سورج پہ کمند: ایک صبر آزما سفر


مئی 2012ء میں جب ہم نے این ایس ایف ری وزیٹڈ نامی فیس بک گروپ کے قیام کے ساتھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی تاریخ مجتمع کرنے کا آغاز کیا تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم ایسے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں کہ جس کے پر پیچ راستوں سے گزرنے میں آٹھ برس سے زائد عرصہ درکار ہو گا۔ ہماری یہ کم علمی اس لحاظ سے بہتر ثابت ہوئی کہ آئندہ عرق ریزیوں کا پیشتر ادراک شاید سفر کے آغاز سے پہلے ہی ہمارے حوصلے پست کردیتا۔ بھلا ہو این ایس ایف کے ان ساتھیوں کا کہ جنہوں نے ہر قدم پر ہمارے پست ہوتے ہوئے حوصلوں کو سہارا دیا۔

وقاص بٹ کا تین سال قبل دیا گیا مشورہ کہ اس وقت تک لئے گئے انٹرویوز اور لکھے گئے سوانحی خاکوں کو کتاب کی پہلی جلد کے طور پر شائع کر دیا جائے، بہت صائب ثابت ہوا۔ جلد اول کی اشاعت اور پاکستان کے طول و عرض سے این ایس ایف کے ساتھیوں کے والہانہ رد عمل نے ہمیں یہ سفر جاری رکھنے کی ہمت دی۔ جلد اول کی لاہور اور کراچی میں تعارفی تقریبات میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ہر دور سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنان کی شرکت اور ان کے تبصرے ہمارے لئے مزید ہمت افزائی اور رہنمائی کا باعث بنے۔

جلد اول کی اشاعت کے بعد ہم نے اکثر یہ بات کئی موقعوں پر دہرائی کہ پہلی جلد میں شامل مواد دراصل ہمارے ابتدائی خاکہ کے مطابق کتاب کے فقط دو ابواب تھے۔ جبکہ این ایس ایف اور اس کی پیشرو تنظیم ڈی ایس ایف کی سال بہ سال، دور بہ دور، تحریک بہ تحریک تاریخ ابھی جلد دوم کی شکل میں لکھی جانی ہے۔ اس مرحلہ پر بھی ہم نے یہ نہ سوچا تھا کہ یہ بقایا کام صرف ایک جلد میں سمونا ممکن نہ ہوگا۔ اس لئے ہمیں اس مجوزہ جلد کو جلد دوم اور جلد سوم میں تقسیم کرنا پڑا، جو عنقریب آپ کے زیر مطالعہ ہوں گے۔ ہماری کوشش تھی کہ سورج پہ کمند این ایس ایف کی تاریخ سے بڑھ کر نہ صرف پاکستان کی طلباء تحریک کی تاریخ ہو بلکہ اس کے صفحات میں آپ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے متعدد اہم واقعات اور ان کے پیچھے کار فرما عوامل سے بھی آگہی حاصل ہو سکے۔

ان آخری دو جلدوں پر تبصرے کے لئے ہم نے ڈی ایس ایف اور این ایس ایف سے تعلق رکھنے والے متعدد سابقہ ممتاز کارکنان سے درخواست کی۔ ان سب ہی نے ہماری دعوت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ہمارے لئے باعث افتخار ہے۔

ڈی ایس ایف کے ایک بانی رکن ڈاکٹر سید ہارون احمد کے الفاظ میں ”یہ کتاب صرف طلبا تحریکوں کی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف سیاسی ادوار کی ایک جامع تاریخ ہے جو تاریخ وار مرتب کی گئی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف طالب علموں بلکہ ریسرچرز اور پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے تجزیہ کاروں کے لئے بھی معلومات کا خزانہ ہے۔

پہلا حصے میں غیر منقسم ہندوستان میں تعلیمی اداروں کے قیام، برصغیر میں طلبا تحریک کے آغاز، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام اور ترقی پسند تحریک کے قیام پاکستان میں کردار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان ساری معلومات کو ہم پاکستان کا تاریخی پس منظر کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے حصے میں قیام پاکستان کے بعد طلبا کے مسائل، ڈی ایس ایف کے قیام، اور اس کی معاون تنظیموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ انٹر کالیجئیٹ باڈی کے قیام، اسٹوڈنٹس ہیرالڈ کی اشاعت، جنوری تحریک کے پس منظر، یوم مطالبات اور 8 جنوری کے یوم شہداء کی تفصیل ہے جو آج تک منایا جاتا ہے۔

جنوری تحریک کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، خونریزی، وعدہ خلافیاں، یوم فتح، ملکی و بین الاقوامی رد عمل اور پریس کے کردار سے لے کر آل پاکستان اسٹوڈنٹس فیڈریشن یا ایپسو کے قیام اور کل پاکستان کنونشن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بات یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ پاکستان کا مغرب کی طرف سیاسی جھکاؤ، سیٹو سینٹو میں شمولیت، راولپنڈی سازش کیس اور ڈی ایس ایف اور ایپسو پر پابندی تک کے واقعات بیان کئیے گئے ہیں۔ کتاب کے اگلے حصوں میں ہمیں دنیا بھر میں کمیونسٹ ممالک اور سرمایہ دارانہ ملکوں میں سرد جنگ میں رونما ہونے والے اہم واقعات، این ایس ایف پر ترقی پسند طلبا کے غلبے، ایوب خان کے مارشل لا اور حسن ناصر کی شہادت کا ذکر ملتا ہے۔

اسی طرح ایوبی دور کے معروضی حالات اور طلبا کی وہ تاریخی تحریک جس نے ایوبی آمریت کا تختہ الٹنے میں قائدانہ کردار ادا کیا وہ سب اس میں شامل ہے۔ آگے چل کر سقوط مشرقی پاکستان، بھٹو حکومت کے قیام، مزدوروں کی تحریک، این ایس ایف کی تقسیم، بھٹو کی پھانسی، تحریک بحالئی جمہوریت اور صحافیوں کی تحریک کا بھی تذکرہ ہے ”۔

ڈی ایس ایف کے ایک اور بانی رکن پروفیسر سید محمد نسیم سورج پہ کمند پر اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ ”پاکستان کی طلبا تحریک کی تاریخ دراصل وطن عزیز کی تہتر سالہ تاریخ کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں روشنی کی سب سے نمایاں کرن ہے۔ سورج پہ کمند کے عنوان سے نہایت محنت سے لکھی گئی کتاب کی تین جلدوں میں کتاب کے مصنفین نے جو خود بھی طلبا تحریک کا حصہ رہے ہیں، پاکستان کی طلبا تحریک کے کٹھن سفر اور اس کے زمان و مکان کو تفصیل سے بیان کیا ہے“ آگے چل کر وہ مزید کہتے ہیں کہ ”سورج پہ کمند نے جنوری تحریک کے متعلق، جس کا میں خود بھی حصہ تھا، میرے نقطۂ نظر کو مزید زرخیز بنایا ہے۔

تحریک ختم ہونے کے بعد جب اس کی یادیں میرے لاشعور کا حصہ بن چکی تھیں، ایک طویل عرصہ تک میں اس تجربہ کو اپنی زندگی کا ایک وقتی ابال سمجھتا رہا۔ لیکن شاید حقیقت یہ تھی کہ پاکستانی سیاست میں اپنی گہری دلچسپی اور درس و تدریس میں مشغول رہنے کے باوجود میں نے اس میدان میں ہونے والی مزید ہیش رفت کو جاننے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ لیکن اس کتاب نے مجھے یہ احساس دلایا کہ بعد کی کتنی نسلیں اس تحریک سے متاثر ہوئیں اور انہوں نے جنوری تحریک کے آدرش کو آج تک اپنے سینہ سے لگا کر رکھا ہے“ ۔

ہائی اسکول اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے جنوری 1953ء تحریک کے ایک شریک اور این ایس ایف کے بانی رکن بیرسٹر صبغت اللہ قادری نے ”سورج پہ کمند“ پر اپنی رائے کو ان الفاظ میں بیان کیا ”ہماری بدقسمتی رہی کہ آج تک پاکستان میں حقیقی جمہوریت حاصل نہیں ہو سکی۔ فوج سیاسی جماعتوں کو کنٹرول کر رہی ہے، طلباء کو نسلی، لسانی اور صوبائی بنیادوں پر مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ طلبا کالیج یونین پر اب بھی پابندی عائد ہے اور ماضی کی جدوجہد کے بارے میں نئی نسل کو جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھا گیا ہے۔

یہ کتاب اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اگر وہ متحد ہوجائیں اور کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ رہیں تو وہ ایک بار پھر جمہوریت اور فلاح و بہبود کے لئے ایک موثر قوت کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔ میں مصنفین کو اس طرح کی ایک اہم اور مکمل تحقیق شدہ کتاب کی اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ مزید یونہی کامیابی سے چلتا رہے گا“

بزرگ صحافی اور این ایس ایس ایف کے بانی ارکان میں سے ایک جناب حسین نقی کا کہنا ہے کہ ”سورج پہ کمند کا مطالعہ قارئین کو پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخوں میں ہر سطح پر ترقی پسند قوتوں کے کردار سے قابل قدر آگاہی فراہم کرے گا۔ اس دور کے حالات و واقعات سے آگاہی سے پڑھنے والوں کو ان وجوہات کا ادراک بھی ہوگا جن کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اور باقی ماندہ پاکستان تا حال حقیقی جمہوریت سے محروم ہے۔

1965ء کے صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی شرکت اور ایوب خان کی مشکوک کامیابی، ستمبر 65ء کی جنگ، سیز فائر اور معاہدۂ تاشقند، بھٹو کی حکومت سے علیحدگی، پیپلز پارٹی کا قیام اور اس میں این ایس ایف کی قیادت کا کردار، ون یونٹ مخالف تحریک، یہ سب ہماری سیاسی تاریخ کے وہ واقعات ہیں جن کی مستند جان کاری فراہم کرنے کے لئے این ایس ایف سے وابستہ رہے مصنفین نے جس ذمہ داری سے مواد جمع کیا اس کے لئے ہم سب ان کے شکر گزار ہیں“ ۔

این ایس ایف کے ایک اور سابق کارکن پروفیسر توصیف احمد خان اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”مصنفین کی برسوں کی کاوشوں کا حقیقی فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے نوجوان ایک ایسی تنظیم قائم کریں جو طلبہ کے حقوق کے لیے جدوجہد کرے اور ترقی پسند اور سائنسی نقطہ نظر کو عام طالب علم تک پہنچائے۔ مجھے توقع ہے کہ ڈاکٹر حسن جاوید اور محسن ذوالفقار کی یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی“ ۔

آخر میں ہم ممتاز صحافی جناب احفاظ الرحمن مرحوم کے اس تبصرے کا خصوصی ذکر کرنا چاہیں گے جو انہوں نے اپنی آخری شدید علالت کے دنوں میں تحریر کیا اور جو غالباً ان کی آخری باقاعدہ تحریر ہے۔ ان کی مکمل تحریر کتاب میں شامل ہے لیکن اس کا صرف ایک اقتباس ہم ضرور یہاں شامل کرنا چاہیں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”یہ دراصل نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بکھری ہوئی سرگرمیوں کی شیرازہ بندی ہے۔ کیا عظیم الشان جماعت تھی۔ کیسے کیسے چہرے چمکتے تھے۔ کیسے کیسے کارنامے انہوں نے انجام دیے۔ پاؤں میں چھالے، جیب میں چنے، گلاس بھر پانی، آسمان فتح کرنے نکلتے تھے، زخم زخم ہونے کے بعد بھی فخر سے نعرہ لگاتے تھے۔ ایشیا سرخ ہے، مزدور کسان طلبا اتحاد زندہ باد، امریکی سامراج مردہ باد۔ پورا پاکستان ان میٹھے نعروں سے گونجتا تھا“

جلد دوم اور سوم کے ایک سو گیارہ ابواب بارہ حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں جن میں این ایس ایف اور اس کی پیشرو تنظیم ڈیمو کریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جدوجہد کی کہانی دور بہ دور بیان کی گئی ہے۔ ہم این ایس ایف کی تاریخ مجتمع کرنے کی اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب رہے ہیں اور ہم نے اس فریضہ کے ساتھ کس حد تک انصاف کیا ہے، اس کے بہترین منصف ہمارے پڑھنے والے ہوں گے۔ البتہ ہم یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ ہم نے یہ فریضہ پوری ایمان داری سے نبھانے کی کوشش کی ہے۔

اگر ہمارے انفرادی تعصبات کی جھلک آپ کو ہماری تحریر میں نظر آئے تو یہ قطعی طور پر غیر ارادی ہے جس سے بچنے کی ہم نے حتی الامکان کوشش کی ہے۔ ہماری یہ کوشش بھی رہی کہ سیاق و سباق، حقائق، اعداد و شمار اور سن و ماہ پر مشتمل اس تاریخ کو اس طرح بیان کیا جائے کہ ہر واقعہ اور تحریک کے دوران این ایس ایف کے کارکنان کے جذبات اور ان کے ولولوں کی بھی منظر کشی ہو سکے۔

سورج پہ کمند کی دونوں جلدیں اب تحریر کے مرحلے کے بعد، طباعت کے مراحل کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ یہ جلد قارئین کے ہاتھوں تک پہنچ سکیں۔ اگر آپ کے پاس ڈی ایس ایف یا این ایس ایف سے متعلق کوئی ایسا مواد موجود ہے جسے آپ کی رائے میں محفوظ کرنا اہم ہے تو آپ اس مرحلہ پر بھی ہمیں یہ مواد فوری طور پر بذریعہ ای میل روانہ کر سکتے ہیں، ہم اسے آخری مراحل میں بھی شامل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔ یہ مواد اس ای میل پتہ پر بھیجا جاسکتا ہے hasan.jawed@gmail.com

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).