انڈیا سے لندن پہنچنے والا غریب بیلے ڈانسر


کمال سنگھ
Photography by ASH
کمال سنگھ کی کراؤڈ فنڈنگ کی مہم کو انڈیا میں بہت پذیرائی ملی
چار سال پہلے 17 سالہ کمال سنگھ سکول ختم کرنے کے بعد اپنی ابتدائی بیلے کلاسز لے رہے تھے۔ اب 21 سالہ سنگھ، جو کہ انڈیا کے رکشہ ڈرائیور کے بیٹے ہیں، پہلے انڈین ڈانسر بن گئے ہیں جن کو انگلش نیشنل بیلے سکول کے پروفیشنل تربیتی سکول میں جگہ ملی ہے۔

وہ چیلسی میں اپنے خاندان اور گھر سے، جو کہ دہلی کے وکاسپوری علاقے میں واقع ہے، بہت دور رہ رہے ہیں اور اپنے دن ماسک پہنے اور سماجی دوری رکھتے ہوئے بیٹرسی کے ڈانس سٹوڈیو میں 12 دوسرے طلبہ کے ساتھ تربیت حاصل کرتے ہوئے گزار رہے ہیں۔

ان سب کا خواب ایک بڑی بین الاقوامی بیلے کمپنی میں شامل ہو کر نورییوو اور فونٹین کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے اس کے پرنسپل ڈانسر کے عہدے تک پہنچنے کا ہے۔

کمال کے لیے ایسا اپنے استاد، ارجنٹائن کے ڈانسر فرنینڈو ایگیلیرا کی مدد اور بالی ووڈ کے آشر باد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیئے

کمال کہتے ہیں کہ ’جب میں نے سنا کہ مجھے انگلش نیشنل بیلے سکول میں جگہ مل گئی ہے تو میں بہت خوش ہوا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں کچھ دکھی بھی تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میرے والد اس کی فیس نہیں بھر سکتے۔‘

’لیکن میرے استاد نے مجھے کہا کہ میں پیسوں کے متعلق پریشان ہونا چھوڑ دوں، اور صرف بیلے اور ڈانس پر توجہ مرکوز رکھوں۔‘

کمال سنگھ

Photography by ASH
لندن میں ان کی روزانہ کی کلاسیں سماجی دوری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور ماسک پہنے ہوئے ہوتی ہیں
کمال سنگھ بیلے کلاس میں تربیت حاصل کرتے ہوئے

Photograph by ASH
کمال سنگھ بیلے کلاس میں تربیت حاصل کرتے ہوئے

دہلی کی امپیریئل فرنینڈو بیلے کمپنی میں فری ٹرائل کلاسیں لینے کے لیے آنے والے کمال کو پہلی نظر میں ہی دیکھ کر ایگیلیرا کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کو ایک غیر معمولی ٹیلنٹ مل گیا ہے۔

لیکن ٹین ایجر بیلے کی تعلیم حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ان کا گھر بیلے سکول سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ ان کے والد خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے دو نوکریاں کرتے تھے اور بیلے کی ٹیوشن کے پیسے دینے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

تو اب یہ ذمہ داری ایگیلیرا کے کاندھے پر آن پڑی کہ وہ کمال سنگھ کے خاندان کو قائل کریں اور آگے کا کوئی راستہ نکالیں۔ اگلے تین سال انھوں نے کمال کو مفت ٹیوشن دی، دہلی میں اپنے گھر میں ایک کمرہ دیا، اور آخر کار کمال کے لندن جا کر معتبر انگلش نیشنل بیلے سکول میں تربیت حاصل کرنے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے میں بھی مدد دی۔

بیلے سکول میں ایک سالہ کورس کی فیس 8,000 پاؤنڈ ہے اور اس کے علاوہ دوسرے اخراجات بھی۔ یہ کمال کی دسترس سے باہر تھے، لیکن دونوں نے مل کے کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے پیسے اکٹھے کرنا شروع کر دیے۔

انھوں نے جو کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم چنا اس کا نام کیٹو تھا اور اس کے شریک بانی بالی وڈ کے اداکار کنال کپور تھے، جنھوں نے اپنی سٹار پاور اور سوشل نیٹ ورک استعمال کرتے ہوئے نوجوان ڈانسر کے لیے فنڈ اکٹھے کیے۔ ان کی دیکھا دیکھی بالی وڈ سٹار ریتک روشن نے بھی اس فنڈ میں 3,200 پاؤنڈ دینے کا وعدہ کیا۔

https://twitter.com/kapoorkkunal/status/1306121542359605249

چند ہی ہفتوں میں کمال کے فنڈ میں 18,000 پاؤنڈ جمع ہو چکے تھے، اور تقریباً 21,000 کا چندہ مل چکا تھا۔ اور ابھی بھی پیسے آ رہے تھے۔

کمال کہتے ہیں کہ ’مجھے انڈین کمیونٹی سے بہت حمایت ملی۔‘

’میرے استاد کے پاس بہت زیادہ نئے طالب علم آئے ہیں جو میری خبر سننے کے بعد، انڈیا میں بیلے کی تربیت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے انھیں واقعی تحریک ملی ہے۔‘

’میں امید کرتا ہوں کہ میری کامیابیوں کے بعد انڈیا میں مزید لوگ بیلے کو بطور ایک پیشہ اپنائیں۔‘

کمال سنگھ اور ویویانے دورانتے

Photography by ASH
آرٹسٹک ڈائریکٹر ویویانے دورانتے کہتی ہیں کہ مرد طالب علموں میں بیلے کا معیار بہت اچھا ہے

اب تک، بین الاقوامی بیلے کے ستارے بہت کم ہی نظر آتے تھے۔

رائل بیلے کی پرنسپل ڈانسر اور انگلش نیشنل بیلے سکول کی آرٹسٹک ڈائریکٹر ویوین دورانتے کہتی ہیں کہ ’کئی مرتبہ ٹیلنٹ اس جگہ چھپا ہوتا ہے جس کے متعلق آپ نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔‘

انھوں نے کمال کی آن لائن درخواست کو دیکھ کر انھیں پروگرام کے لیے چنا تھا، اور وہ کمال کی کلاس میں توجہ اور مختلف طرح کے کام کرنے کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انڈین ڈانس کلاسیکی بیلے سے کافی مماثلت رکھتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے ہاتھ، اپنا اوپر کا جسم اور اپنی بانہوں سے اظہار کرتے ہیں۔‘

’اب یہ ہم پر ہے کہ بیلے کو دوسری ثقافتوں تک بھی پہنچائیں، انھیں سکھائیں اور انھیں اپنی دنیا میں ضم کریں۔

’آپ کو ایسے ڈانسر چاہیں جو اپنی کہانیاں ساتھ لائیں، اپنی ثقافت لائیں۔ اس سے یہ دلچسپ ہو جائے گا۔

’ڈانس وہ زبان ہے جو ہم سب بولتے ہیں۔ اس کے درمیان پیسے کو نہیں آنا چاہیے۔‘

بالی وڈ کی حوصلہ افزائی

کمال پانچ سال پہلے ’بیلے کی ایک جھلک دیکھنے‘ کو ایک اہم موڑ قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں شروع سے ہی کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا۔ میں ڈانس کرنا چاہتا تھا، لیکن میرے والدین مجھے سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔‘

’اس کے بعد، چار سال پہلے، میں نے بالی وڈ فلم اے بی سی ڈی (اینی باڈی کین ڈانس) دیکھی اور میں نے پہلی مرتبہ بیلے دیکھا۔ یہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔‘

نوجوان کمال حیران تھے کہ کیسے لڑکے لڑکیوں کو ایک ہاتھ سے اٹھا لیتے اور کیچ کر لیتے۔۔۔ اچھلنے، مڑنے اور ڈانس میں سنگت۔

’بیلے میں آپ کے جسم کا ہر پٹھا کام کرتا ہے۔ اس میں طاقت اور سٹیمنا چاہیے۔ آپ کو روزانہ ورزش کرنی ہے۔ آپ کو روزانہ مشق کرنی ہے۔

’میرے ذہن میں بیلے کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔‘

Kamal Singh and Joel Kioko

Photography by ASH
درانتے کہتی ہیں کہ انگلش نیشنل بیلے کے 70 فیصد طلبہ کسی نہ کسی قسم کی مالی معاونت حاصل کرتے ہیں

کمال کو لندن میں آئے ہوئے ایک مہینہ ہی ہوا ہے اور یہاں نومبر کی کہرے کی راتیں آ رہی ہیں۔ ان کی کٹھن تربیت کا شیڈول بہت سخت ہے، جن میں صرف شہر میں دور تک پیدل چلنا اور اپنی پسندیدہ انڈین خوراک لینے کے لیے دوکانوں پر جانے اور خاندان کے ساتھ واٹس ایپ پر بات کرنے کے لیے ہی وقفہ ملتا ہے۔ وہ اکیلے رہتے ہیں لیکن اصرار کرتے ہیں کہ وہ تنہائی کا شکار نہیں ہیں۔

بیلے سب کے لیے نہیں ہے۔ یہ ان کے لیے ہے جو جسمانی اور ذہنی طور پر سمارٹ ہیں۔ کوئی بھی یہ تکنیک سیکھ سکتا ہے۔ لیکن اکثر یہ پرسکون اور مثبت رہنے کے متعلق ہے۔

دورانتے جو کمال کو سکھاتی ہی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ ’آپ ڈانسر کو تربیت دیتے ہیں، لیکن اصل میں آپ ایک فرد کو تربیت دے رہے ہوتے ہیں، آپ ایک فرد کی مدد کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ پھلے پھولے اور اپنی بہترین صلاحیتیں سامنے لائے۔‘

’داؤ بہت زیادہ ہے اور آپ کو پرامید رہنے کے لیے اپنی بہترین کوشش کرنی ہے۔ آپ کو بہت زیادہ لچکدار رہنا ہے۔

’یہ آسان پیشہ نہیں ہے، یہ تھوڑے عرصے کا پیشہ ہے، لیکن یہ بہت نشہ آور پیشہ ہے۔ جب آپ اس کو شروع کرتے ہیں تو پھر آپ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔‘

جوئل کیوکو

Photography by ASH
جوئل کیوکو کہتے ہیں کہ یہ ان کا کام ہے کہ وہ حاضرین کو اچھا محسوس کرائیں

اس سال انگلش بیلے کے تربیتی پروگرام میں صرف تین لڑکے ہیں، اور یہ سبھی ان جگہوں سے آئے ہیں جہاں بیلے واضح، یا آسان کیریئر کا انتخاب نہیں ہے۔

ان کے ساتھ طالب علم کیوکو بھی کمال کی ہی طرح مشکل حالات سے گذر کر یہاں پہنچے ہیں۔ ان کا بچن کینیا میں گذرا ہے۔

20 سالہ جوئل کی کوشش ہے کہ وہ بیلے کمپنی میں جگہ بنا سکیں۔ وہ پہلے ہی انگلش نیشنل بیلے سکول میں تین سال کی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تربیتی پروگرام دراصل اپنی مہارت کو بہتر بنانے کے لیے ہے۔

’آخر میں جو میں حاصل کرنا چاہتا ہوں وہ 2020 سے باہر نکلنا ہے اور نوکری حاصل کرنی ہے۔ میں کسی نہ کسی طرح بیلے ڈانسر بننا چاہتا ہوں۔‘

تعلیم حاصل کرنے کے لیے کمال کی طرح ان کی بھی مدد نجی سپانسر کر رہے ہیں۔ وہ بہت کم ہی گھر واپس جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے اور ان کو اپنے گاؤں میں خاندانی اجتماعات، خوراک اور سورج کی روشنی بہت یاد آتی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ بیلے ڈانسر بننے کے لیے خرچہ اور نسل ابھی بھی کامیابی میں ایک رکاوٹ ہیں۔

’کسی کے لیے کلاس لینا اتنا مہنگا نہیں ہونا چاہییے۔ یہ بہت مہنگا ہے۔ اور اس کے بعد آپ کو چست پوشاک یا بیلے کے جوتے بھی لینا ہوتے ہیں۔‘

Jose Hurtardo, in ballet class

Photography by ASH
ہوزے کہتے ہیں کہ میکسیکو میں ان کے سکول میں لڑکے سمجھتے تھے کہ صرف لڑکیاں ہی بیلے ڈانس کرتی ہیں

20 سالہ ہوزے ہرٹاڈو کا بیلے ڈانس خاندانی پیشہ ہے۔ ان کی ماں اور باپ دونوں ہی بیلے ڈانسر تھے اور ان کا چھوٹا بھائی بھی میکسیکو میں بیلے ڈانس کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔

’میں نے پانچ سال کی عمر میں اپنی پہلی کلاس لی تھی، لیکن مجھے اس کے متعلق سب کچھ پہلے ہی سے معلوم تھا کیونکہ ہمارے خاندان میں بس اس کا ذکر ہی ہوتا تھا۔‘

اس کے باوجود ان کے والدین نے سمجھا کہ بیلے کا پیشہ بہت مشکل ہے۔ انھیں یاد ہے کہ انھیں اس سکول سے لے کر جایا جاتا تھا جہاں فٹ بال کا راج تھا۔

انھیں بھی سکالر شپ اور سپانسر شپ سے مدد ملی لیکن انھیں یقین ہے کہ بیلے کی دنیا ’یقیناً بدل رہی ہے۔‘

’میں ایک لڑکا ہوں، میں میکسیکن ہوں۔ جوئل افریقہ کے ایک سیاہ فام ہیں۔ کمال انڈیا سے ہیں۔ یہ عجیب ہیں کہ ہم اب بیلے کر رہے ہیں۔

’میں واقعی تعاون محسوس کرتا ہوں۔ اور میں ہر روز ڈانس کر سکتا ہوں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp