کرونا وائرس کی دوسری لہر کے لئے


ایک دوست کا قصہ ہے کہ اسے یہ شک لاحق ہو گیا کہ وہ یرقان (ہیپاٹائیٹس ) کے مرض میں مبتلا ہے۔

انسانی دماغ کی یہ خاصیت ہے کہ جو شے اس میں ایک بار چپک جائے یا یہ جس موضوع میں دلچسپی لینے لگے تو دنیا مافیہا سے بے خبر اسی دھن میں مگن ہوجاتا ہے۔ بس چلتے پھرتے، سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اسے وہی سوجھتا ہے یا یوں کہیے کہ ایک ہڑک سی اٹھتی ہے جو دیوانہ وار اسے اسی سمت سوچنے اور اسی کی ٹوہ میں سرگرداں رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اگر تو یہ لگن اور ہوک ترقی پسندی کی ہو اور تخلیقی آئیڈیاز سے بھرپور ہو تو سبحان اللہ۔ انسان کے وارے نیارے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایسوں کی ایسی قسمت کہاں؟

ہمیں تو خیالات جکڑتے بھی ہیں تو ایسے کہ جن کا بوجھ یا تو ہمارا دماغ اٹھائے یا پھر فقط منٹو کا قلم اور آج کے زمانے میں بلاتعطل تیز رفتار ان لمیٹڈ انٹرنیٹ۔

معاف کیجیئے گا میں ادھر ادھر نکلا جاتا ہوں۔

تو ہمارے دوست نے دن رات ہیپاٹائیٹس کو اپنے اعصاب پر سوار کر لیا۔ جسے ملتا اسے بتاتا۔ جہاں کہیں کوئی معلوماتی پرچہ یا اشتہار دیکھتا رک کر آخری سطر تک یرقان کی تمام علامات، وجوہات اور احتیاطی تدابیر کے بعد پرنٹنگ پریس والوں کے نام تک پڑھ جاتا۔

احباب نے بہتیرا سمجھایا لیکن اس نے ماننے سے انکار کر دیا اور ٹیسٹ کرایا۔

نیگیٹو آیا۔ مگر اس کی تسلی نہ ہوئی۔ وہ جس قدر ہیپاٹائیٹس کی عمومی (جنریلائزڈ) علامات پر غور کرتا سبھی کو اپنے اندر موجود پاتا۔ پیلی آنکھیں، تکان، متلی وغیرہ وغیرہ۔ اس کو گمان ہوا کہ اس کے ٹیسٹ کی رپورٹ میں لیب والوں کو مغالطہ ہوا ہے یا پھر اس کا سیمپل کسی دوسرے صحت مند کے سیمپل کے ساتھ مکس اپ ہو گیا ہے اور اسی لئے رزلٹ منفی آیا ہے۔ اگلے چھ ماہ اس نے اور زیادہ شدت سے ہیپاٹائیٹس کے بارے میں سوچ بچار میں گزارے اور ایک بار پھر سے ٹیسٹ کرایا۔

اور یہ کیا؟ اس بار اس کا ٹیسٹ رزلٹ واقعی مثبت آ گیا۔

اب لگا یہ بے سان ہو کر پھرنے۔ قسمت اچھی تھی کہ ایک ماہر ہیپاٹالوجسٹ جو نفسیات سے بھی خاصی سوجھ بوجھ رکھتا تھا کے ہتھے چڑھ گیا۔ اس نے اس کی پہلے تو ٹھیک ٹھاک کونسلنگ کی۔ اس کا خوف اس کے دل سے نکال باہر کیا۔ اور سمجھایا کہ ہر وقت اس کو دماغ اور اعصاب پر لینا بند کرے۔ ورنہ کل کا مرتا آج مرے گا۔ خوب اچھا صحت بخش معمول، صبح کی سیر، متوازن خوراک اور چند ضروری ادویات اس کو تجویز کیں اور یہ چند دنوں میں رو بہ صحت ہو گیا۔

ایک ایسی ہی پوری کیفیت کو معروف برطانوی مزاح نگار جیروم۔ کے۔ جیروم نے اپنے شہرہ آفاق مضمون ”آ مین ہو ووز آ ہاسپٹل“ (A man who was a Hospital) میں ایسے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے جو کم و بیش ہم میں سے ہر ایک پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔

اس مضمون میں بھی ایک شخص تمام بیماریوں کی علامات خود میں محسوس کرتا ہے ماسوائے گھٹنے کے درد کے۔

لیکن جب ڈاکٹر کو بتاتا ہے تو وہ اسے سینے پر مارتا ہے اور صرف چند دوائیں، اچھی خوراک اور مناسب ورزشیں تجویز کرتا ہے۔

جو کہ صحت کا اصل راز ہے۔

دراصل ہم جو بات بہت زیادہ سوچتے ہیں ہمارا دماغ اسی قسم کے پیغامات ہمارے جسم کو بھیجنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی قسم کے ہارمونز و نیوروٹرانسمیٹرز خارج کرنا شروع کر دیتا ہے۔

آپ ابھی مسٹر بین کی فلم لگا لیں ابھی وہ بیچارہ کوئی بے وقوفانہ حرکت کرے گا بھی نہیں کہ آپ ہنسنا شروع کردیں گے۔ یہی حال دیگر ”فلموں“ کا بھی ہے۔

اسی طرح کہیں لڑائی ہو جائے چاہے آپ بے حد تھکے ہارے اور بھوکے پیاسے کیوں نہ ہوں ایک دم ایک برقی توانائی سی آپ کے جسم میں بھر جائے گی۔ اس کو فائٹ اینڈ فلائٹ ری ایکشن کہتے ہیں۔ یہ ایڈرینالین نامی ہارمون کے اخراج کے باعث ہوتا ہے۔ یعنی جو ہم سوچتے ہیں دماغ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور ویسے اثرات آپ کے جسم پر چھوڑتا ہے۔

ایک بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ دنیا کی تمام معمولی، غیر معمولی قابل علاج اور لاعلاج بیماریاں، ان کے جرثومے اور وجوہات ہمیں جان سے مار دینے کے لئے کافی ہیں۔ اور جب بیماری بگڑنے پر آئے تو دنیا کی کوئی دوائی کوئی حاذق کوئی حکیم کوئی ڈاکٹر کوئی ویکسین اور کوئی پلازما کام نہیں کرتا۔ یہ بات سب جانتے ہیں اور مانتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہم کسی ”سٹیرائل (Sterile)“ ماحول میں سانس لے رہے ہیں جہاں مائکروبز کا وجود صفر فیصد ہے؟

یہ سموگ سے تعفن زدہ فضا، یہ زہریلا پانی، یہ زہریلی خوراکیں اور سم قاتل ہمارا طرز زندگی۔

بیٹھے ہیں تو بیٹھے ہیں اٹھنے کا نام نہیں۔ اٹھیں گے نہیں بلکہ ٹانگیں پسار کر لیٹ جائیں گے۔ اس سب کے باوجود بھی ہم اگر صحت مند ہیں تو ہمیں رات دن اس خدا کا متشکر ہونا چاہیے کہ جس نے ہمیں اس قدر طاقتور اور ہماری سوچ سے بھی زیادہ ذہین مدافعتی نظام سے نواز رکھا ہے۔

دن بھر میں کروڑوں نہیں بلکہ کھربوں سے بھی زیادہ بیکٹیریا، وائرس، فنگس، سپورز، قاتل پروٹینز، کیمیکلز اور نہ جانے کیا کیا الا بلا ہمارے نتھنوں، آنکھوں، دہن، مساموں اور دیگر حصوں سے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور برق رفتاری سے مدافعتی نظام حرکت میں آتا ہے اور انہیں تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔

تو اصل چیز جس کی طرف بہت کم دھیان ہے وہ ہمارا مدافعتی نظام ہے۔ یہ ایک پورا اور اتنا پیچیدہ نظام ہے کہ اگر اس پر لکھا جائے تو صرف اس نظام کے مختلف اجزا کو بیان کرنے کے واسطے ایک کتاب جدا لکھنی پڑے۔ مختصراً یہ کہ مدافعتی نظام دنیا کے ہر جرثومے، کیمیکل، وائرس اور زہریلی اشیا کے خلاف قدرتی طور پر ویکسین، اور ادویات ہمارے جسم کے اندر ہی تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور بیماریوں سے بچاتا ہے۔

یہ سب ویکسینز، اینٹی بائیوٹکس، اینٹی وائرلز وغیرہ مدافعتی نظام کو نقل کر کے ایجاد کی گئیں ہیں۔
اب کرونا کی دوسری لہر جاری ہے۔ کرونا وائرس اس صدی کی شاید سب سے مہلک و قاتل وباؤں میں سے ایک ہے۔

اس میں کوئی چند علامتوں کے بعد مکمل صحت یاب ہو رہا ہے، کوئی آکسیجن پر جا کر صحت یاب ہو رہا ہے۔ کسی کو پلازما لگانے کی نوبت آ رہی ہے۔ اور کوئی بیچارہ اس کا مقابلہ کرنے سے بالکل ہی عاجز ہے اور راہی عدم ہے۔

بات وہی نظام مدافعت کی ہے۔ ہم نے اسے طاقتور بنانا ہے۔

ورزش، آٹھ سے دس گھنٹے کی پرسکون نیند (اگر موبائل اجازت دے دے تو) اور صحت بخش غذائیت سے بھرپور پھل اور سبزیوں پر مشتمل خوراک کو روزانہ کے معمولات میں شامل کرنا ہے۔

اور نظام مدافعت کا دماغ سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ یقین جانیئے ہمارا یہ دماغ اور اس میں چھپی بے پناہ طاقت ایسے ایسے حرکت انگیز کارنامے کر سکتی ہے جن کا ہم تصور بھی شاید نہیں کر سکتے۔

غیر ضروری سنسنی اور خوف کو ذہن سے نکال پھینکیں۔ ایک جگ اور گلاس کو بھی اگر دو تین گھنٹے اٹھا کر مسلسل کھڑے رہیں تو بازو شل ہو جائے گا۔ یہی حال خوف کرتا ہے اعصاب کا، دماغ کا اور قوت مدافعت کا۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ماسک پہننا، ہاتھ دھونا اور سماجی فاصلہ رکھنا چھوڑ دیں۔ حتی الامکان احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں لیکن یاد رکھیں اس وبا کا اصلی مقابلہ لاشعور کی طاقت اور مدافعتی نظام اور سب سے بڑھ کر ذوالجلال والاکرام کے کرم سے ہی ممکن ہے۔

اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).