وزن گھٹائیے، کیلوریز اور قوم کو جلائیے


وزن کم کرنا آسان ہے اگر آپ کے ارد گرد موجود افراد آپ کی ہمت توڑنے کے درپے نہ ہوں۔ اگر ہوں بھی تو بجائے اس کے کہ آپ ان سے بحث کریں یا ہار مان لیں، بہتر یہ ہے کے ان کے سامنے مظلوم بن جائیں۔ مثال کے طور پر، دعوتوں میں لوگ اصرار کرتے ہیں بے حساب کھانے پر۔ ارے صرف اتنا سا کھایا، اور لیجیے نا، ابھی سے ہاتھ روک لیا، کیا کھانا پسند نہیں آیا، وغیرہ۔ اگر جو غلطی سے آپ نے کہ دیا کے وزن کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے آپ کو۔ جیسے وزن کم کرنا کوئی جرم ہو، اور شاید ہے اس معاشرے میں جہاں پیٹ پتلون کی بیلٹ کے اوپر سے ابل رہا ہو تو اسے صحت مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ عزت بھی ملتی ہے کہ کھاتے پیتے لوگ ہیں۔

تو لوگوں کو شک کا موقع نہ دیں۔ مظلوم بنیں، کہ دیں کہ آپ کی طبیعت خراب ہے، ڈاکٹر نے مرغن کھانے سے منع کیا ہے، بیماری کا ایسا نام بتائیں کے لوگوں کے کچھ سمجھ نہ آئے، ورنہ آدھی قوم تو حکیم بھی ہے، اپنا گھریلو معجون آپ کو فیرنی میں ڈال کر کھلا دے گی۔ شک کے بجائے ترس کے جذبے کا استعمال کریں، لوگوں کو اپنی بیماری پر ترس کھانے کا موقع دیں۔ بریانی کا تھال صاف کرنے پر اصرار بڑھ جائے تو پردادا یا پرنانا پر کوئی موروثی بیماری ڈال کر کہیں کہ آپ کے خاندان میں یہ بیماری ہے اور احتیاط ہی اس کا علاج ہے۔

پبلک خود بھری بھرکم ہو، ڈسپلن سے آری ہو، لیکن دوسرا اپنے جسم کے لئے اچھا کرنا چاہے تو برداشت نہیں، اس لئے اپنے آپ کو بیمار دکھائیے۔

لیکن پھر مصیبت یہ کہ تھوڑا وزن کم ہوا اور لوگ آپ کو واقعی بیمار سمجھیں گے اور ان کا ذہن فوری طور پر کسی پوشیدہ اور نازیبا بیماری کی طرف جائے گا۔ مرد ہیں تو آپ کو ایک طرف لے جا کر دھیمی آواز میں کہا جائے گا، ”بھائی، پریشان نہ ہو، ہمارے حکیم کا پتہ لے لو،“ کیونکہ وزن گرنا جنسی صلاحیت گرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اور لڑکیوں کے لئے تو اس معاشرے میں no۔ win حالات ہیں۔ وزن زیادہ ہو تو رشتے نہیں آتے، اگر وہ لڑکی وزن کم کر لے تو کہا جاتا ہے کہ ہو نہ ہو کوئی زنانہ بیماری ہے جس کی وجہ سے وزن گرا ہے۔ ملک میں شاید ہی کوئی شادی شدہ عورت ہو جو گائناکولوجی کی ماہر نہ ہو، اس لئے اس بیچاری کو خاندان آگے چلانے کے لئے نا موزوں قرار دے دیا جائے گا۔

ان باتوں کا اثر نہ لیں، اور وزن کم کرنے کی جستجو سے پیچھے نہ ہٹیں۔ کچھ سال پہلے عطا الحق قاسمی صاحب کے ایک کالم میں پڑھا تھا کہ وزن کم کرنے کے لئے چار ”چ“ چھوڑنا ضروری ہے : چینی، چپاتی، چاول، اور چکنائی۔ میں اس میں ایک ”چ“ کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ وزن کے حوالے سے جو ”چ“ پنے کی باتیں لوگ کرتے ہیں، ان کو مکمل نظر انداز کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

خود چونکہ کھا نے کی میز پر تمام حدود پار کی جاتی ہیں، اس لئے یقین ہی نہیں آتا کہ کھاتے ہوئے کوئی ضبط نفس کا مظاہرہ بھی کر سکتا ہے۔ ذرا وزن کم ہوا اور لوگ شروع، ”لاغر لگ رہے ہو، کمزور لگ رہے ہو“ ۔ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ اگر دیکھنے والے عقل کے اندھے ہیں تو انھیں نہیں معلوم آپ کتنا بہترین محسوس کر رہے ہیں اپنے پرانے کپڑوں میں فٹ آ کر۔ بولنے دیں، لاغر نظر آنا بہتر ہے 2 XL سائز کپڑے پہننے سے۔

یہ بھی یاد رہے، موٹوں کے معاشرے میں دبلے پتلے انسان سے لوگ جلتے ہیں۔ وہ آپ سے کہیں زیادہ کماتے ہوں، بہتر گاڑی چلاتے ہوں، لیکن لفٹ خراب ہونے کی صورت میں سیڑھیاں چڑھنے میں آپ کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے، اور یہ چیز ان کو اندر سے مار ڈالے گی۔ کسی دانشور نے کہا تھا، ”بہترین انتقام یہ ہے کہ آپ کی زندگی آپ کے دشمن سے بہتر ہو۔“ جب آپ کی پرانی 2 XL سائز کی ٹی شرٹ سے گھر میں پوچا لگ رہا ہو، اور آپ میڈیم سائز کے کپڑے پہنے ہوں، اس کا مطلب ہے آپ نے اپنے نفس کو فتح کر لیا، اور دنیا میں اس سے بڑی فتح کوئی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).