شہید باز محمد کاکڑ فاونڈیشن کی علمی، ادبی اور سماجی خدمات پر ایک نظر


کوئٹہ شہر میں 18۔ 2017 کے عرصے میں میڈیکل انٹری ٹیسٹ کی تیاریوں کے سلسلے میں تقریباً دو سال ہاسٹل میں رہنا پڑا۔ میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لئے چونکہ کافی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہاسٹل میں رش اور شور ہونے کی وجہ سے مطالعہ کرنا ممکن نہیں تھا، کیونکہ مطالعہ کے لئے پرسکون ماحول کا ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں کوئٹہ شہر میں لائبریریز کی تلاش میں نکلنا پڑا، مگر دیکھا تو صرف چند ایک ہی لائبریریز ہیں اور وہاں بھی طلبا و طالبات کا کافی رش ہے۔

ان میں سے ایک عدالت روڈ پر موجود ”قائداعظم پبلک لائبریری“ تھی، جہاں فجر نماز کے فوراً بعد طلبا و طالبات کی لمبی لائن لگ جاتی تھی اور آدھے گھنٹے بعد پوری لائبریری کھچا کھچ اسٹوڈنٹس سے بھر جاتی تھی حتی کہ فرش پر بھی طلبا بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ میونسپلٹی کے ہاں بھی ایک لائبریری تھی مگر وہاں ان کے پاس جگہ کافی کم تھی اور محدود نشستیں ہی موجود تھی، جبکہ ایک لائبریری ہزارہ ٹاؤن میں موجود تھی جو کہ شہر کے وسط سے تقریباً 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھی اور وہاں پیدل جاتے ہوئے تقریباً 30 منٹس لگ جاتے تھے۔

سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کی لائبریری اگرچہ یونیورسٹی کے اپنے طلبا کے لئے تھی مگر وہ بھی شہر سے کافی دور ہے جبکہ دوسری جانب بی ایم سی کی لائبریریز تھیں مگر وہاں بھی جم غفیر کا عالم ہوتا ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر طلباوطالبات خود ہر وقت مطالعہ میں مشغول ہوتے ہیں۔ یعنی شہر میں پبلک لائبریریز کی کمی کو میں نے اس وقت شدت سے محسوس کیا اور خواہش ظاہر کی کہ کوئٹہ شہر کے ہر روڈ اور ہر چوک پر اگر لائبریری قائم کی جائے تو بھی کم ہے۔

8 اگست، 2016 کا دن بلوچستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دن تھا کہ جب بلوچستان اپنی ایک پوری تعلیم یافتہ جنریشن سے محروم ہو گیا تھا۔ سول ہسپتال دھماکہ میں 70 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے اور ان میں سے تقریباً 50 کے قریب وکلاء بھی شامل تھے۔ جن کی شہادت سے نقصان کا ازالہ شاید کبھی ممکن نہ ہو سکے۔ ان وکلاء میں ایک نام ”شہید باز محمد کاکڑ“ کا بھی تھا۔ جن کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقہ مسلم باغ سے تھا۔

آمریت کے خلاف عدالتی نظام کی واپسی کے لئے دوسرے وکلاء کی طرح وہ بھی صف اول کے رہنماؤں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے وکالت کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی جبکہ شعبہ فزکس میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری بھی بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کرچکے تھے۔ شہید باز کاکڑ نہ صرف قانون کے شعبہ سے وابستہ تھے بلکہ ایک زندہ دل شخصیت تھے۔ وہ غریبوں کا خیال رکھنے والے اور معاشرے میں مثبت شعور کو اجاگر کرنے والی صفت انسان تھے۔ جبکہ وہ تعلیم اور رواداری کے اصولوں کے علمبردار تھے۔ ان کی شہادت سے جہاں صوبہ ایک قابل ہیرے سے محروم ہو گیا وہیں ان کے بھائی ڈاکٹر لال خان کاکڑ کے وسیلے سے اللہ نے ”شہید باز محمد کاکڑ فاونڈیشن“ کی صورت میں صوبہ کو ایک عظیم مقصد پر رواں دواں ایک کارواں عطا کیا۔

شہید باز محمد کاکڑ فاونڈیشن کی بنیاد 20 اکتوبر 2016 کو رکھی گئی۔ فاونڈیشن کے بانی ڈاکٹر لال خان کاکڑ خود طب کے شعبہ سے جڑے ہیں۔ وہ اس وقت بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کوئٹہ میں آرتھوپیڈک سرجن ہیں اور اس سے پہلے اس ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہ چکے ہیں۔ اور پاکستان آسٹیوپوروسس کے صدر بھی ہیں۔ اس فاونڈیشن کا بنیادی مشن معاشرے میں موجود لاچار اور غریب افراد کا سہارا بننا ہے، اس کے علاوہ لوگوں کو مفت قانونی معاونت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صوبہ بھر میں ڈیجیٹل لائبریریز اور ریسرچ سینٹرز کا قیام عمل میں لانا ہے۔

فاونڈیشن کے صدر ڈاکٹر لال محمد خان کاکڑ سے جب اس فاونڈیشن کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے قبائلی معاشرے میں عموماً لوگ مہمان خانوں کی تعمیر پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جو کہ ہماری مہمان نوازی کو ظاہر کرتا ہے، مگر ہمیں ان مہمان خانوں کو شعور پر مبنی بیٹھک کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہیے، جہاں علمی شعور اور مخلتف موضوعات پر تحقیقات پر مبنی نشستیں بھی ہونی چاہیے“ ۔ وہ اس حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ ”گزشتہ چند برسوں کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ آئے روز شہر میں ہوٹلز کھولے جا رہے ہیں، نئے شاپنگ مالز اور ہسپتالوں کی بنیاد رکھی جا رہی ہے مگر صوبہ کے نوجوانوں کی شعوری سوچ کو بہتر بنانے اور تفریح کے لیے کوئی کام نہیں ہورہا، تب ہم لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شہید باز کاکڑ کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ایک ایسی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے، جو نہ صرف ریڈنگ روم ہو بلکہ تحقیقاتی ادارہ بھی ہو۔

2016 میں ہم نے (شہداء 8 اگست لائبریری) کی بنیاد رکھی۔ یہ لائبریری اب اپنی ایک منفرد شناخت بنا چکی ہے اور کوئٹہ شہر میں سینکڑوں طلباء و طالبات اس لائبریری سے استفادہ کر رہے ہیں“ ۔ انہوں نے بتایا کہ ”ہر مہینے اس لائبریری کا تقریباً 3 لاکھ تک کا خرچہ آتا ہے جو کہ وہ خود اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں“ ۔ ڈاکٹر صاحب مزید بتاتے ہیں کہ ”مجھے ہسپتال میں کماتے ہوئے اتنی دلی خوشی محسوس نہیں ہوتی جتنی یہاں لائبریری آ کر اپنے بچوں کو پڑھتے ہوئے سیکھتے ہوئے دیکھتا ہوں“ ۔ یہ بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی علم دوستی کا ثبوت ہے۔

شہدا 8 اگست لائبریری اس فاونڈیشن کا سب سے اہم پراجیکٹ ہے۔ حال ہی میں 7 اور 8 نومبر کو فاونڈیشن نے صوبہ میں کتب بینی کو فروغ دینے کے لئے دو روزہ ”کتاب میلہ“ کا انعقاد کیا، جس کا مقصد صوبہ میں کتاب دوست مہم پروان چڑھانا ہے۔ اس میلہ میں کتب 50 فیصد رعایت پر دستیاب تھیں۔ اس میلہ میں جہاں طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی وہیں صوبہ کے مخلتف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی سیاسی، سرکاری، ادبی اور شوبز سے معزز شخصیات نے شرکت کی اور اس مشن کو خوب سراہا۔ اس موقع پر فاونڈیشن کے بانی ڈاکٹر لال خان کاکڑ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ جیسے اس وبا کی وجہ سے حالات بہتر ہوتے ہیں تو فاونڈیشن صوبائی سطح پر ایک عظیم الشان لٹریری فیسٹول کے انعقاد کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

یہ لائبریری کوئٹہ شہر میں شہباز ٹاؤن میں واقع ہے۔ اس وقت 200 سے زائد طلبہ و طالبات صبح اور شام کی شفٹ میں لائبریری کی کتب، ریڈنگ روم اور ای لائبریری کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ خواتین کے لئے الگ ریڈنگ روم کا انتظام بھی موجود ہے۔ لائبریری کی ممبر شپ کا جب آن لائن آغاز کیا گیا تو 1500 تک درخواستیں جمع ہوئیں تھی۔ مگر جگہ کم ہونے کی وجہ سے مزید ضرورت مند طلبہ و طالبات کو موقع نہیں دیا جاسکا۔ اس وقت لائبریری ایک کرایہ کے مکان میں سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے، اپنی بلڈنگ قائم کرنے کے لئے وسائل کی شدید ضرورت ہے جس کے لئے بلاشبہ مخیر حضرات اور حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس عظیم مشن کو دوام بخشنے ہوئے فاونڈیشن نے خانوزئی کے علاقہ بلوزئی میں ”شہید عبدالناصر کاکڑ شہید“ کے نام سے ایک اور لائبریری پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ شہید عبدالناصر کاکڑ کا تعلق خانوزئی کے ایک گاؤں زرغون سے تھا، وہ بھی 2016 کے سانحہ میں شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یعنی یہ لائبریری مستقبل قریب میں نوجوان نسل میں نئے آئیڈیاز کو فروغ دینے والی ایک عظیم الشان ادارہ کی شکل اختیار کرے گی۔

فاونڈیشن نے جہاں کتب خانوں کے حوالے سے خاطر خواہ کام کیا ہے وہیں میڈیکل کے مخلتف سیمینارز اور فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد بھی کیا ہے۔ بین الاقوامی آسٹیوپوروسس دن کے موقع پر پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا، جہاں ہڈیوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کی چیک اپ کی گئی اور ساتھ ساتھ ان امراض کے متعلق آگہی ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا تاکہ مستقبل میں کم علمی کی وجہ سے کوئی انسان اس مرض کا شکار نہ ہو۔ ”عالمی یوم کتاب“ کی مناسبت سے سیمینار ہو یا پھر رودملازئی، خانوزئی میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد ہو، یہ سب فاوڈیشن کی علمی اور سماجی مقاصد کو ظاہر کرتی ہے۔

شہید باز محمد کاکڑ فاونڈیشن مستقبل قریب میں صوبہ بلوچستان کے ہر ضلع میں لائبریری بنانے کی خواہشمند ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فاونڈیشن تنہا کچھ نہیں کرسکتی۔ لہذا اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے مخیر حضرات اور حکومت کو ضرور اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آپ کی طرف سے عطیہ کی گئی ایک کتاب اور ایک سو روپے بھی ایک معنی رکھتی ہے۔

کیونکہ پڑھے گا بلوچستان
تب ہی آگے بڑھے گا بلوچستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).