کرونا لاک ڈاؤن کے باوجود گرین ہاؤس گیسوں اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ جاری


صنعتی ممالک کاربن گیسوں کے بڑے پیمانے پر اخراج کے ذمہ دار ہیں۔

موسمیات سے متعلق عالمی تنظیم ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں کیے جانے والے لاک ڈاؤنز کے باوجود زمین کے کرہ ہوائی میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور یہ اخراج اپنی ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا ہے۔

یہ انکشاف تنظیم نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اوردیگر گرین ہاؤس گیسوں کے حجم سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں کیا ہے۔

کرونا وائرس کی عالمی وبا سے منسلک لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارت، چین اور دیگر کئی ممالک کے بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی میں کچھ کمی ہوئی ہے۔

تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے باوجود گرین ہاؤس گیسوں کے مسلسل اخراج میں کمی نہیں ہوئی جس سے کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ جاری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت کی وجہ سے برف کے تیزی سے پگھلنے، سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہونے اور شدید موسمی تغیرات جیسے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔

تنظیم کے سیکریٹری جنرل پیٹری ٹالس کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی ضرور ہوئی ہے لیکن اس کا کرۂ ارض کے درجۂ حرارت اور آب و ہوا کی تبدیلی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔

ساہیوال کا کول پاور پلانٹ ماحول دوست ہے یا نہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ اس سال عالمی وبا کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤنز سے گیسوں کے اخراج میں چار سے سات فی صد تک کمی ہوئی ہے لیکن اس سے کرۂ فضائی میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی صورتِ حال پر کوئی قابلِ ذکر اثر نہیں ہوا کیوں کہ یہ گیس طویل عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کے کرہ فضائی اور ماحولیات کی تحقیق کے شعبے کے سربراہ اوکسانا تاراسووا کہتے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ صدیوں تک فضا میں موجود رہتی ہے اور سمندروں میں اس سے بھی زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔

تاراسووا کا کہنا ہے کہ ہم نے ایسی تبدیلیاں ہوتے ہوئے دیکھی ہیں، لیکن یہ تبدیلیاں اس وقت رونما ہوتی ہیں جب آب و ہوا برفانی عہد سے اس معتدل درجۂ حرارت کے دور میں داخل ہوتی ہے جو دو برفانی زمانوں کا درمیانی عرصہ کہلاتا ہے۔ یہ تبدیلی عموماً 100 سے 200 برسوں کے دوران ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ تبدیلی گیسوں کے اخراج سے محض چار برسوں کے اندر لے آئے ہیں۔

آب و ہوا سے متعلق سن 2016 میں طے پانے والے پیرس معاہدے کا ہدف عالمی سطح پر سن 2050 تک درجۂ حرارت کو صنعتی دور سے پہلے کے درجۂ حرارت سے ایک اعشاریہ پانچ پوائنٹ اوپر تک لانا ہے۔ تالس کہتے ہیں کہ شاید یہ ہدف حاصل نہ کیا جا سکے۔ تاہم چین، یورپی یونین، جاپان اور جنوبی کوریا نے سن 2060 تک کاربن گیسوں کے اخراج کو قدرتی سطح تک لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

یہ ممالک دنیا میں کاربن گیسوں کے 50 فی صد اخراج کے ذمے دار ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa