قصور قاسم علی شاہ کا ہی ہے!


جس قوم کو تباہ کرنا ہو اس کے مرکزیت تباہ کر دو، وہ قوم خود بخود تباہ ہو جائے گی۔ اسی حقیقت کے پیش نظر پہلے علماء اور اب پاکستان کا مسلم خاندانی نظام دشمن کے نشانے پر ہے۔

انگریز جب ہندوستان میں آیا تو اسے سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا علماء اور پختونوں کی طرف سے ہوا۔ شاید اسی وجہ سے اس دور میں جو بھی بیہودہ اور فحش لطیفہ گھڑا گیا اس کا مرکزی کردار مولوی کو ٹھہرایا گیا یا کسی پختون کو۔ سب سے زیادہ مظالم بھی انہی دو طبقوں پر ڈھائے گئے۔ کسی مسلمان کی بات نہ بھی مانیں اور صرف انگریز مؤرخین کی کتابیں ہی پڑھ لیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مشہور انگریز مؤرخ ڈاکٹر تھامس لکھتا ہے کہ صرف 1862 ء سے لے کر 1867 ء کے پانچ سالوں میں 1400 علماء کو پھانسی کے گھاٹ اتارا گیا۔

دہلی کے چاندنی چوک سے لے کر پشاور تک کوئی ایسا درخت نہ تھا جس نے علماء کی لٹکتی لاشیں نظر نہ آتی ہوں۔ انہیں خنزیر کی کھالوں میں بند کر کے جلتے تنوروں میں ڈالا گیا۔ لاہور کی شاہی مسجد میں ایک ایک دن میں اسی اسی علماء کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔ ڈاکٹر ولیم میور نے وائسرائے کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں صاف لکھا کہ جنگ آزادی تو لڑی ہی مسلمانوں نے ہے۔ ہم اس وقت تک اپنی حکومت مضبوط نہیں کر سکتے جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد زندہ ہے۔

اگر اس جذبے کو ختم کرنا ہے تو علماء کو راستے سے ہٹانا ہو گا کیونکہ اس ولولہ انگیز جذبے کو بیدار کرنے والے علماء ہی ہیں۔ مولانا جعفر تھانیسری ”تاریخ کالا پانی“ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور پاؤں میں بیڑیاں اور ہمیں ایسے پنجروں میں بند کیا گیا جن کے نیچے اور دائیں اور دائیں لوہے کی نوکیلی سلاخیں تھیں، ہم بیٹھ سکتے تھے اور نہ ہی پنجرے کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا سکتے تھے۔ مولانا محمود الحسن کی لاش جب ہندوستان لائی گئی تو لوگوں کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے کیونکہ سوائے ہڈیوں کے کچھ بھی نہیں بچا تھا۔

مولانا حسین احمد مدنی کی کمر پراس وقت تک لوہے کی سلاخیں گرم کر کے پھیری جاتیں جب تک وہ بے ہوش نہ ہو جاتے۔ اس دور میں لندن کے مشہور اخبار The Timeمیں یہ مطالبہ کیا گیا کہ درخت کی ہر شاخ پر کسی عالم کی لاش ہونی چاہیے۔ The Indian Mutiny نامی کتاب کے مطابق ایسا ہی کیا گیا۔ دہلی کا کوئی ایسا درخت نہ تھا جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹکائی گئی ہو۔ صرف کانپور میں ایک برگد کے درخت سے 150 مسلمان علماء کی لاشیں لٹکائی گئیں اور ایک سال تک انہیں ہٹانے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ مفتی عنایت حسین کاکوری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا فضل حق خیر آبادی، مولانا سید کفایت علی کافی سمیت تقریباً 51000 علماء کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ علماء کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟

علماء کے ساتھ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ اسلام کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بھی تھے مسلمانوں کے بنیادی مرکز ”مسجد“ کے امین اور متولی بھی۔ مسجد ہی وہ جگہ تھی جہاں مسلمان عوام اور علماء ایک دن میں پانچ بار ملتے تھے۔ لہذا سوچا گیا کہ اگر ان کی مرکزیت ختم کرنی ہے تو ان کے مرکز یعنی مسجد کو بے وقعت کرنا ہو گا۔ مسلمان اور مسجد سے نفرت کرے؟ یہ تو ممکن نہ تھا اس لیے حکمت عملی تبدیل کی گئی اور مسجد کی بجائے علماء کو نشانہ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لیے ان کی کردار کشی کی گئی، ان کے بارے میں لطیفے بنائے گئے، مولویوں کے بھیس میں اپنے ایجنٹ مسلمانوں میں داخل کیے گئے، علماء کا لباس باورچیوں کو پہنا دیا گیا، الغرض ایک چومکھی لڑائی لڑی گئی۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:

”افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو ”

مولوی کو بدنام کر دیا گیا۔ اب دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ اسے حق بولنے سے کیسے روکا جائے؟ اس مقصد کے لیے برصغیر میں پہلی بار مولوی کی زبان پر ”مسجد کمیٹی“ کی جابرانہ مہر لگا دی گئی۔ مختصر یہ کہ مسلمان بھی مسجد سے دور ہو گیا اور لفظ ”مولوی“ گالی بھی بن گیا۔ مسجدیں ویران ہو گئیں اور میکدے آباد لیکن پھر بھی مسلم معاشرہ اس بے راہ روی کا شکار نہ ہوا جس کے لیے اتنا زیادہ سرمایہ وقف کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟

وجہ یہ تھی کہ اگرچہ مسلمانوں کی اجتماعی مرکزیت (مسجد) اور اس کے بنیادی کردار (مولوی) کو تو ختم کر دیا گیا تھا لیکن سازشیں کرنے والے یہ اصول بھول گئے تھے کہ ؛

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے

مسجد اور ملا کی مرکزیت کے ختم کر کے خوشی کے شادیانے بجانے والے بھول گئے تھے کہ اسلام نے اس مرکزیت سے پہلے ”خاندان“ نامی ایک مرکزیت بھی قائم کر رکھی ہے۔ اب کے توجہ پاکستان کا یہی مسلم خاندانی نظام ہے اور اس کی بربادی ہی ان کا واحد مقصد بھی۔ مغربی این جی اوز اور ان کے گماشتوں کا سب سے بڑا ہدف اس ادارے کی تباہی ہے۔ انہیں یہ تو منظور ہے کہ عورت سبھا کی پری، شمع محفل اور دو ٹکے کی مصنوعات کے لیے ننگی ہو جائے لیکن یہ اسے ایک بہترین ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتے۔

انہیں عزت بچایا لٹا کر کمانے والی عورت تو چاہیے لیکن گھر میں شہزادیوں کی طرح کھانے والی عورت نہیں چاہیے کیونکہ وہ خاندان کی مضبوطی کا سبب ہے۔ جس خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے اربوں کا سرمایہ لگایا گیا قاسم علی شاہ اسی ادارے کے بچاؤ کی بات کرے گا تو مجرم تو بنے گا۔ قاسم علی شاہ کا یہی قصور ہے کہ اس نے پاکستانی معاشرے کی اسی مضبوط اور بنیادی اکائی کو بچانے کی بات کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).