امریکی پالیسی میں تبدیلی آئے گی؟


امریکا دنیا کی اکلوتی سپر طاقت ریاست ہے اور اس کی اندرونی سیاست میں آنے والی ہر تبدیلی کے اثرات دنیا محسوس کرتی ہے اسی لیے پوری دنیا کی نظریں امریکہ کے صدارتی الیکشن کے نتائج پر لگی ہوئی تھیں۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخاب ماہ نومبر کی تین تاریخ کو منعقد ہوئے جس کے غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق جوبائیڈن نے اپنے حریف ٹرمپ پر واضح سبقت حاصل کرلی ہے۔ عموماً امریکی انتخابی مہم میں روزگار، تعلیم اور صحت سے متعلق پالیسی کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے، حالیہ انتخابات کی خاص بات مگر صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ناقص پالیسی کے سبب کورونا وبا کے بعد امریکا میں پیدا شدہ صورتحال اور کورونا وبا کے سبب بنائے گئے ارلی ووٹنگ سسٹم پر بحث رہی۔

کورونا وبا کے باعث بنائے جانے والے اس نئے نظام کی بدولت تقریباً ً پونے دس کروڑ لوگ الیکشن ڈے سے پہلے ہی ووٹ کاسٹ کرچکے تھے۔ بذریعہ ڈاک ادا کیے جانے والے ووٹوں کے سبب ہی اس مرتبہ ماضی کی نسبت ووٹ ڈالنے کی شرح بہت زیادہ رہی۔ عام سروے رپورٹس پہلے ہی بتا رہی تھیں کہ ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن کو ری پبلکن پارٹی کے امیدوار صدر ٹرمپ پر برتری حاصل ہو گی لیکن اس برتری میں بڑا کردار جوبائیڈن کو ڈاک کے ذریعے پڑنے والے ووٹس کا بھی رہا۔

تاہم جس چیز کا جو بائیڈن کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ کورونا وبا کا تیز پھیلاؤ اور اس سے امریکی شہریوں کو پہنچنے والا جانی اور مالی نقصان ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وبا کو ٹھیک طریقہ سے کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ ٹرمپ اس خطرہ کو کم کر کے بتاتے رہے اور انہوں نے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں جس کی وجہ سے امریکی قوم کو شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

اس بات میں بڑی حد تک سچائی بھی ہے کہ وسائل سے مالا مال سپر پاور کی وبا کے سامنے لاچارگی کی وجہ قیادت کا فقدان اور ناقص پالیسی تھی۔ جن دنوں چین میں کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا صدر ٹرمپ نے معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں کیا بلکہ مذکورہ وائرس کو چینیوں سے مخصوص سمجھتے ہوئے اصرار کرتا رہا کہ امریکا اس سے محفوظ رہے گا۔ یہی نہیں بلکہ کورونا امریکا میں داخل ہونے کے بعد بھی اسے معمولی نزلہ زکام قرار دے کر شتر مرغ کی مانند ریت میں سر دیے بیٹھا رہا۔

الٹا جن صحافیوں نے حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کی کوشش کی کئی بار ان سے ٹرمپ کی جھڑپ ہوئی۔ لاک ڈاؤن کی ضرورت اس وبا سے نمٹنے کے لیے مسلمہ ثابت ہونے کے بعد بھی اس کے معاشی اثرات کے ڈر سے ٹرمپ نے اس فیصلے میں بہت تاخیر کی۔ ماہرین کے مطابق اگر وقت پر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا جاتا تو ہلاکتیں کئی گناہ کم ہو سکتی تھیں۔ ہٹ دھرمی پر مبنی ٹرمپ کی اس کوشش کے باوجود بھی امریکی معیشت کو بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑا۔

دو کروڑ کے قریب امریکی شہریوں نے روزانہ کی بنیاد پر اپنی حکومت سے امدادی رقوم کی فریاد کی۔ مستند اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے کبھی خیراتی اداروں سے رجوع نہیں کیا۔ امریکی قوم کے لیے باعث عار ثابت ہوا کہ دنیا بھر کے لوگ جس دیس جانے کے خواب دیکھتے ہیں وہاں کے بے تحاشا گھرانے ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی خیراتی اداروں سے بھیک مانگنے کو مجبور ہوئے۔

ان حالات کے بعد بھی ٹرمپ سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین کو لتاڑنے کی کوشش میں مصروف رہا۔ اپنی حماقتوں پر نادم ہونے اور تلافی کی سوچ بچار کے بجائے کئی ریاستوں کے گورنروں پر الزام تراشی کرتا رہا کہ ان کی نا اہلی سے عوام کو جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ جہالت کی انتہا تو یہ کہ جن ریاستوں کے گورنر ٹرمپ کے سیاسی مخالف تھے وہاں کے عوام کو اس نے بغاوت پر اکسایا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ اپنے کام پر نکلیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی ترجیح امریکی معیشت تھی اور اسے وہ پہلے کی مانند عروج پر لے جانا چاہتا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی آمد سے قبل اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی رہا۔ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکیوں کو بڑی تعداد میں روزگار ملا، وہاں نئی سرمایہ کاری آئی عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہوا اور اس کی فی کس آمدن میں اضافہ ہوا لیکن کورونا نے آ کر اس کے تمام کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔

ٹرمپ کی شکست کی مگر کورونا ہی واحد وجہ نہیں بلکہ ان کا پورا دور تنازعات سے بھرپور رہا۔ امریکہ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی رائے ان کے بارے میں بہت منفی رہی۔ وہ جب تک صدر رہے آئے روز کسی نہ کسی سے الجھتے رہے۔ چین کے خلاف اشتعال انگیزی کو انہوں نے آخری حد تک بڑھاوا دیا مسلمانوں کے ردعمل کی پروا کیے بغیر امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے جیسا انتہائی کام بھی وہ کر گزرے۔ عورتوں کے متعلق بازاری اور عامیانہ جملوں کا استعمال انہوں نے دھڑلے سے کیا۔

سیاہ فاموں کو وہ حقیر سمجھتے رہے۔ عوام کی جان ان کے نزدیک کتنی اہمیت رکھتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ چند روز پہلے امریکہ میں وبائی امراض کے ادارہ کے سربراہ ڈاکٹر فاؤچی نے یہ بیان دیا کہ صدر ٹرمپ نے کورونا وبا کی روک تھام سے متعلق ان کے مشوروں کو نظر انداز کیا اور گزشتہ ایک ماہ سے ان کی ٹرمپ سے بات چیت بند ہے۔ ڈاکٹر فاؤچی امریکہ میں بہت قدر کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں عین الیکشن کے وقت اس بیان نے ٹرمپ کی پوزیشن کو مزید نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی ٹرمپ کی مخالف تھی اور ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اس کا بھی بڑا ہاتھ رہا۔

دوسری طرف جوبائیڈن نے خود کو معتدل مزاج رہنما کے طور پر پیش کیا ہے اور انتخابات کے بعد انہوں نے اپنی تقریر میں بھی کہا ہے کہ وہ اپنی قوم کو متحد کرنے کی کوشش کریں گے اسی لیے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکی سیاسی منظرنامے پر جو کشیدگی و ہلچل مسلسل طاری رہی اس کا خاتمہ ہوگا۔ جوبائیڈن کا تعلق چونکہ ڈیموکریٹ جماعت سے ہے اور ڈیموکریٹس جمہوری روایات و اقدار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لہذا یہاں تک تو بات درست ہے کہ سیاسی مخالفین اور میڈیا سے متعلق ان کے خیالات مختلف ہوں گے اور وہ یورپ کے ساتھ خراب ہوتے امریکی تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کریں گے، لیکن میرا خیال ہے کہ چین، افغانستان اور پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی زیادہ توقع نہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی بنیادی پالیسی تسلسل و پائیداری پر مبنی ہے اور اس کی خارجہ پالیسی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں بدلتی۔ امریکا میں جو بھی صدارت کے منصب پر فائز ہو پاکستان کے ساتھ اس کا رویہ وہی ہوگا جو امریکی اسٹیبلشمنٹ طے کرے گی۔ فی الوقت امریکی اسٹیبلشمنٹ سی پیک اور پاک چین تعلقات کی وجہ سے ہمارے بارے میں تحفظات کا شکار ہے اور خطے میں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ افغانستان میں کسی نہ کسی حد موجودگی برقرار رکھیں گے۔ لہذا بہتر یہی ہے کہ جوبائیڈن سے بھی زیادہ امید نہ رکھی جائے اور کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کے بجائے یہ سوچنا ضروری ہے کہ امریکا اور چین کے ساتھ اپنے معاملات میں بیلنس رکھنے کے ساتھ افغان مسئلے کو کس طرح ڈیل کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).