامحالہ فون اسی کو اٹھانا ہوتا تھا سو آج فون اٹینڈ کر کے خوب سنائی پھر شام کو میاں صاحب تشریف لائے تو غصے میں ساری کتھا الف سے ے تک سنا ڈالی۔ وہ اپنی دھن میں سب کچھ کہ گئی۔ لیکن اس کا یہ کہنا کتنوں کے لئے دشوار اور سنگین ثابت ہوا اس بات کا اندازہ اسے اپنے شوہر کے ردعمل کے بعد ہوا۔

ایک بے وقوفی کے قدم نے دو خاندانوں کو آپس میں لڑوا دیا بات تھانہ کچہری تک جا پہنچی۔
وہ سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ بات اتنی بڑھ جائے کہ اس لڑکے کی جان داؤ پہ لگ جائے۔

ایک بڑے جھگڑے سے نمٹ کر میاں جی گھر آئے تو ان کی حالت دیکھ کر ندا کا دل مٹھی میں آ گیا دو دن بعد رات میں کال آئی اتفاق ہی تھا کہ فون ندا نے اٹھایا دوسری طرف سے ہیلو سننے کے بعد جو آواز نمودار ہوئی اس نے صرف اتنا کہا ”آپ نے اچھا نہیں کیا“ اور فون کٹ گیا۔ وہ سن سی اپنی جگہ پہ کھڑی رہ گئی۔ ایک احساس شرمندگی نے اسے گھیر لیا کاش وہ تھوڑی سمجھداری سے کام لیتے ہوئے بات کو اتنا آگے بڑھنے سے روک لیتی۔ وہ جذبات میں آ کر ایک فساد کھڑا کرنے کی سزاوار تھی اگر مدبرانہ سوچ کے ساتھ قدم اٹھاتی اور کچھ دنوں کے لئے فون منقطع رکھتی بالکل بات نہ کرتی تو بھی یہ مسئلہ نمٹ سکتا تھا۔ اور اس واقعے پر اسے آج تک اپنے آپ میں شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی وہ اب بھی سوچتی ہے کہ کاش اسے کبھی اس شخص سے بھی معافی مانگنے کا موقع ملے۔

ہمیشہ مرد ہی غلط نہی ہوتا کہیں کہیں عورت بھی اپنی بے وقوفی کی وجہ سے معاملات بگاڑ دیتی ہے۔ مرد فطرتا شوقین مزاج ہوتے ہیں لیکن اگر عورتیں سمجھ بوجھ استعمال کریں تو مردوں کی شوقینی وہی ہوا ہوجاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).