کرونا، آ بیل مجھے مار


دو تین پہلے دروازے ہر دستک ہوئی، باہر نکلا تو تقریباً نصف درجن تبلیغی بھائی ایک محلے دار کے ساتھ منتظر تھے۔ حسب معمول معاشرے کے دگرگوں حالات کا تذکرہ کر کے مسجد میں جانے کی دعوت دی جہاں ان کا ایک ساتھی دعوت و تبلیغ کے موضوع پر تقریر کر رہا تھا۔ دعوت و تبلیغ بہت اچھی بات ہے۔ کئی بار ان مجالس میں حاضر بھی ہوئے ہیں، ”ارادے“ کا ثواب بھی لیا ہے۔ لیکن حالات کے پیش نظر اس دن اچھے الفاظ میں معذرت کی کہ کرونا کی نئی لہر کی وجہ سے باہمی میل جول اور کسی بھی قسم کے چھوٹے یا بڑے اجتماع سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔

حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ احتیاطی تدابیر جن کے بارے میں ہم کچھ ڈھیلے پڑ گئے تھے، ایک بار پھر شروع کر دی جائیں۔ کرونا کی پہلی لہر اپنی واپسی کی آخری حد کو بس ہلکا سا چھو کر پلٹ آئی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ پلٹ کر جھپٹا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ گویا اب کی بار احتیاط کا دامن پہلے سے زیادہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ شاید عہد کر لیا ہے کہ دامن کو وسیع کیا کرنا، ویسے ہی اسے پھاڑ کر پھینک دینا ہے۔

شادیاں سادگی سے ان دنوں بھی ہو رہی تھیں، اور بہت اچھے طریقے سے ہو رہی تھیں جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے اجتماعات پر پابندی تھی۔ پابندی ہٹی تو ہم نے اگلی پچھلی تمام کسریں پوری کرنا شروع کر دی ہیں۔ شادی پر جگہ جگہ کے دوست احباب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ ایس او پیز پر عمل کرنا بھی ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے شادی بیاہ کی تقریبات پر سے پابندی ختم ہوتے ہی کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ شروع ہو گیا ہے۔

خانیوال کے ایک سکول کے ایک طالب علم کا کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر جب محکمہ صحت کی ٹیم اس کے قرنطینہ کے انتظامات کے لئے اس کے گھر گئی تو وہ مبینہ طور پر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ سیالکوٹ گیا ہوا تھا۔ اب اگر واقعی ایسا ہی ہے جیسا بیان کیا گیا ہے تو مذکورہ طالب علم نے نہ جانے کتنے لوگوں کو وہاں بیمار کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں ہم اگر احتیاط کا کوئی اجتماعی فیصلہ کر لیں اور شادی کی تقریبات کو پھر سے سادگی کا پہناوا پہنا دیں تو ہر طرح سے خیر ہی خیر ہے۔

تقریبات کے علاوہ شادیوں سے پہلے ہونے والی خریداری نے بھی بازاروں کو بھی میدان حشر بنا رکھا ہے۔ ”کھوے سے کھوا چھلنا“ والے محاورے کی عملی تصویر دیکھنی ہو تو آج کل بازاروں میں جا کر دیکھ لیجیے۔

شادی بیاہ کی تقریبات کے علاوہ بھی کرونا کے ایس او پیز کے حوالے سے ہمارا رویہ قابل تعریف نہیں ہے۔ تبلیغی بھائیوں کی جو جماعت دعوت کے لئے آئی، وہ محلے کے ایک ساتھی سمیت ساری کی ساری بغیر ماسک کے ہی تھی۔ ان کی بات ایک مناسب فاصلے سے سن لی اور عمل کا وعدہ اور ارادہ بھی کر لیا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے اس مقصد کے لئے سفر کو اور اجتماعات کو مؤخر کر دیا جائے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔ لوگ ایسا کر بھی رہے ہیں۔

ٹرانسپورٹ کو جب کھولا گیا تھا تو اس کے لئے واضح اصول و ضوابط طے کیے گئے تھے، مگر افسوس ان پر کوئی خاص عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ کاروبار کے لئے بھی طے کردہ اقدامات سے انحراف کیا جا رہا ہے۔ دکانداروں نے گاہکوں کو کیا کہنا وہ خود ہی ماسک پہننے کا تکلف نہیں کر رہے۔

مساجد میں با جماعت نمازوں کے لیے جو اپنی اپنی جائے نمازوں اور درمیانی فاصلے کا جو اصول اپنایا گیا تھا، اس کو دوبارہ بھی شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جنازوں پر بھی بہتر ہے کہ دوردراز کے رشتہ داروں کو استثنا دے دیں۔ وہ دہرے خطرے کا شکار ہوتے ہیں : سفر کے دوران اور پھر جنازے کے اجتماع میں شرکت سے لاحق ہونے والا خطرہ۔

کھانے پینے کے مراکز یعنی ہوٹلز، ڈھابوں اور فوڈ سٹریٹ کسی جگہ پر کوئی احتیاط نہیں برتی جا رہی۔ صبح کو کسی بھی شہر کی سبزی منڈی کی سیر کر کے دیکھ لیں، چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔

حالت یہ کہ لوگ بعض جگہوں پر ماسک نہ لگانے پر جرمانے بھر رہے ہیں لیکن پہننے کی تکلیف گوارا نہیں کر رہے۔ بیرونی میڈیا میں پہلی لہر کے موقع پر ہماری پالیسی کی تعریف کی بازگشت بھی سنائی دیتی رہی کہ ہمارے ہاں نسبتاً کم کیسز نکل رہے ہیں۔ کیا اب ہم اپنے غیر ذمہ دارانہ رویوں سے اس ساری محنت پر پانی پھیرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوششوں میں مصروف ہیں؟ لگتا تو ایسے ہی ہے۔

ہمارے ہاں ضروری حفاظتی اہتمام کے بغیر معاملات اللہ کے سپرد کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے کہ اللہ مالک ہے۔ بہت اچھا رجحان ہے، بے شک اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہے، ہمارا سب سے بڑا محافظ ہے لیکن یہ بھی تو عین اسلام ہے کہ اونٹ کا ”گوڈا“ (گھٹنا) باندھ کر اسے اللہ کے سپرد کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).