وہی نظر آئیں جو آپ ہیں


میری شدید خواہش ہے کہ وقت رک جائے۔ ہر چیز ساکت ہو جائے۔ رات دن کے تعاقب میں بھاگنا چھوڑ دے۔ رات کا فسوں طاری ہو تو پھر یہ سحرکبھی نہ ٹوٹے۔ یا پھر دن چڑھے تو رات ہمیشہ کے لیے کہیں گم ہو جائے، دن رات کی تمنا بھول جائے۔ میرا دل کرتا ہے میں چڑیا کی طرح بجلی کے تار پہ جھولا جھولوں، تو کبھی منڈیر پہ بیٹھ کے کسی کے آنگن میں جھانکوں۔ آپ کو میری خواہشوں پہ حیرانی تو ہوگی، لیکن میرا دل ایسی ہی بے ضرر خواہشات سے بھرا پڑا ہے۔

مجھے یہ بتانے سے کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ میری ایسی خواہشات مجھے بے چین رکھتی ہیں۔ بے چینی کو محسوس کرنا بھی عجب ہے۔ جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو بے چینی کس بلا کانام ہے ککھ پتہ نہیں ہوتا۔ ماں کی مار پہ سب کے سامنے روتے دھوتے، سکول جانے پہ منہ بسورتے ہم کب اپنے تاثرات کو چھپانا سیکھ جاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ ہم بڑے ہو کر اپنے چہرے پر نقاب چڑھا لیتے ہیں۔ اس نقاب کے پیچھے ہم بہت کچھ چھپا لیتے ہیں۔

میں پکی شہرن اندر سے خالص پینڈو ہوں، میں اپنے چہرے پہ نقاب چڑھانے میں ناکام رہی ہوں۔ میرے اندر دیہات کی سادہ لوحی کنڈلی مارے بیٹھی ہے۔ دیہات کی سادہ مزاجی جسے آپ پڑھے لکھے لوگ گنوار پن کہتے ہیں، مجھ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے، اور مجھے اس پہ کسی قسم کی شرمندگی نہیں، تبھی تو اپنے گنوارپن سے جان چھڑانے کی کوشش نہیں کی، میں جیسی ہوں ویسی ہی رہنا چاہتی ہوں۔ مجھے اپنی سادہ مزاجی پسند ہے۔ کہ لوگ میری سادہ مزاجی سے دھوکہ نہیں کھاتے۔

میرے اس روپ سے کسی کونقصان تو نہیں پہنچتا۔ ورنہ لوگ سوانگ بھر کر مہذب اور شائستہ نظر آتے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ دونوں ہی چیزیں ان میں نہیں ہوتیں۔ لیکن چونکہ وہ سوانگ بھر کے بیٹھے ہوتے ہیں تو لوگ ان پہ یقین کرلیتے ہیں ان کے قریب ہونے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور پھر اس یقین اور قربت کا خمیازہ بھگتتے ہیں۔ میں شہر میں رہنے کی تہذیب سے ناواقف تو نہیں لیکن اس تہذیب نامی بلا سے انجان رہنا چاہتی ہوں۔ جسے آپ تہذیب یا رکھ رکھاؤ اور شائستگی کا نام دیتے ہیں، میرے نزدیک وہ بناوٹ اورر ملمع ہے جو لوگوں نے اپنے اوپر چڑھا لیا ہے۔

زہر بھرے جملے دماغ میں دہراتے بناوٹی جملوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ دل میں قدورت رکھتے ہوئے ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجا کے ملنا تہذیب نہیں منافقت ہے، دھوکہ ہے۔ مجھے دل اور گھر دونوں ہی سادہ پسند ہے کسی بھی قسم کے جھوٹ اور جھوٹی آرائش سے پاک۔ گھر میں بے مصرف چیزوں کا انبار پسند ہے نہ دل میں ریاکار بناوٹی لوگوں کا ہجوم۔ میں گھر اور دل دونوں کو کشادہ اور سادہ رکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے گھر سے مٹی کی سوندی مہک اور دل سے محبت اور چاہت کی خوشبو آتی رہنی چاہیے۔

تبھی تو میں شہر کے گھٹن زدہ ماحول سے دور چلی جانا چاہتی ہوں۔ میں خالص فضا میں سانس لینا چاہتی ہوں کہ مجھے اس بناوٹی ماحول سے وحشت ہوتی ہے۔ میں دکھاوے کے لیے نظر آنے والے مہذب لوگوں کے چنگل سے فرار چاہتی ہوں۔ میں کھل کے جینا چاہتی ہوں۔ میں کسی بات پہ بے وجہ ہنسنا چاہتی ہوں۔ مجھے دوسروں کی نقالی میں خود پر خول نہیں چڑھانا۔ مجھے دکھاوے کے لیے نہیں جینا۔ میں کسی کے گھر کی ڈور بیل بجا کر بھاگنا چاہتی ہوں۔

سچی بات ہے کبھی موقع لگے تو میں آج بھی ایسا کر گزرتی ہوں۔ کہ میرے پاس چھوٹی چھوٹی خوشیوں پہ خوش ہونے کے بڑے بہانے ہیں اور یہ چھوٹی خوشیاں میرے لیے اتنی بڑی ہیں کہ ان کے سامنے مجھے اپنا آپ چھوٹا لگتا ہے۔ سچ پوچھیے تو مجھے ’بڑا ہونے‘ کا کوئی شوق بھی نہیں۔ کہ میرے دل میں بہت چھوٹے ارمان ہیں اور بڑے ہونے کے چکر میں خوامخواہ کی تکلیف و تکلفات میں پڑ کر میں ان خوشیوں سے محروم نہیں ہونا چاہتی۔ ’بڑا نظر آنے کے لیے‘ جھوٹ موٹ کی وضع داری نبھانی پڑتی ہے۔

وضع داری اور تکلف بری چیز نہیں لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ اگر کسی ہوٹل میں پزا کھانے جائیں تو پزے کو چھری کانٹے ہی سے کھائیں۔ لازم ہے کہ اس اطالوی ایجاد سے انگریزی ہتھیاروں کے ساتھ ہی نمٹا جائے۔ سموسہ اگر چمچ سے نہیں کھایا جاتا تو کیا سموسہ کھانا چھوڑ دینا چاہیے۔ میں بسکٹ کوچائے میں ڈبوئے بغیر نہیں کھا سکتی، تو جہاں چائے کے ساتھ بسکٹ ملنے کا امکان ہو کیا مجھے وہاں جانا چھوڑ دیناچاہیے کہ بسکٹ چائے میں ڈبونا معیوب سمجھاجائے گا۔

یار میں جیسی ہوں مجھے ویسا ہی نظر آنے دیں۔ مجھے خود پر خول چڑھانے پہ مجبور مت کریں۔ کیا ضروری ہے کہ خود پر خول چڑھا کر جیا جائے۔ مجھے انگریزی نہیں آتی لیکن آپ کو شاید حیرت ہو کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی۔ کیونکہ اس کو لے کر مجھے کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہے۔ مجھے تو ان لوگوں پہ حیرت ہوتی ہے جو ’مہذب‘ نظر آنے کی کوشش میں خود کو کئی پرتوں میں چھپالیتے ہیں، اپنے اوپر خول چڑھا لیتے ہیں۔ میرے جیسے بے مایہ لوگ تو پھر تھوڑا بہت کھل کر جی لیتے ہیں۔

لیکن وہ جن کے پاس تھوڑا پیسہ آ گیا ہے وہ زیادہ خوفناک ہو گئے ہیں۔ ان کے چہروں کی طرف دیکھو تو لگتا ہے کوئی سانحہ ہو گیا ہے۔ وہ اپنی زندگی کی حلال خوشیاں خود پر حرام کر بیٹھے ہیں اور حرام کی طرف آگ کے شعلوں کی طرح بڑھتے جاتے ہیں۔ تھوڑا پڑھ کر زیادہ کمانے کے چکر میں انھوں نے خود کو ایک خول میں بند کر لیا ہے۔ مبادا کسی حرکت سے ان کا اصل نہ ظاہر ہو جائے۔ انھیں دیکھ کر لگتا ہے جیسے انھیں اپنے اندر کے اصل انسان کے باہر بھاگنے کاخدشہ ہے اسی خوف میں مبتلا وہ آدھے تیتر آدھے بٹیر بن گئے ہیں۔

عجب ہو گئے ہیں نہ کھل کر جیتے ہیں نہ ہنستے ہیں۔ جہاں کھل کر ہنسنا ہو وہاں صرف مسکرانے پہ اکتفا کرتے ہیں۔ اور جہاں چہرے پہ مسکراہٹ آئے وہاں منہ زور سے دبا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کہ خبردار بڑے تمیزداروں کی محفل ہے یہاں ہنسنا بدتمیزی ہے۔ پتہ نہیں کیوں لوگوں نے ہر بات کو سٹیسٹس سمبل بنا لیا ہے۔ خود کو چھپا کر دوسروں سے ملتے ہیں۔ مانا دفتر میں دھوتی کرتا پہن کر جانا مضحکہ خیز ہے لیکن ٹائی جیسا پھندا گلے میں لگا کر خود کو جیتے جی مرا ہوا تصور کرنا بھی تو غلط ہے۔

سرکاری و غیر سرکاری دفتر میں داخل ہونے والے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ اب پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس میں ان کا کیا قصور جن کی نگاہیں ان راستوں میں ٹھہر گئں ہیں جن راستوں کو یہ دھول اڑاتا چھوڑ آئے ہیں۔ دیکھیے آپ آگے بڑھیئے یہ آپ کا حق ہے لیکن پیچھے رہ جانے والوں کو بھی یاد رکھیں۔ آپ بڑے ہوجائیے بہت بڑے ہوجائیے لیکن اپنے بڑوں کی آسوں کو چھوٹا مت ہونے دیں۔ پرانے دوستوں سے اسی طرح ملیے جیسے آخری بار ان سے بچھڑے تھے۔

یاد کیجیئے وہ چھوٹی چھوٹی شرارتیں جس میں کبھی کسی کا نقصان نہیں ہوتا تھا۔ آگے دیکھیے بڑے ہوجائیے ترقی کریں لیکن اپنے اندر کے انسان کو مت ماریں اسے ویسا ہی رہنے دیں جیسا وہ شروع سے تھا۔ شاندار مستقبل کے خوابوں میں کھوکر اپنا حال تاریک مت کریں۔ دکھاوے کے لیے اپنا آپ مت ماریں۔ کہ اپنے اصل کو دبانے، چھہانے سے پھر جو ظاہر ہوتا ہے اکثر وہ بڑا نقصان کر جاتا ہے اس سے آپ کا ذاتی نقصان جو ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے لیکن دوسروں کاجو نقصان ہوتا ہے اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ آپ اچھے ہیں یا برے ہیں کوشش کریں۔ آپ جیسے ہیں ویسے ہی نظر آئیں تاکہ دوسرا آپ کو محفوظ رکھ سکے یا پھر آپ سے محفوظ رہ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).