پی ڈی ایم کے اجلاس میں محسن داوڑ کی شرکت پر سوال کیوں اٹھا؟


رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ، فائل فوٹو

پشتون تحفظ تحریک کے بانی رکن اور شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا ہے کہ حزب اختلاف میں شامل سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اعلیٰ سطحیٰ اجلاس میں ان کی شرکت پر اعتراض کرنا دراصل اس تحریک کے ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت کی بحالی کے مقصد کو سبوتاژ کرنا ہے۔

دو روز قبل اسلام آباد میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایک اعلیٰ سطحیٰ اجلاس میں تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے محسن داوڑ کی شرکت کے بارے میں سوال اٹھایا تھا۔ تاہم محسن داوڑ نے کہا تھا کہ وہ بحیثیت ممبر قومی اسمبلی اپنی ذاتی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے محسن داوڑ کی اس اجلاس میں شرکت کے بارے میں سوال اٹھانے کی تصدیق مولانا فضل الرحمان کے ایک معتمد اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتحار حسین نے کی تھی، مگر دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ جب کہ محسن داوڑ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ مختصر بات چیت میں اسے اجلاس کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس پر مزید تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔

کراچی میں پی ڈی ایم کی ریلی کا ایک منظر
کراچی میں پی ڈی ایم کی ریلی کا ایک منظر

حزب اختلاف کی لگ بھگ 11 سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے مرکزی ترجمان میاں افتخار حسین نے ذرائع ابلاغ کو بتایا یے کہ محسن داوڑ کے بدھ کو ہونے والے اجلاس میں شرکت پر بحث اس وقت شروع ہوئی تھی جب تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تمام جماعتوں سے دو دو نام مانگے۔

محسن داوڑ نے صرف اپنا نام دیا تو مولانا صاحب نے دوسرے نام کے بارے میں استفسار کیا۔ جواب میں محسن نے بتایا کہ وہ اس وقت اپنی ذاتی حیثیت میں پی ڈی ایم کی سرگرمیوں میں شریک ہو رہے ہیں نہ کہ پشتون تحفظ تحریک کے رہنما یا نمائندے کی حیثیت سے۔

اس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس معاملے پر بعد میں بات کریں گے۔ ابھی تک پی ڈی ایم کے فورم پر اس مسئلے پر کسی قسم کی مزید بات نہیں ہوئی ہے۔

تاہم محسن داوڑ نے جمعے کے روز اپنے ٹوئٹر پیغامات میں پی ڈی ایم کے اجلاس میں ان کی شرکت پر اُٹھائے گئے سوال پر تفصیلی اظہار خیال کیا تھا، مگر اس میں انہوں نے نہ تو تحریک کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور نہ ہی کسی اور جماعت کے عہدیدار کا نام لیا تھا۔

This image contains sensitive content which some people may find offensive or disturbing.
کوئٹہ میں پی ڈٰی ایم کے جلسے کا ایک منظر
کوئٹہ میں پی ڈٰی ایم کے جلسے کا ایک منظر

اپنی ٹوئٹ میں محسن داوڑ کا کہنا ہے، “میں شروع سے ہی پی ٹی ایم کا بنیادی ممبر رہا ہوں۔ تاہم، میں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ پی ٹی ایم ایک تحریک ہے اور بطور سیاسی جماعت رجسٹرڈ نہیں ہے۔ میں نے حزب اختلاف کی اے پی سی کی دعوت قبول کی اور اپوزیشن کی حیثیت سے پی ڈی ایم کا حصہ بننے پر اتفاق کیا۔ اور ممبر پارلیمنٹ اور پشتونوں کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اجلاس اور سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔”

محسن داوڑ نے مزید لکھا ھے” پی ڈی ایم میں میری نمائندگی کے بارے میں کبھی کوئی الجھن پیدا نہیں ہوئی ہے۔ یہ شروع سے ہی واضح تھا کہ پی ڈی ایم ان لوگوں کا اتحاد ہے جنہوں نے بلاول بھٹو زرداری کے نام سے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت کی۔”

محسن داوڑ کے بقول “ملک میں سینکڑوں سیاسی جماعتیں ہیں۔ تمام جماعتیں پی ڈی ایم میں نہیں ہیں۔ اس مرحلے پر پی ڈی ایم میں میری موجودگی پر سوال اٹھانا جمہوریت کے لیے فورم کی جدوجہد کے منافی ہے۔ میں نے اے پی سی کی دعوت قبول کی اور اس کے نمائندے کی حیثیت سے پی ڈی ایم کا حصہ بننے پر اتفاق کیا۔”

اپوزیشن جماعتوں کا کرونا کے باوجود جلسے کرنے پر اصرار، حکومت کی تنقید

محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ ماضی میں حزب اختلاف کے اتحادوں نے مرکزی دھارے کی سیاسی جدوجہد میں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔ اس وقت ملک میں فاٹا، أئی ڈی پیز، لاپتا افراد، مزدور اور سول سوسائٹی کے عام افراد کو مسائل کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پسماندہ لوگوں کے لیے میری جدوجہد کسی بھی اتحاد کی رکنیت پر نہیں ہے۔ میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق عوام کی خدمت کرنے اور ان کی شکایات کو تمام فورمز پر اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھوں گا۔

پشتون تحفظ تحریک کے ایک اور بانی رہنما اور جنوبی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں تصدیق کی ہے کہ محسن داوڑ ذاتی حیثیت میں پی ڈی ایم کے اجلاسوں اور سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں پشتون تحفظ تحریک کے سربراہ منظور پشتین نے بھی اجازت دی ہے۔

ابھی تک پی ڈی ایم میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں یا عہدیداروں نے محسن داوڑ کے نئے ٹوئٹر پیغامات پر کسی قسم کا بیان یا موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa