مولانا خادم کی موت پر مجھے خوشی کیوں نہیں ہوئی؟


کل جب مولانا خادم کی وفات کی خبر سنی تو حیرت ہوئی کہ دو دن پہلے تک مولانا صاحب فیض آباد میں ناموس رسالت کے دھرنا سے اپنے روایتی انداز میں خطاب کر رہے تھے تو اچانک ایسا کیا ہو گیا؟ الیکٹرانک میڈیا میں ان کی موت کی وجہ سانس میں دشواری اور پھر ہارٹ اٹیک بتائی گئی۔ مگر سوشل میڈیا پر ان کی اس طرح اچانک موت کے تانے بانے ان کے کچھ دن پہلے اپنے گزشتہ دھرنا کے بارے میں دیے گئے ایک بیان سے جوڑے گئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ دھرنے پر بلانے والوں کے نام بتا دیں گے۔

جس ملک کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہو وہاں پر ایسا ہونا کوئی انہونی بات بھی نہیں ہے کہ سچ سامنے آ جانے کے ڈر سے کسی شخص کو منظر عام سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا جائے۔ مگر بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور تفصیلات سامنے آنے سے پہلے ہی اس طرح کی قیاس آرائیاں کرنا بالکل بھی مناسب نہیں تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر سوشل میڈیا پر کہیں مولانا کی وفات کا مذاق اڑایا گیا اور کہیں جو لوگ ان کے نظریات کے مخالف تھے، ان کی طرف سے ان کی موت پر خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا رہا۔

نا صرف خوشی کا اظہار کیا جاتا رہا بلکہ اس کی توجیہات بھی بیان کی جاتی رہیں کہ ”چونکہ مولانا صاحب نے اپنی زندگی میں نفرت اور انتہا پسندی کا پرچار کیا اس لیے ان کی جانے سے ایک برے کردار کا خاتمہ ہوا اس لیے اس پر خوش ہونا چاہیے۔“ یا ”جب کوئی مذہبی شدت پسند سلمان تاثیر یا ان جیسی سوچ کے حامل شخص کی موت پر خوشی کا اظہار کرتا ہے تو ہم کسی ایسے مذہبی شدت پسند کی موت پر خوش کیوں نہ ہوں؟“ تو نا صرف یہ رویہ بہت نا مناسب ہے بلکہ یہ توجیہات بھی بہت بودی ہیں۔

کیونکہ کسی مخصوص نظریات کے حامل ایک شخص کے چلے جانے سے وہ نظریات تو ختم نہیں ہوتے۔ وہ تو اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں۔ اور اس شخص کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے۔ اس لیے اس شخص کے چلے جانے پر خوشی منانے کا کیا فائدہ۔ بات تو تب ہو کہ دلیل کے ساتھ ان نظریات کے حامل تمام لوگوں کی سوچ بدلی جائے۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو پھر اس کی خوشی بھی منائی جائے۔

مگر ایسا کیسے ممکن ہو سکتا کہ جب ایسی انتہا پسند سوچ کی مخالفت کرنے والے، اس کو غلط کہنے والے خود بھی اسی روش کا شکار نظر آتے ہوں اور وہ بھی مذہبی انتہا پسندی کی طرح مذہبی نظریات کی مخالفت میں بھی انتہا پسندی کا مظاہرہ کریں تو پھر دونوں میں فرق کیا رہ گیا؟ وہ ایک انتہا پر ہیں تو آپ دوسری انتہا پر، اگر آپ کو لگتا ہے کہ ایک انتہا کو ختم کرنے کا حل دوسری انتہا پر جا کر اس کا مقابلہ کرنا ہے تو ماسوائے خام خیالی کے یہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

اسی لیے مولانا خادم رضوی سے بہت زیادہ نظریاتی اختلاف ہونے کے باوجود بھی مجھے ان کی موت کی خوشی نہیں ہوئی۔ کیونکہ میرا نظریاتی اختلاف ان کی سوچ سے تھا اور رہے گا بھی، مگر ان کی ذات سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بلکہ میں تو ان کے انداز بیان کا مداح رہا ہوں۔ اسی لیے اس بات کا افسوس بھی ہے کہ ہم اب ان کے روایتی اور مخصوص انداز بیان سے محروم رہیں گے۔ ہاں مجھے تب ضرور خوشی ہوگی جب ہمارے سماج سے انتہا پسند سوچ ختم ہونے کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔ جس کی مستقبل قریب میں تو کوئی امید نظر نہیں آتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).