پاکستان، انڈیا کو تقسیم کرتی لائن آف کنٹرول: غلطی سے سرحد پار کرنے والے جو کبھی واپس نہیں لوٹتے


شمشاد بیگم
شمشاد بیگم: جب تک میرے جسم میں آخری سانس ہے، میں ان کا انتظار کروں گی
میرے سامنے سنہ 2005 میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے اُس وقت کے وزیرِ اعظم کو لکھا گیا ایک خط پڑا ہے۔ یہ خط ایک ماں نے لکھا ہے جو گذشتہ تین برسوں سے اپنے بیٹے فاروق کے جواب کی منتظر ہیں۔

وہ لکھتی ہیں ’میں اپنے بچے کی رہائی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔‘

ان کے اس خط کے بعد ایک مقامی تنظیم نے ریڈکراس سے رابطہ کیا اور پھر ادارے نے انڈیا کی راجھستان جیل میں اُن (فاروق) سے ملاقات کی۔ ریڈکراس کے دستاویزات کے مطابق انھوں نے فاروق کی والدہ کو لکھا کہ ان کا بیٹا خیریت سے ہے اور یہ کہ وہ خطوط لکھنے کا سلسلہ جاری رکھیں۔

اس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی میں اِن ماں بیٹے کا کیا بنا، کیا فاروق واپس آئے اور اپنی ماں سے ملے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا۔

بی بی سی کے پاس موجود دیگر کئی خطوط میں سے ایک خط ایک بوڑھے باپ کے بارے میں بھی ہے۔ یہ خط سابق فوجی صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے انڈیا دورے سے قبل لکھا گیا تھا۔ خط لکھنے والے شخص کے مطابق اُن کے والد محمد شریف لائن آف کنٹرول کے قریب مویشی چرا رہے تھے کہ انھیں انڈین بارڈر فورس نے گرفتار کر لیا اور وہ جموں سینٹرل جیل میں پانچ سال سے رہائی کے منتظر تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیریوں کی ان سنی کہانیاں

’لائن آف کنٹرول پار کرنے کے بعد موت کا خوف نہیں رہا‘

’فائر تو جیسے ہمارے سر پر تھے، سن کر بیٹا بےہوش ہو گیا‘

انڈیا، پاکستان اور دونوں کے درمیان بٹے کشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں میں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں، اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر ہوا اور لائن آف کنٹرول کے بڑے حصے پر باڑ بھی لگا دی گئی۔ مگر یہ کہانیاں ختم نہیں ہوئیں۔

شمشاد بیگم سے ملیے۔۔۔

13 سال پہلے شمشاد بیگم کے شوہر لاپتہ ہوئے اور وہ آج تلک وہ اُن کی راہ تک رہی ہیں۔ ان کا تعلق وادی نیلم کے گاؤں چکنار سے ہے۔

چکنار نامی یہ گاؤں لائن آف کنٹرول سے محض پچاس میٹر کے فاصلے پر ہے اور یہاں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

یہ سنہ 2008 کی بات ہے۔ چکنار گاؤں کی جانب جانے والا راستہ ایک انڈین فوجی پوسٹ سے گزرتا ہے۔ شمشاد بیگم نے اپنے شوہر کی گمشدگی کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی فوج کی ایک یونٹ میں بطور دھوبی کام کر رہے تھے مگر سرکاری ملازم نہیں تھے۔

شمشاد

شمشاد بیگم کے شوہر جو سنہ 2008 سے لاپتہ ہیں

’ایک دن جب وہ چھٹی پر گھر آ رہے تھے تو راستے میں گاؤں کے ہی دو مزید لوگ ان کے ہمراہ ہو گئے۔ جب فوجی پوسٹ کے پاس پہنچے تو انڈین فوجیوں نے انھیں پکڑ لیا۔ ‘میرا شوہر گھر آ رہا تھا اور دوسرے دو افراد نے رمضان کے لیے سودا سلف خچروں پر لادا ہوا تھا۔ جب شام تک کوئی بھی گھر نہ آیا تو گاؤں والوں نے ڈھونڈنا شروع کیا۔ میرے شوہر کا سامان جس میں میرے لیے نئے کپڑے بھی تھے، وہیں پوسٹ کے قریب پڑا ملا۔ آج تک میرا شوہر واپس نہیں آیا۔‘

کشمیر دنیا کے ان خطوں میں سے ایک ہے جہاں سب سے زیادہ فوج تعینات ہے۔ اسے تقسیم کرتی لکیر بعض مقامات پر اتنی مبہم ہے کہ کوئی بھی دھوکا کھا سکتا ہے۔ یہاں تعینات پاکستانی اور انڈین فوجی ایک دوسرے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

شمشاد کہتی ہیں کہ وہ پاکستان اور کشمیر کی حکومت سے درخواست کرتی رہی ہیں کہ ان کے شوہر کا پتا لگایا جائے۔ ’میں نے ہر در پر ہاتھ پھیلائے ہیں، جب موقع ملا کہتی رہی کہ میرے شوہر کا پتہ کروایا جائے۔ مگر کسی نے نہیں سنی۔ آخر میں مجھے یہ بیوہ کا کارڈ پکڑا دیا گیا۔ میں نے تو اپنے شوہر کو مردہ نہیں دیکھا۔ کسی نے نہیں دیکھا مگر کسی نے خبر بھی نہیں لی۔‘

اب ہنستے ہوئے بھی شمشاد بیگم کی آنکھیں نم ہی رہتی ہیں۔

’میں ہر روز انھیں خواب میں دیکھتی تھی۔۔۔ ہر روز۔ میں دیکھتی کہ وہ زندہ ہیں۔ مجھے اب بھی یقین ہے کہ وہ زندہ ہیں اور جب تک میرے جسم میں آخری سانس ہے، میں ان کا انتظار کروں گی۔ مجھے بس یہ پتا ہے کہ ابھی وہ اپنی قسمت میں لکھی تکلیف کاٹ رہے ہیں۔‘

ان کے شوہر کے ساتھ لاپتہ ہونے والے دیگر دو افراد کے بیویوں نے دوبارہ شادی کر لی ہے مگر شمشاد بیگم نے انتظار کو ترجیح دی۔

شمشاد

’میں نے تو اپنے شوہر کو مردہ نہیں دیکھا، کسی نے نہیں دیکھا مگر کسی نے خبر بھی نہیں لی‘

یہ اور ایسی کئی کہانیاں ان افراد کی ہیں جو 1990 سے اب تک صرف اس لیے انڈین فوج کی حراست میں گئے کیونکہ ان پر ’لائن آف کنٹرول پار کرنے‘ کا الزام تھا۔ ان کے اہلخانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان میں سے بعض نے انجانے میں لائن آف کنٹرول پار کر لی اور بعض تو اپنے ہی علاقے میں موجود تھے جب انھیں گرفتار کیا گیا۔

لائن آف کنٹرول انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازع کشمیر کو تقسیم کرتی لکیر ہے۔ اس کے زیادہ تر حصے پر انڈیا نے باڑ بھی نصب کر رکھی ہے مگر کئی مقامات ایسے ہیں جہاں باڑ نصب نہیں یا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آبادی سے بھی پیچھے ہے۔ اگر لائن آف کنٹرول کے ساتھ سفر کریں تو ایک بڑے حصے پر فوجی چوکیاں یا تو آبادی کے پیچھے ہیں اور بعض مقامات پر یہ باڑ سے آگے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی جانب ہیں۔ اور یہ منظر دونوں اطراف کا ہے۔

ہر سال خاص طور پر فصلوں اور گھاس کی کٹائی کے دوران غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کرنے کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

ان گمشدگیوں کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کی زندگی نہایت دشوار گزرتی ہے۔ خاص طور پر ان گھرانوں میں جہاں اہلخانہ طویل عرصے تک لاعلم رہیں کہ ان کے گھر کا فرد زندہ ہے یا مردہ۔

شمشاد بیگم کے بیٹے محمد صدیق نے بھی بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ ان کی عمر اپنے والد کے لاپتہ ہونے کے وقت دس سال تھی۔

’میں وادی کیل میں ایک سکول میں پڑھتا تھا اور ابو اس دن چھٹی پر گھر گئے۔ شام کو میرا کزن مجھے گاؤں لے گیا۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ ابو گھر نہیں پہنچے تھے۔ میں اس جگہ گیا جہاں سے انھیں انڈین فوجی لے گئے تھے۔ وہاں خون کے نشان مجھے اب بھی یاد ہیں۔ ابو کے سامان کا بیگ بھی پڑا تھا۔ اس میں کپڑے تھے جو انھوں نے امی کے لیے خریدے تھے۔ ان کے ساتھ گاؤں کے دو اور لوگ بھی تھے جو رمضان کے لیے گھر سودا لا رہے تھے۔ وہ سارا سامان خچروں پر لدا ہوا تھا۔ مگر وہ تینوں لوٹ کر نہیں آئے۔‘

یہ اس گاؤں میں اس نوعیت کا چوتھا واقعہ تھا۔ یہ گاؤں ’زیرو لائن‘ پر ہونے کی وجہ سے کراس بارڈر فائرنگ کی زد میں بھی رہتا تھا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ گاؤں کے باسی یہاں سے محفوظ مقام پر منتقل کیے جائیں۔

شمشاد

’ شوہر کے چلے جانے سے میری اور میرے بچوں کی زندگی تباہ ہو گئی تھی‘

شمشاد بیگم کے مطابق ان کا گاؤں چکنار اور قریبی آبادی ڈھکی کو خالی کرایا گیا اور انھیں نیلم وادی میں ہی ایک عارضی طور پر قائم کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ شمشاد کچھ عرصہ کیمپ میں رہیں اور پھر مظفر آباد منتقل ہو گئیں۔ شمشاد وہ وقت یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں:

’میں نے گھروں میں، کھیتوں میں کام شروع کیا تو میرے بچوں نے کہا کہ وہ مجھے کام نہیں کرنے دیں گے۔ میرا بڑا بیٹا صرف دس سال کا تھا، اس نے سکول چھوڑا اور مظفر آباد میں مزدوری کرنے لگ گیا۔ میرے دوسرے بچوں نے بھی ایسا کیا۔ ہمارا گزر بسر بہت مشکل تھا۔ لوگوں سے قرض لیتے اور گھر کا سودا سلف لاتے۔ یہ ٹیِن کی چھت کا کمرا بھی قرض لے کر بنایا۔ صرف شوہر کے چلے جانے سے میری اور میرے بچوں کی زندگی تباہ ہو گئی تھی۔‘

اور یہ واقعات صرف عام شہریوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے اسی بارے میں بی بی سی اردو کو بتایا کہ انتخابات کی مہم کے دوران وہ بھی غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کر گئے تھے۔

’میں انتخابی مہم کے لیے اپنے علاقے میں گیا اور باتھ روم دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رفع حاجت کے لیے مجھے لوگوں سے کچھ دور جانا پڑا۔ اچانک ایک شخص کی آواز آئی، ’اوئے تم ادھر کیا کر رہے ہو‘ میں نے اوپر دیکھا تو انڈین فوجی تھا۔ میں نے اس کو بولا بھائی مجھے کیا پتا کہ یہ تمہارا علاقہ ہے، میں تو اب رفع حاجت کے بعد ہی واپس جاوں گا۔‘

وہ سوال کیا کرتے ہیں تو اب کیا میں دہشت گرد بن گیا ہوں؟ کیا مجھے گرفتار کر لینا چاہیے تھا؟ ’میری جگہ کوئی عام شخص ہوتا تو اس کو گرفتار کر لیا جاتا یا گولی مار دی جاتی۔‘

لیکن ایک بھول کیسے زندگی بھر کا خوف بن سکتی ہے، اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان افراد نے بی بی سی کو بتائی جو غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کر گئے اور پھر انڈین آرمی کی زیرحراست رہے۔

لائن آف کنٹرول

لائن آف کنٹرول کے پار انڈین فوج کی چوکی باآسانی دیکھی جا سکتی ہے

سعد (فرضی نام) کو انڈین فوج نے اس الزام کے تحت حراست میں لیا کہ وہ انڈیا کے زیر انتظام علاقے میں داخل ہوئے ہیں۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے دوست کے ہمراہ اپنے ہی گاؤں میں گھاس کاٹ رہے تھے جب انھیں ’گرفتار‘ کر لیا گیا۔

’ہم گھاس کاٹ رہے تھے اور مویشی چر ا رہے تھے، ہم گاؤں کے قریب اپنے ہی علاقے میں موجود تھے اور مطمئن تھے۔ اتنے میں چاروں طرف سے فوجی آئے اور ہم میں سے دو لوگوں کو لے گئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ انڈین فوجی ہیں اور ہم ان کے علاقے میں آ گئے ہیں۔ ہم نے کہا بھی کہ یہ ہمارا اپنا علاقہ ہے مگر انھوں نے نہ سنا اور ہمیں قید کر لیا۔‘

’جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ یہ انڈین فوجی ہیں اور ہمیں اپنے کیمپ میں لے جا رہے ہیں تو ہماری زندہ رہنے کی امید بھی ختم ہو گئی تھی۔ انھوں نے ہماری آنکھوں اور کانوں پر کئی دن پٹیاں باندھے رکھیں۔ ہم جب بھی کہتے کہ ہم بے قصور لوگ ہیں، وہ ہمیں مارتے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ نہیں پتا تھا کہ رائفل سے مار رہے ہیں یا ڈنڈوں سے۔ جوڑوں پر مارتے رہے، زیادہ سر پر مارتے تھے۔ کانوں اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی سو ہمیں نہیں پتا تھا کہ ہم کہاں ہیں یا ہمارے ساتھ اور کوئی ہے یا نہیں۔‘

ان کے خاندان نے پاکستانی فوج سے رابطہ کیا، جنھوں نے انڈین حکام سے بات چیت کی۔

سعد (فرضی نام):

سعد: ‘یہ نہیں پتا تھا کہ رائفل سے مار رہے ہیں یا ڈنڈوں سے۔ جوڑوں پر مارتے رہے، زیادہ سر پر مارتے تھے‘

تقریبا ایک ہفتے بعد انھیں لائن آف کنٹرول کے ایک کراسنگ پوائنٹ پر پاکستانی فوج کے حوالے کر دیا گیا۔

بی بی سی نے اسی بارے میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے بات کی۔ اور ان سے پوچھا کہ لائن آف کنٹرول پر باڑ لگنے کے بعد کیا صورتحال ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سنہ 2005 کے بعد اس طرح کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ ‘پہلے یہ واقعات بہت زیادہ تھے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ کشمیری عوام کا علاقہ ہے اور وہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ بہت سے مقامات پر دونوں جانب آبادی فوجی پوسٹوں کے آگے ہے۔ ایسی صورت میں بھی ہم تسلسل کے ساتھ لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ انھوں نے احتیاط کرنی ہے اور کس طرف نہیں جانا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ لائن آف کنٹرول کہاں ہے۔ چونکہ یہ واضح طور پر نشان دہی نہیں ہے اس لیے لوگ غلطی سے دوسری جانب چلے جاتے ہیں۔’

آئی ایس پی آر کے مطابق اس ضمن میں دو طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ایک وہ جن میں کسی نے غلطی سے سرحد پار کر لی اور دوسرے وہ جنھیں انڈین فوجی ہمارے علاقے کی جانب آ کر گرفتار کر لیتے ہیں کہ انھوں نے ایل او سی کی خلاف ورزی کی ہے۔ دونوں صورتوں میں ان افراد کو واپس لانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

تو اگر کوئی شخص لائن آف کنٹرول کے علاقے سے لاپتہ ہوا ہے یا اس کو انڈین فورسز نے حراست میں لیا ہے تو ان کی واپسی کا طریقہ کار کیا ہو گا، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاکستانی فوج کے ایک نمائندے نے بتایا کہ لاپتہ یا حراست میں لیے جانے والے شخص کے اہلخانہ قریبی فوجی پوسٹ سے رابطہ کرتے ہیں جس کے بعد دو طریقوں سے کیس کو فالو کیا جاتا ہے۔

فاروق حیدر

انتخابات کی مہم کے دوران میں بھی غلطی سے لائن آف کنٹرول پار کر گیا تھا

’ایک تو ملٹری آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کو مطلع کیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب مقامی سطح پر بھی پہلے سے قائم ہاٹ لائن پر انڈین حکام سے رابطہ کیا جاتا ہے اور انھیں بتایا جاتا ہے کہ فلاں شخص آپ کے پاس ہے اور انھوں نے غلطی سے لائن پار کی یا پوچھا جاتا ہے کہ فلاں لاپتہ ہونے والا شخص کیا ان کے پاس ہے۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق سنہ 2005 کے بعد اس طرح کے واقعات میں خاطر خواہ کمی بھی آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں میں اس طرح کے 52 واقعات پیش آئے جن میں سے 33 افراد کو انڈین فوج نے حراست میں لینے کے بعد واپس بھیج دیا۔ مگر ان میں سے چھ افراد ایسے بھی تھے جن کی لاشیں واپس آئیں۔ ان میں سے بیشتر اس وقت مارے گئے یا زخمی ہوئے جب بارڈر فورس نے ان پر فائر کھول دیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق تیرہ افراد اب بھی انڈین حراست میں ہیں اور ملک واپسی کے منتظر ہیں۔

مگر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کے مطابق لائن آف کنٹرول کے قریبی دیہاتوں سے سنہ 2005 سے قبل لاپتہ ہونے والوں کی درست تعداد کا کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

ایک غیرسرکاری تنظیم سنہ 2005 تک ان لاپتہ افراد کے لیےکام کرتی رہی اور اس وقت یہ تعداد 300 کے قریب تھی۔ مگر 2008 کے بعد اس تنظیم نے بھی اس علاقے میں کام ختم کر دیا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے ایک خصوصی نشست کے دوران بی بی سی کو بتایاکہ یہ واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیے

ایل او سی: ’میں انھیں ہتھیار صاف کرتے ہوئے دیکھ سکتا تھا‘

‘ایک بیٹی انڈین ہے تو ایک پاکستانی،یہی ان کی تقدیر ہے’

جنت ارضی سے دہلی کی لڑکی کے نام خط

’اگر پہلے کوئی غلطی سے چلا جائے تو ہم بھی واپس کر دیتے تھے وہ بھی کر دیتے تھے۔ مگر پانچ اگست کے بعد دونوں طرف کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اکثر وہ مار دیتے ہیں۔ یہاں کوئی نہیں مارتا کسی کو۔ وہ گولی مار دیتے ہیں۔ واپس نہیں کرتے، بتاتے بھی نہیں کہ وہاں گیا یا نہیں۔ میں دفتر خارجہ کو لکھوں گا کہ وہ یواین کے کمیشنز میں یہ معاملہ اٹھائیں تاکہ ان کی واپسی ہو سکے‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جو باڑ لگی ہے وہ لائن آف کنٹرول سے کچھ پیچھے ہے۔ ہمارے ہاں مال مویشی کے لیے گھاس کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ تو یہ لوگ چلے جاتے ہیں گھاس کاٹنے کے لیے۔ وہ انھیں پکڑ لیتے ہیں کہ انھوں نے ایل او سی پار کی ہے۔ حالانکہ فینس تو پیچھے لگا ہے۔ ایک تو اس طرح کے بیشمار لوگ ہیں۔‘

لیکن انڈیا ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ انڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان لائن آف کنٹرول کے پار جنگجو اور اسلحہ بھیجتا ہے۔

بی بی سی کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ

’پاکستان کی جانب سے یہ سویلین سرگرمیوں کی آڑ میں اسلحہ اور بارود لائن آف کنٹرول کی اِس جانب بھیجنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ ہم نے سرحد پار دہشتگردی، اسلحہ کی سمگلنگ اور منشیات کی ترسیل میں بھی پاکستان کی مدد دیکھی ہے۔ ان سرگرمیوں کے لیے ڈرون اور کاڈکاپٹر بھی استعمال کیے گئے۔‘

تاہم انڈیا کی جانب سے ان لاپتہ افراد کی تعداد اور واپسی سے متعلق سوال کا واضح جواب نہیں دیا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کی مسلح افواج ایک طرف تو فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہیں اور اکثر یہ خلاف ورزیاں آبادی والے علاقوں میں ہوتی ہیں جن سے دہشت گردوں کو لائن آف کنٹرول پار کرانے میں مدد لی جاتی ہے۔ یہ 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔‘

اس بارے میں پاکستان کی وزارِت خارجہ کیا کر رہی ہے؟ بی بی سی نے متعدد بار پاکستان کے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا مگر کوئی جواب نہیں مل سکا۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے دفتر خارجہ میں ان لاپتہ افراد کے حوالے سے کام ہونا چاہیے اور ایسا ڈیسک تشکیل دیا جائے جو انڈین حکام سے ان کی واپسی یا ان سے متعلق تفصیلات فراہم کرنے کے بارے میں بات کرے۔

یہ کب ہو گا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

وہ جنھوں نے یہ جنگ شروع کی نہ ہی اسے ختم کرنے کی سکت رکھتے ہیں، بے یار و مددگار ہیں۔

جب ہم شمشاد بیگم سے مل کر واپس آ رہے تھے، وہ اپنے گھر میں اپنی بھتیجی کا استقبال کر رہی تھیں۔ ان کی بھتیجی کی شادی تھی اور وہ ایک مقامی رسم کے تحت دلہن کو ایک دن کے لیے گھر لائی تھیں۔

ان کا بیٹے صدیق مہمانوں کے لیے کھانا پکا رہے تھے۔ یہ خاندان بھی کشمیر کو تقسیم کرتی لکیر کی دونوں جانب بسے درجنوں خاندانوں کی طرح زندگی میں آگے بڑھ رہا ہے۔ مگر دکھ کم ہوا نہ ہی بچھڑنے والوں کی واپسی کی امید ٹوٹی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp