قائد اعظم کا پاکستان: ہم کہ ٹھہرے اجنبی


2020ء پوری دنیا کے لیے ایک منحوس سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ 2020 میں شاذ شاذ ہی کوئی اچھی خبر سننے کو ملی (ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے موجودہ الیکشن کے سوا) لیکن پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے لئے یہ سال انتہائی اذیت ناک اور المناک ثابت ہو رہا ہے۔ تبدیلی مذہب اور جبری شادی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

یوں تو جبری تبدیلیمذہب اور ایک ہی دن میں شادی کا رجحان کئی برسوں سے دیکھنے میں آ رہا تھا لیکن اگر ہم خصوصاً 2020کی بات کریں اور خصوصی طور پر پاکستان میں مذہبی اقلیت کی بات کریں تو پاکستانی اقلیتوں، خصوصاً مسیحیوں اور ہندو کمیونٹی کے لیے بھی یہ سال بہت بھاری ثابت ہوا ہے۔ پہلے تو سندھ کے شہرگھوٹکی میں نو عمر بچی رنکل کماری کے اغوا کا واقعہ پیش آیا پھر اسی دن تبدیلی مذہب کے بعد اس کی جبری شادی کرا دی گئی۔

پورے پاکستان میں مذہبی اقلیتی کمیونٹی میں اس واقعے پر شدید غم و غصہ پایا گیا جس کا اظہار انہوں نے پاکستان کے بڑے شہروں میں پرامن احتجاج ریکارڈ کروایا کر کیا۔

ایسے واقعات پر پاکستانی مذہبی اقلیت کے ساتھ سول سوسائٹی نے ہمیشہ کی طرح اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور اقلیتوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے سڑکوں پر نکلی لیکن حیرت کا مقام یہ تھا کہ معزز عدالت نے جب اس بچی کو والدین کے حوالے کرنے کی بابت فیصلہ دیا تو چند مٹھی بھر شرپسند عناصر نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا اورعدالتی فیصلے کے خلاف فتوے دیے۔ علاوہ ازیں، حیرت کی بات یہ ہوئی کہ ہماری ریاست اور معزز عدالت ان چند مٹھی بھرعناصر کے سامنے بے بس دکھائی دی۔

یوں ایک ایٹمی طاقت عملاً Banana Republic نظر آئی ابھی اس واقعے کی گرد نہیں بیٹھی تھی کہ پشاور میں ایک مسیحی خاندان پر دن دیہاڑے کلاشنکوف سے گولیاں برسائی گئیں جس سے دو مسیحی شدید زخمی ہو گئے، ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے مسیحی ہوتے ہوئے پشاور کے ایک نسبتاپوش علاقے میں اپنی جمع پونجی سے گھر خرید لیا تھا جہاں پر مسلمان رہائش پذیر تھے۔ چھٹے آپریشن کے دوران وہ شخص ندیم جوزف اس جہان فانی سے کوچ کر گیا جب کہ اس کی ساس اب خطرے سے باہر ہے اس واقعے کے بعد بھی پاکستانی مسیحی کمیونٹی اور سول سوسائٹی نے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا کیونکہ وہ یہی کر سکتے تھے۔ اس واقعے کے فوراً بعد فیصل آباد میں ایک نو عمر مسیحی بچی کے اغوا کے بعد اسی دن تبدیلیٔ مذہب اور جبری شادی کا واقعہ پیش آیا اس طرح کے واقعات تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اسی دوران 13 / 14 سالہ مسیحی بچی آرزو راجہ کا کیس جس کا تعلق کراچی سے ہے خبروں کی زینت بنا۔

طریقہ واردات وہی تھا ایک دن اغوا پھر اسی دن جبری تبدیلیمذہب اور جبری شادی، اس واقعے کو لے کر پاکستان بھر میں بسنے والی مسیحی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ روشن خیال اور بہتر پاکستان کے خواہاں مرد و زن جو کہ پاکستان کو حقیقتاً قائد کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں، نیم مسیحی کمیونٹی کے شانہ بشانہ بھرپور احتجاج کیا یہاں پر ذی شعور لوگوں کے لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ صوبہ سندھ کے قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر بچے اور بچی کی شادی نہیں ہو سکتی اس کے علاوہ بھی common sense کی بات ہے کہ اگر اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ایک بچہ اپنا ڈرائیونگ لائسنس نہیں بنوا سکتا، اس کے لئے قومی شناختی کارڈ کا حصول نا ممکن ہے، ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتا، سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اس عمر میں تو بچے میٹرک میں اپنا گروپ سائنس یا آرٹس بھی خود منتخب نہیں کر سکتے تو پھر وہ اپنی مرضی سے شادی کیسے اور کس قانون کے تحت کر سکتے ہیں۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کی 13 سال کی عمر میں تو بچے کو اپنے ہی مذہب کے بارے میں محض سرسری سی معلومات ہوتی ہیں، ایسی صورت میں کسی اور مذہب سے متاثر ہو کر مذہب تبدیل کر لینا کافی عجیب معاملہ لگتا ہے۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں میں تقریباً 55 مسیحی لڑکیوں کے مبینہ جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات پیش آئے ہیں ان میں سے 95 فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے ہندو لڑکیوں کی تعداد ا ن گنت ہے۔

ا بھی ذہن و دل انہی خیالات میں الجھے ہوئے تھے کہ ایک ویڈیو دیکھنے کوملی یہاں یہ بات قابل غور و فکر ہے کہ یہ ویڈیو کسی دور افتادہ شہر، گاؤں یا قصبے کی نہیں بلکہ پاک وطن کے دارالحکومت (کہنے کی حد تک) ۔ جدید پڑھے لکھے شہر اسلام آباد کی تھی اس ویڈیو میں کپٹیل ڈیلویلپمنٹ اٹھارٹی ( سی ڈی اے ) کا ایک ڈپٹی ڈائریکٹر۔ محسن شیرازی جو کہ میری دانست کے مطابق کوئی خاصا پڑھا لکھا شخص ہونا چاہیے تھا مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے نہایت بے ہودہ زبان میں مخاطب تھا گندی اور غلیظ گالیاں دے رہا تھا لیکن سب سے خطرناک حرکت جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ اس نے مسیحی کمیونٹی کے لوگوں کو یہ دھمکی دی کہ اگر تم لوگ میری بات نہیں مانو گے تو تم پر گستاخ رسول کے پرچے کروا دوگا۔

جو لوگ اس بات کی حساسیت سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ ایساہو جائے تو صورتحال کیا ہوگی۔ خاکسار کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہے اس واقعے کی ویڈیو کو لے کر جب مسیحی کمیونٹی کے لوگ متعلقہ تھانے گئے اور ایس ایچ او صاحب سے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہا، ایس ایچ او صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

ایس ایچ او صاحب نے ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے روایتی حیلے بہانے تراشنا شروع کر دیے ایس ایچ او صاحب فرما رہے تھے کہ یہ ویڈیو ایڈٹ ہوئی ہے فلاں شخص فلاں بات کر رہا ہے وہ تو یوں تھا وغیرہ وغیرہ۔ ان سے جب کہا گیا کہ مائی باپ آپ کا کام فرانزک کروانا نہیں آپ عدالت نہیں یہ کام تو معزز عدالت کا ہے لہذا آپ مہربانی فرما کر قانون کے مطابق ایف آئی آر کا اندراج عمل میں لائیں اس تمام بحث و تکرار کے باوجود ایس ایچ او صاحب نے اس شخص کے خلاف پرچہ کاٹنے اور ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا حا لا نکہ ضا بطہ فوجداری 154 کے تحت یہ کیس قابل دست اندازی پولیس میں آتا تھا اس کے علاوہ 22 A اور 22 B CRPC۔ کے آرٹیکل بھی یہی کہتے ہیں۔

افسوس صد افسوس ابھی ان سب واقعات پر دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ دو دن پہلے ایک اور انتہائی کربناک اور انتہائی المناک تصویر اور وڈیو آنکھوں کے سامنے سے گزری جس میں ایک مسیحی بیوہ ماں اوراس کے اکلوتے جوان بیٹے کو اس کے دو معصوم بچوں جن میں سے ایک کی عمر تین سال اور دوسری شاید ایک سال کی ہوگی کے سامنے دن دیہاڑے بے دردی سے 24 گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ تصویر دیکھنے کے بعد میرا قلم اور میرے الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).