پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ نیوزی لینڈ : کیا پاکستانی ٹیم کے ساتھ بھی وہی ہو گا جو انڈیا کے ساتھ ہوا؟


پاکستان، نیوزی لینڈ
ہر نیا امتحان پہلے سے زیادہ سخت اور مشکل ہوتا ہے۔ ہر نئی سیریز اور نیا دورہ اپنے ساتھ مختلف موسمی حالات اور میزبان ٹیم کو مہمان ٹیم پر حاصل امتیاز لیے ہوتا ہے اور اس سب کا سامنا کرنے کے لیے مہمان ٹیم کو پہلے سے زیادہ تیار رہنا ہوتا ہے۔

پاکستانی کرکٹ ٹیم کی منزل اب نیوزی لینڈ ہے۔ اس سے قبل وہ رواں برس کووڈ 19 کے درمیان انگلینڈ کا مشکل حالات میں دورہ کر چکی ہے۔

پاکستانی ٹیم کے لیے انگلینڈ کا دورہ اس اعتبار سے کامیاب نہیں رہا تھا کہ اسے تین میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں ایک صفر سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی برابری پر ختم ہوئی تھی۔

دورے کے اختتام پر کپتان اظہر علی کی قائدانہ صلاحیتوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں قیادت سے علیحدہ کرنے میں دیر نہیں لگائی تھی۔

مبصرین اور ماہرین کے خیال میں نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز بھی انگلینڈ کی طرح مشکل ہوتی ہیں جہاں مہمان ٹیموں کو فوری ایڈجسٹ کر کے اچھی کارکردگی دکھانا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔

نیوزی لینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم کو دو ٹیسٹ اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلنے ہیں۔ یہ پہلی بار ہوگا کہ بابر اعظم ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کریں گے۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی کے بعد اب انھیں ٹیسٹ کرکٹ کے لیے بھی کپتان مقرر کیا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انگلش ٹیم ’اکتوبر 2021 میں پاکستان کا دورہ کرے گی‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے والے نئے چہرے کون ہیں

پاکستان کی کپتانی کا میوزیکل چیئر گیم اور بابر اعظم کا ستارہ

ہیڈ کوچ مصباح الحق کے لیے بھی یہ دورہ بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس دورے کے لیے 35 رکنی سکواڈ منتخب کرنے کے بعد اب وہ چیف سلیکٹر نہیں رہے ہیں لہذا بحیثیت ہیڈ کوچ ان کی کارکردگی بڑی اہمیت کی حامل ہو گی کہ ایک نئے کپتان کے ساتھ وہ کس طرح ایک ایسی ٹیم کو زیر کرنے کی حکمت عملی بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو حالیہ برسوں میں اپنے ملک میں ناقابل شکست رہی ہے۔

مصباح الحق

مصباح الحق: نیوزی لینڈ کے پاس ماضی کے مقابلے میں اب بہت اچھا بولنگ اٹیک موجود ہے

مصباح الحق کیا کہتے ہیں؟

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا ہے کہ ’نیوزی لینڈ میں کنڈیشنز انگلینڈ سے ملتی جلتی ہیں، فرق صرف گیندوں کا ہے۔ انگلینڈ میں ڈیوک کی گیند استعمال ہوتی ہے جبکہ نیوزی لینڈ میں کوکابورا کی گیند سے کرکٹ کھیلی جاتی ہے۔ وہاں پر عام طور پر سیمنگ وکٹیں ملتی ہیں جو بیٹسمینوں کے لیے چیلنجنگ ہوتی ہیں۔‘

مصباح الحق کہتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کے پاس ماضی کے مقابلے میں اب بہت اچھا بولنگ اٹیک موجود ہے۔ ان کے پاس ٹرینٹ بولٹ کی شکل میں بہترین لیفٹ آرم سوئنگ بولر ہے۔ ’ٹم ساؤدی اور نیل ویگنر کی شکل میں ان کے پاس تجربہ کار بولرز ہیں۔ ان کے سپنرز بھی اچھے ہیں اس لحاظ سے نیوزی لینڈ ایک سیٹ ٹیم ہے۔ ہمیں ایک کوالٹی حریف ٹیم کا سامنا ہو گا۔‘

مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے ملک میں بہت مضبوط واقع ہوئی ہے اور ہوم گراؤنڈ پر اس کے اعدادوشمار اس کی کامیابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن پچھلے اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمارا جیتنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔

’ہم نے جس طرح انگلینڈ میں ڈسپلن کے ساتھ کرکٹ کھیلی ہے اگر اسی طرح کھیلے تو ہمارے امکانات روشن ہیں صرف ہمیں میچ اپنے حق میں ختم کرنے کی صلاحیت کو بہتر کرنا ہوگا جس میں ہم نے انگلینڈ کی سیریز میں کمزوری دکھائی تھی۔‘

مصباح الحق اپنے فاسٹ بولرز سے بہت زیادہ توقع رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے دورے کے موقع پر پاکستانی بولنگ اٹیک ناتجربہ کار تھا تاہم اب اس میں پختگی آئی ہے۔ شاہین شاہ آفریدی کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ محمد عباس اور سہیل خان اچھی فارم میں ہیں۔ نسیم شاہ کو بھی تجربہ مل چکا ہے۔

مصباح الحق نئے ٹیسٹ کپتان بابر اعظم کے بارے میں کہتے ہیں کہ انھوں نے محدود اوورز کی کرکٹ میں صورتحال کو عمدگی سے ہینڈل کیا ہے، کپتانی کے ساتھ ان کی اپنی کارکردگی بھی اچھی رہی ہے جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر مضبوط کھلاڑی ہیں اور ان کی اس کارکردگی کا مثبت اثر ان کی کپتانی پر بھی پڑے گا۔

’یقیناً یہ ذمہ داری مشکل ضرور ہے لیکن کبھی نہ کبھی آپ کو یہ ذمہ داری سنبھالنی پڑتی ہے۔ یہ ذمہ داری اسی کو سونپی جاتی ہے جو آپ کا بہترین پرفارمر، بہترین کھلاڑی ہوتا ہے۔‘

بابر اعظم

یہ پہلی بار ہوگا کہ بابر اعظم ٹیسٹ میچوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کریں گے

نو سال سے ٹیسٹ سیریز جیتنے کا انتظار

پاکستانی کرکٹ ٹیم کا نیوزی لینڈ کے خلاف حالیہ ریکارڈ متاثرکن نہیں ہے۔ پاکستانی ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف آخری ٹیسٹ سیریز سنہ 2011 میں مصباح الحق کی قیادت میں جیتی تھی جب اس نے ہملٹن ٹیسٹ میں دس وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد سے کھیلی گئی تین میں سے دو سیریز نیوزی لینڈ کی ٹیم جیتی ہے اور ایک برابر رہی ہے۔

سنہ 2014 میں متحدہ عرب امارات میں کھیل گئی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز ایک ایک سے برابر رہی تھی۔ سنہ 2016 میں نیوزی لینڈ میں کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز کے دونوں میچوں میں پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سنہ 2018 میں متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں نیوزی لینڈ نے دو ایک سے کامیابی حاصل کی تھی۔

نیوزی لینڈ ہوم گراؤنڈ پر ناقابل شکست

نیوزی لینڈ کی تینوں فارمیٹس میں غیرمعمولی کارکردگی نے اسے ایک ایسی ٹیم بنا دیا ہے جسے کوئی بھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں وہ اس وقت دوسرے نمبر پر ہے۔ ون ڈے کی عالمی رینکنگ میں اس کا تیسرا نمبر ہے جس نے گذشتہ سال ورلڈ کپ کا فائنل بھی کھیلا تھا جبکہ ٹی ٹوئنٹی کی عالمی رینکنگ میں اس وقت اس کی چھٹی پوزیشن ہے۔

حالیہ برسوں میں نیوزی لینڈ کی ٹیم ہوم گراؤنڈ پر غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس نے آخری بار ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز سنہ 2016 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ہاری تھی جس کے بعد سے اس نے لگاتار چھ ہوم سیریز جیتی ہیں۔ اس عرصے میں اس نے دو بار انگلینڈ اور ایک ایک بار سری لنکا، بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور انڈیا کو شکست دی ہے۔

ان چھ سیریز میں نیوزی لینڈ نے مجموعی طور پر کھیلے گئے 12 میں سے نو ٹیسٹ میچ جیتے ہیں اور تین ٹیسٹ ڈرا ہوئے ہیں، یعنی نیوزی لینڈ کی ٹیم چار سال سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر کوئی ٹیسٹ میچ نہیں ہاری ہے۔

انڈیا کے خلاف اسی سال کھیلی گئی دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ نیوزی لینڈ نے دونوں ٹیسٹ بالترتیب دس اور سات وکٹوں کے واضح فرق سے جیتے تھے۔

اس سیریز میں انڈین کپتان وراٹ کوہلی بیٹنگ میں بھی غیرمتوقع طور پر بُری طرح ناکامی سے دوچار ہوئے تھے اور چار اننگز میں ان کے سکور کچھ اس طرح تھے: 2۔19۔3۔ اور 14۔

نیوزی لینڈ کو اپنی کنڈیشنز میں اپنے تیز بولرز سے بہت تقویت ملی ہے جن میں ٹم ساؤدی 284 وکٹیں حاصل کر کے سرفہرست ہیں۔ ٹرینٹ بولٹ کی وکٹوں کی تعداد 267 ہے جبکہ نیل ویگنر 206 وکٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔

ان تجربہ کار بولرز کے ساتھ ساتھ نئے فاسٹ بولر کائل جیمی سن نے بھی اپنی جانب سب کی توجہ مبذول کرا رکھی ہے۔ انڈیا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں میں انھوں نے نو وکٹیں حاصل کی تھیں جن میں کرائسٹ چرچ ٹیسٹ میں پانچ وکٹوں کی عمدہ کارکردگی بھی شامل تھی۔

جیمی سن انڈیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے بعد بھی زبردست فارم میں نظر آئے ہیں اور انھوں نے پلنکٹ شیلڈ کے لگاتار تین فرسٹ کلاس میچوں میں اننگز میں پانچ پانچ وکٹیں حاصل کی ہیں۔ سینٹرل ڈسٹرکٹس کے خلاف انھوں نے ہیٹ ٹرک بھی کی ہے۔

فخر زمان

فخرزمان دورے سے باہر

بائیں ہاتھ کے اوپننگ بیٹسمین فخرزمان بخار میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نیوزی لینڈ نہیں جا سکیں گے۔ اگرچہ ٹیم کی روانگی سے قبل ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا لیکن وہ مسلسل بخار میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے انھیں ٹیم سے الگ کر دیا گیا ہے۔

فخر زمان حالیہ ٹی ٹوئنٹی کپ میں سب سے زیادہ 420 رنز بنا کر ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔

پاکستان سپر لیگ میں اس سال وہ بابر اعظم کے بعد سب سے زیادہ رنز بنانے والے بیٹسمین تھے لیکن ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں ان کی کارکردگی مایوسی سے دوچار رہی ہے اور ڈھائی سال قبل آسٹریلیا کے خلاف 91 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد سے آخری سترہ اننگز میں ان کا سب سے بڑا سکور صرف 36 ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp